ادبی دنیا

ملا جلا انتخاب

شخصیات

تاریخ

  • ہندوؤں کی مقدس کٹاس جھیل

    ہندوؤں کی مقدس کٹاس جھیل
    ___________________ انوار حسین حقی
    چکوال خطہ پوٹھوہار کا ایک معروف ضلع ہے ۔ تاریخی ورثے کے حوالے سے اس علاقے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ یہاں کے جو تاریخی مقامات اپنا منفرد اور قدیمی پس منظر رکھتے ہیں اُن میں کٹاس کا قلعہ ، ملوٹ کا قدیم قلعہ ، کُسک کا قعلہ ، کلر کہار کا تختِ بابری ، باغِ صفا ، موروں والا حق باہو کا مزار قابلِ ذکر ہے ۔ یہ اور ان جیسے اور بہت سے دوسرے آثار ، نشانات اور صنادید اپنے اندر سینکڑوں بلکہ ہزاروں سالہ تاریخ سموئے ہوئے ہیں ۔ سطح مرتفع کوہستان نمک ( پوٹھوہار ) کے اس علاقے کے تاریخی مطالعے کے دوران شری راج کٹاس جانے کا موقع ملا ۔ یہ ہندوؤں کے لیئے ایک مقد س مقام ہے ۔ یہ علاقہ چھ ہزار سال کی طویل تاریخ کا حامل اور ہندوؤں ، سکھوں بودھوں اور مسیحوں کی تہذیبوں کا گہوارہ اور سنگھم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ عظیم مسلمان محقق البیرونی نے اسی علاقے میں زمین کا محور ناپنے کے حوالے سے اپنا نظریہ پیش کیا تھا ۔ یہاں قدم قدم پر تاریخ بکھری پڑی ہے ۔
    ’’ شری کٹاس راج‘‘ میں ہندوؤں کے مقدس چشمہ کے ساتھ ساتھ بہت سے مندراور سٹوپے بھی موجود ہیں ۔ مختلف مورخین کے ساتھ ساتھ ساتویں صدی عیسویں کے چینی سیاح ہیون سانگ بھی اس علاقے کا ذکر کرتا ہے ۔آج کی قسط میں کٹاس جھیل کے حوالے سے کچھ معلومات قارئین کی نذر کی جائیں گی۔
    کوہستان نمک کے درمیان چکوال سے جنوب کی جانب 35 کلومیٹر کے فاصلے پر کٹاس کا چشمہ موجود ہے ۔ اس چشمے کو ہندو مت میں بہت زیادہ تقدس حاصل ہے ۔ روایات کے مطابق کٹاس ابتداء ہی سے ایک مقدس جگہ ہے ’’مہا بھارت ‘‘ (جو مسیح علیہ السلام سے سے تین سوسال پہلے کی تصنیف ہے) میں بھی اس کا ذکر ہے ۔ سبحان رائے بٹالوی اپنی تصنیف ’’ خلاصتہ التواریخ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ مکھیالہ کے علاقے میں ایک جگہ کوٹ چھینہ ہے یہاں کی جھیل اتنی گہری ہے کہ کوئی آدمی اس کی گہرائی نہیں جانتا یہ قدیم ایام سے ایک پرستش گاہ تصور کی جارہی ہے ۔مقدس دنوں میں جب سورج بُرج حمل سے بُرج صوت میں داخل ہوتا ہے تو ہندو لوگ گروہ در گروہ اس جگہ نہانے کے لیئے اکٹھے ہوتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ زمین کی دو آنکھیں ہیں دائیں آنکھ تو اجمیر کے قریب پشکر کی جھیل ہے اور بائیں آنکھ یہ جھیل ہے ‘‘
    اس کے پس منظر کے حوالے سے تاریخِ جہلم میں مرقوم ہے کہ براہمنون کی روایت کے مطابق جب شو دیوتا کی بیوی ستی مر گئی تو وہ اتنا دُکھی ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندی جاری ہو گئی اور ان سے دو مقدس تالاب معرضِ وجود میں آ گئے ایک اجمیر کا پشکر اور دوسرا کٹک شیل۔ سنسکرت میں اس کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے ۔ یہ لفظ بعد میں کثرتِ استعمال سے کٹاس بن گیا ۔
    ڈاکٹر سٹین کا کہنا ہے کہ ’’ سالٹ رینج کے درمیان ایک مقدس چشمہ یا تالاب جو پنڈدانخان سے 15 میل کے فاسلے پر ہے شمال مغرب 43 فٹ ۔32 ڈگری اور مشرق کی جانب49 فٹ 72 ڈگری پر واقع ہے یہ تالاب گنیاں نالے کے سرے پر واقع ہے یہ تالاب سطح سمندر سے دوہزار فٹ سے زیادی بلندی پر ہے یہ پہاڑی چشموں کے پانی سے بھرا رہتا ہے اس کے ارد گرد کے علاقے سے ایک چھوٹی ندی چوآ سیدن شاہ کے پاس سے گزرتی ہوئی گندہالہ وادی میں داخل ہوتی ہے ۔ ‘‘
