ادبی دنیا

ملا جلا انتخاب

شخصیات

تاریخ

  • میانوالی کے قدیمی قصبہ واں بھچراں کے تاریخی پس منظر کا ایک شہ پارہ ۔ قیصر اقبال ٹھیٹھیہ کے قلم سے

    ایک منٹ
    تحریر ۔۔۔ملک قیصر اقبال ٹھیٹھیہ
    فرید خان کی روتی واں
    برصغیر کا وہ حکمران جسے پانچ سال حکومت کے لیے ملے اور اس نے ہندوستان کو عظیم بنا دیا ۔اسے 1540ء میں قنوج کی فتح کے بعد ہندوستان کا اقتدار ملا اور وہ 1545ء کے آغاز ہی میں انتقال کر گیا ۔بہار کے قصبے میں ایک پشتون گھرانے میں پیدا ہونے والا فرید خان جسے لوگ شیر شاہ سوری کے نام سے جانتے ہیں ۔اس کے آباؤ اجدادپشاور سے ہجرت کر کے بہار میں آباد ہو گئے ۔اسے جو ہندوستان حصے میں ملا تھا وہ حصوں بخروں میں بٹا ہو اتھا ۔راجوں ،مہاراجوں ،نوابوں اور چھوٹے چھوٹے علاقائی حکمرانوں کی سرزمین جس کاجو جی چاہتا ویسی ہی حکومت کرتا جیسا چاہتا مالیہ اور آبیانہ وصول کرتا ۔جس طرح کی چاہتا رعایا اور دوستوں پر نوزشات کرتا ۔شیرشاہ سوری نے برسر اقتدار آتے ہی اس بکھرے ہوئے ہندوستان کو ایک مربوط انتظامی ڈھانچے میں تبدیل کیا۔اس نے پورے ملک کو صوبوں میں تقسیم کیا ۔جنہیں سرکار کہا جاتا تھا۔پھر ان تمام صوبوں کو اضلاع میں تقسیم کیا جنہیں پرگنہ کہا جاتا تھا ۔پھر ان سب کا انتظام چلانے کے لیے اس نے ایماندار اور قابل افسران کا ایک گروہ رتیب دیا جنہیں سکے دار کہا جاتا او رسکے داروں پر نظر رکھنے کے لیے عدلیہ کا ایک گروہ منظم کیا جنہیں منصف ال منصفین کہتے تھے ۔ہر پرگنہ یا ضلع میں ایک فوجی افسر ،ایک خزانچی ،ایک جج اور دو اکاؤنٹنٹ رکھے ۔یہ دو اکاؤنٹنٹ فارسی اور ہندی میں حساب کتاب رکھتے تھے۔شیر شاہ سوری نے افسران کو دباؤ اور علاقائی تعلقات سے بچانے کے لیے ایک جگہ پر مدت ملازمت کی ایک ایسی پالیسی بنائی جس کے تحت کوئی افسر کسی جگہ پر دوسال سے زائد تعینات ہیں رہ سکتا تھا ۔اس کے بعد اس نے لوگوں کی خوشحالی کے لئے آزاد تجارت کے مواقع پیدا کیے اور ایسے تمام ٹیکس ختم کر دیے جو تجارت کی راہ میں رکاوٹ تھے ۔اس تجارت کو فروغ دینے کے لیے اس نے پورے ہندوستان میں سڑکوں کا جال بچھا دیا ۔جن میں سب سے بڑی سڑک پشاور سے کلکتہ تک تھی جسے جرنیلی سڑک یا موجودہ جی ٹیروڈکہا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ آگرہ سے برہان پور ،آگرہ سے چتوڑ تک ،لاہور سے ملتان تک اور کلکتہ سے ڈھاکہ تک چند ایک سڑکیں قابل ذکر ہیں ۔سڑکوں کے کنارے درخت لگائے گئے ہر تین کوس کے بعد ایک کنواں اور سرائے بنائی گئی ،اس نے پہلی دفعہ چاندی کے سکے جاری کیے جنہیں روپیہ کہا جاتا تھا آج بھی اس سکے کا نام پاکستان انڈیا سری لنکا ماریشس اور مالدیپ وغیرہ میں رائج ہے ۔اس نے پہلی مرتبہ کسٹم ڈیوٹی کا نفاذ کیا جسے آج پوری دنیا میں اہم ترین ٹیکس سمجھا جاتا اور اس پر عمل کیا جاتا ہے ۔ نامور کالم نگار اوریا مقبول جان نے فرید خان کی گڈگورنس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ برصغیر کا وہ پہلا حکمران جس نے زمین کی پیمائش کانظام بنایا آج بھی پٹواریوں پاس جو جریب ہے وہ اسی کا بنایا ہواآلہ پیمائش ہے۔اس پیمائش کے تحت اس نے پورے ملک کو زرعی،غیر زرعی میں تقسیم کیا ۔اس نے زمیداروں کی سہولت کے لیے تقاوی قرضے جاری کیے جو آج بھی رائج ہیں ۔اس نے ہر ضلع اور اہم قصبوں میں زمین کا ریکارڈ رکھنے کے لیے قانو گو مقرر کیے ہر پرگنہ میں منصف انصاف کے مطابق فیصلے کرتے تھے لیکن ان سب پر نظر رکھنے کے لیے جاسوسی کا ایک نظام قائم کیا جو اسے کسی بھی قسم کی کرپشن اور بد دیانتی کی خبر دیتا۔اس کی بنائی گئی سڑکوں پر ہر 12کلومیٹر کے بعد ڈاک چوکی بنائی گئی جو ڈاک خانے کا کام کرتی اس نے تعلیم کے لیے مدرسوں کا نظام قائم کیا ۔جو اس زمانے کے جدید ترین کالج تھے ۔ کئی بار عدالتوں نے اس کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو سزائیں سنائیں اور شیر شاہ نے ان پر عمل درآمد کرایا حتٰی کہ اس نے اپنے بیٹے کے خلاف بھی عدالت کی دی گئی سزا پر عمل درآمد کرایا۔صرف دو سال کے عرصے میں مکمل ہونے والا قلعہ رہتاس ضلع جہلم ایک تعمیراتی معجزے سے کم نہیں ۔
    واں بھچراں میں شیر شاہ نے پڑاؤ ڈالا اورایک (واں )کنواں بنایا جو ایک تاریخی شاہکار تھا مگر گزرتے وقت نے اسے گندگی کے ڈھیر میں بدل دیا ۔یہ وہ کنواں ہے جس میں ہاتھی تک نیچے جا کر خود پانی پیتے تھے ۔اس منفرد تاریخی کنواں میں نیچے تک 400کے لگ بھگ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں اورگھوڑوں اور ہاتھیوں کو ٹھہرانے کے لیے چار تھلے بھی بنائے گئے تھے ۔گرمیوں میں اس جگہ چارپائیاں ڈال کر گرمی کی شدت سے بچا جاتا تھا ۔داخلی جگہ سائیڈوں پر مینار تھے جو آج بھی قائم ہیں۔ اس کنویں کے ساتھ ایک مسجد ہے جسے کورٹ والی مسجد(بادشاہی مسجد) کہا جاتا ہے ۔عام خیال یہی ہے کہ یہ واں بھچراں کی سب سے پہلی اور پرانی مسجد ہے ۔اس مسجد کے مغربی جانب ایک مزار بھی ہے ۔اس مزار کے احاطہ میں ڈیڑھ درجن سے زائد قبریں بھی موجود ہیں ۔شیر شاہ کی واں آج کے فرید خان کو پکار پکار کے تھک سی گئی ہے ۔اس کنواں کی خستہ دیواروں کی آس ختم ہو رہی ہے ،بلند مینار دور دور تک تکتے تکتے آنکھیں مل رہے ہیں ،کورٹ والی مسجد اس دور کے نمازیوں کی تلاش میں ہے جن کے سجدوں سے اسے سرور ملتا تھا ،اس کنویں کی سیڑھیاں ہاتھیوں کے ان پیروں کو ترس رہی ہیں جن میں سے محبت کی خوشبو آتی تھی ۔رات کے اندھیروں میں روتا یہ کنواں اپنے آنسو پی پی کے جی رہا ہے اور واں بھچراں کے باسی اسے پاگل سمجھ کراسے پتھر کنکر اور کوڑا کرکٹ سے بھر رہے ہیں ۔
    ْ[email protected]

    ملک قیصر اقبال ٹھیٹھیہ
    03006089969

  • میانوالی کے بازار . چھلوشاہ کا چوک … اور جودھا رام (ہریش چند نکڑہ کا وچھڑا وطن )

    ہریش چند نکڑہ کی کتاب وچھڑا وطن ……… میانوالی
    میانوالی کے بازارچھلو شاہ دا چوک اور دھاری شاہ پنساری… ( چوتھی قسط )
    ریلوے اسٹیشن کے عین سامنے میانوالی کی تین اہم سڑکوں میں درمیا ن میں سڑک ایک تھی اسے مین بازار یا صرف بازار کہتے تھے ۔باقی دو میں شمالی جانب کچہری روڈ اور جنوب میں گروبازار شامل تھے۔جب آپ سواری پر یا پیدل بازار میں آگے جاتے تو دائیں طرف ریلوے سٹاف کوارٹر،غلہ منڈی اور سٹیشن چوک سے قریباً آدھا میل آگے شہر کا واحد برف کارخانہ تھا۔
    عام طور پر لوگ پیدل چلتے اور سڑک پر ٹانگے،گھوڑے اور چند گدھوں کے علاوہ کچھ سائیکل سوار بھی نظر آتے تھے۔صبح کے وقت دکاندار اپنی دکانیں کھولتے دیکھے جاسکتے تھے جن کی دکانوں کے چبوترے (تھڑا) سڑک تک بڑھے ہوتے اور سائے کیلئے پٹ سن کا کپڑا (چھجا)تنا ہوتا۔بازار میں زیادہ تر مر د ہی نظر آتے کیونکہ عورتیں اکثر گھروں تک ہی محدود تھیں۔بازارمیں مختلف قسم کی دکانیں تھیں جن میں اکثر چھوٹی اور کم سامان والی تھیں اور چیزیں بہت غیر منظم انداز میں نمائش کے لئے رکھی ہوئی تھیں۔
    میاں زکری کا احترام نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی کرتے تھے ان میں سے کچھ ہر جمعے درگاہ پر مفت کھانے(دیگ)میں بھی حصہ وصول کرتے تھے۔
    میانوالی کے محلے
    بازار کے ساتھ ساتھ دکانوں کے پیچھے دنوں طرف مختلف رہائشی علاقے، محلے تھے۔ زیادہ ترمحلوں کے نام خاندانوں یا ان ذاتوں کی وجہ سے پڑے تھے جو یہاں رہائش پذیر تھیں۔بہت سال پہلے جب لوگ یہاں نقل مکانی کرکے آئے،زمین بلکل مفت تھی اور سب نے اپنی ضرورت اور تعمیر کی استطاعت کیمطابق جگہ پر قبضہ کرلیا۔حفاظت کے پیش نظر وہ لوگ جو بعد میں نقل مکانی کرکے آئے انہوں نے اپنے انہی رشتہ داروں اور دوستوں کے گھروں کے ساتھ گھر بنانے کو ترجیح دی جن کے پاس فالتو جگہ پڑی تھی۔ایک ہی علاقے میں آباد خاندانوں کی وجہ سے اس خاندان یا ذات کا محلہ وجود میں آجاتا۔چنانچہ کا لڑا ں دا محلہ،مہندرثاں دا محلہ ،بازار کی شمالی طرف جبکہ خوشابیوں ، آہوجوں کے محلے بازار کی جنوبی طرف واقع تھے۔
    مسلمان زیادہ تر مغرب میں شہر کے مضافات اورشمال میں میاناں دا کھوہ جسے ’’اینٹھے آلا کھوہ‘‘بھی کہتے تھے کے آس پاس کے علاقوں میں آباد تھے۔اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ میانوالی قصبے کی بنیادمسلمانوں (میانڑاں)نے ڈالی۔ یہ ہندو تھے جنہوں نے یہاں نقل مکانی میں پہل کی اور ان علاقوں پر قبضہ کیا جو قصبے کا مرکز بنے۔ مسلمان بعد میں آئے اور مضافات میں آباد ہوئے۔
    سٹیشن سے اپنے گھر آنے کیلئے پہلے مین بازارمیں بھولے دا چوک آتا جہاں پر بھولا پکوڑاں والا کی دکان تھی جو قصبے میں بلاشبہ سب سے بہترین پکوڑے بناتا تھا۔قریب ہی ’’ہیم راج دی مسیت‘‘ تھی۔ (ہیم راج کی مسجد)جس کا نام ہیم راج کے نام پر تھا۔ہیم راج ایک ہندو حکیم تھا جو مسلمان ہوگیا اور اپنی دکان مسلمانوں کو دے دی۔انہوں نے دکان گرا کر مسجد تعمیر کرلی۔اگرچہ اس کا گھر بالکل ہمارے گھر کیسامنے تھا لیکن مذہب کی تبدیلیکے بعد میں نے دوبارہ کبھی اس کو نہ دیکھا۔اس نے خود کو گھر تک محدود کرلیا اور کبھی باہر نہ نکلا۔ ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد وہ اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگیا تھا۔البتہ بہت سے کہتے تھے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے بعد اتنا شرمندہ ہوا کہ وہ ہندولوگوں کا سامنا نہ کرسکتاتھا۔چنانچہ خود کو گھر میں محدود کردیا ۔مٹھائی کی دکان(حلوائی)کے بعد سنار(سناراں)کی دکان اور اس سے آگے منیاری یا کتاب فروش یا پھر ڈاکٹر کا کلینک ۔
    صبح کے وقت بلدیہ کے ملازم جوڑیوں میں آتے،ایک صفائی والا اور ایک ما شکی جس نے کمرپر پانی سے بھری مشک لادی ہوتی جس سے وہ صفائی سے پہلے پانی کا چھڑکاؤ کرتا۔دن کے وقت بازار میں گہما گہمی ہوتی اور ہر چیز مٹی مٹی ہوجاتی۔سورج غروب ہونے کے بعد سڑکوں پر ویرانی کا سماں ہوتا۔البتہ حلوائیوں، سگریٹ کی دکانوں اورڈھا بو ں کے باہر لالٹین یا پرائمس کے گیس لیمپ لٹکے ہوئے دیکھے جاسکتے تھے۔بعض اوقات سینما جانے والوں کی ٹولیاں لیٹ نائٹ شو سے واپس آتی نظر آتیں۔
    جیسے جیسے آپ بازار میں آگے چلتے جاتے آپ فلیکسFlex) شُو کمپنی کی ایجنسی اورٹھیکیدار جواہر مال اینڈ سنزکی فرم کے آگے سے گزرتے۔یہاں تک کہ آپ چھلو شاہ دا چوک پہنچ جاتے ۔اس چوک کا نام چھلو شاہ کی وجہ سے پڑا جو اپنے بٹیوں گنگا شاہ،دیال شاہ اور کشوری لال کے ساتھ میانوالی میں کپڑوں کا تھوک کا سب سے بڑا کاروبار کرتا تھا۔ وہ تقسیم کے بعد دہلی چلے آئے اور ان کے خاندان نے چیپ سلک سٹور کے نام سے کرول باغ دہلی میں کاروبار شروع کیا ۔بہت جلد یہاں پر بھی ان کا کاروبار خوب چمکا۔چھلوشاہ دا چوک سے آگے آکر دیگر قابل ذکر چیزوں میں تیرتھ سوڈا فیکٹری اور نہالا حلوائی شامل ہیں۔نہالا حلوائی اپنی دیسی گھی دی ریوڑیاں کیلئے مشہور تھا۔
    مزید آگے چند مشہور اور بڑے تاجروں اور منیاریوں کی دکانیں تھیں جیسے ملکاں دی ہٹی، تھانہ رام منیاری آلاجوقصبے میں سب سے بڑا پرچون فروش تھا۔خواجہ جنرل سٹور جو میانوالی کے چند بڑے مسلمان تاجروں میں سے ایک تھا۔اور دھاری شاہ پنساری جو ایک مشہور دیسی ڈاکٹر(وید)بھی تھا اورساتھ ہی پنساری بھی۔
    بازار تقریباً دو میل لمبا تھا۔جس کے اختتام پر سول ہسپتال تھا جو دریا کے کنارے سے ایک میل پہلے آتاتھا۔جیسے جیسے آپ بازار میں آگے چلتے جاتے ،کاروباری سرگرمی کم سے کم ہوتی چلی جاتی اور گھر اور دکانیں آپس میں گڈ مڈ ہونے لگتیں۔یہاں تک کہ آپ بھولے دا چوک سے آدھا میل آگے سول ہسپتال پہنچ جاتے۔ ہسپتال سے آگے سڑک مرگھٹ،جہاں ہندو مردے جلاتے اور سلطان میاں زکری کی درگاہ تک جاتی جو میاں علی کے دوسرے بیٹے تھے۔
    نکڑاں دی گلی جانے کیلئے بازار سے دائیں طرف مڑکرجو پہلا تاثر حاصل ہوتا وہ رہائشی علاقے کی سنسان فضا کا تھا۔مرد حضرات صبح سویرے ہی گھروں سے کام پر چلے جاتے جبکہ عورتیں عام طور پر گھروں میں ہی رہتیں اور گھر کے کام کاج میں مصروف ہوجاتیں۔کچھ بچے مختلف کھیل مثلاً ہاکی،پھیتے یا گلی ڈنڈا کھیلتے نظر آتے۔یا پھر جودھا رام کو تنگ کرتے۔ جودھا رام ایک دماغی طور پر معذور ہمارا پڑوسی تھا جو اکثر ننگے پیر،مٹی سے بھرے کپڑوں میں اوربکھرے ہوئے لمبے بالوں کے ساتھ پھر رہا ہوتا وہ گلی میں یوں آگے پیچھے چکر لگارہا ہوتا جیسے گلی کی حفاظت کررہا ہو۔
    شامیں اور راتیں میانوالی قصبے کو مکمل خاموشی اور سکوت میں لے جاتیں جس کی گلیاں ویران اور مدھم روشنی میں ڈوبی ہوتیں۔صرف بڑی سڑکوں پر سٹریٹ لائٹ کا بندوبست تھا جو کہ پرانے وقتوں میں مٹی کے تیل والے لیمپ تھے جو لکڑی کے کھمبوں پرلٹکا ئے جاتے۔
    بلدیہ کے لوگ ہر شام شہر میں سیڑھیاں لے کر نکلتے اور لیمپوں کی صفائی کرکے انہیں جلاتے۔جب شام کو چاند نہیں نکلتا تھا لوگ خصوصاً بزرگ حضرات کہیں بھی جانے سے پہلے اپنے ساتھ لالٹین ضرر لے کر نکلتے روشن دانوں،دروازوں اور کھڑکیوں کی درزوں سے نکلنے والی مدھم روشنی یا گرمیوں میں چبوتروں سے آنے والی روشنی کے علاوہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا۔ایسا لگتا تھا جیسے قصبے کو جلد سونے کی عادت تھی۔

Back to top button