    جنرل کننگھم نے بھی ان آثارِ قدیمہ کا حوالہ دیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کٹاس کا مقدس چشمہ جولا مکھی کے بعد پنجاب میں یاتریوں کی سب سے بڑی آماجگاہ ہے ۔ براہمنوں کی ایک روایت کے مطابق شوجی مہاراج کو دکشیا کی بیٹی اور اپنی بیوی ستی کی موت پر اتنا دُکھ ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندی جاری ہو گئی جس سے دو تالاب بن گئے ان میں سے ایک اجمیر کے قریب پشکر یا پوکھر ہے اور دوسرا کٹک شاہ یا کٹاس جو کہ دوآبہ سندھ ساگر میں ہے کاٹکشا کا معنی ’’ برستی آنکھیں ‘‘ ہے لیکن اس جگہ کے جاہل براہمن اس کا تلفظ کٹاشا یا کٹاکشا کرتے ہیں ۔ اگرچہ کہ وہ اس کا مطلب وہی بتاتے ہیں تالاب جزوی طور پر مصنوعی ہے چٹان کو کاٹ کر گنیاں نالہ کی گذر گاہ میں واقع قدرتی طاس کو چوڑا کر دیا گیا ہے ۔ تالاب کے اُوپر ہاتھوں سے بنی ہوئی ایک مضبوط دیوار ہے ۔ جس کی چوڑائی سوا دو فٹ اور اونچائی 19 فٹ ہے ۔ یہ دیوار ایک ساتھ ہی تعمیر کی گئی تھی تاکہ نالے کے پانی کو اکٹھا کرکے ایک بڑی جھیل بنا لی جائے ۔براہمنوں کا خیا ل ہے کہ یہ بندر اجہ پاتک یا پتک جو دہلی کے کسی حکمران کا وزیر تھا، نے تعمیر کروایا تھا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مقدس تالاب کو محفوظ رکھا جائے اور فالتو پانی کا اخراج عمل میں لایا جائے ۔ پانی کی سُرنگ جو122 فٹ لمبی تھی چٹان کاٹ کر بنائی گئی تھی ۔ جو پانی کو اُٹھا کر تالاب کے نیچے ایک مقام پر لے جاتی تھی چونکہ تالاب اپنے اندر بھی چشمے رکھتا ہے یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہ پانی کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیئے اکٹھا کیا گیا ہو ۔ ‘‘
    اس جھیل یا چشموں کے حوالے سے ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی ( سابق ڈپٹی کمشنر چکوال ) کی مرتب کردہ تاریخ چکوال میں تحریر ہے کہ ’’ پنڈت موہن لال جو نومبر1983 ء میں ہندو یاترویوں کے لیڈر کی حیثیت سے یہاں آئے تھے ان کے بقول ’’ کٹاس راج کا اصلی نام ’’ کے ٹیکش راج ‘‘ تھا اس کے لفظی معنیٰ ناگوں کا بادشاہ ہے اس جگہ کا تعلق بھگوان شنکر یا شو جی مہاراج سے ہے یہ علاقہ پہلے بھی اور آج بھی سانپوں کا مسکن ہے ۔ سناتن دھرمی ہندوؤں کا اعتقاد ہے کہ بھگوان شنکر کا ظہور اسی جگہ پر ہوا تھا یوں ان کی جائے ظہور سے ایک چشمہ پھوٹ نکلا ۔ جس سے امرت ( ہجیات ) بہنے لگا چونکہ بھگوان شنکر سانپوں کا بادشاہ ہے اس لیئے کٹاس راج جھیل سانپوں سے بھری پڑی ہے لیکن وہ شاذو نادر ہی کسی کو ضرر پہنچاتے ہیں ۔۔
    کٹاس راج کے حوالے سے بہت سے تاریخی حوالے موجود ہیں ۔ ہرسال ہندو یاتریوں کی بڑی تعداد یہاں عبادت کے لیئے آتی ہے ۔ بتایا گیا گہ ایک سال میں تقریباً دو مرتبہ ہندو یاتریوں کے جتھے اپنی عبادات کے لیئے اس علاقے کا رُخ کرتے ہیں ۔ ہندو یاتری مردو خواتین کٹاس کی مقد جھیل میں اشنان کرتے ہیں ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس جھیل میں اشنان کرنے سے پاپ جھڑتے ہیں اور دکھ بیماریاں دور ہوتی ہیں ۔ اس جھیل پر محکمہ اوقاف نے خواتین کے اشنان کے لیئے علیحدہ باتھ روم بنایا ہے جو ایک کمرے میں ہے ۔ بھارت سے آنے والے ہندوؤ یاتری یہاں سے پانی ڈبوں میں بھر کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔ اس جھیل کے حوالے سے مشہور روایتوں میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایسی متبرک جھیلوں میں سونے اور چاندی کے زیورات اور سکے بھی ہوتے ہیں ۔ ’’ ڈپٹی کمشنر کی ڈائری ‘‘ میں ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی لکھتے ہیں کہ ’’ اس جھیل کے کنارے بریگیڈیر گلزار احمد کا گھر تھا انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ زمانہ قدیم میں ہندو خواتین اور مرد منت مانگنے کے لیئے اپنے زیورات اور سکے جھیل میں پھینکتے تھے ‘‘۔۔
    شری کٹاس راج میں ہندوؤں ، بدھوں اور سکھوں کی عبادت گاہیں بھی ہیں جن کے بارے میں تفصیل علیحدہ سے بیان کی جائے گی ۔ کٹاس راج اس وقت متروکہ وقف املاک میں شامل ہے پنجاب کا محکمہ اوقاف اس کی نگرانی کر رہا ہے ۔ یہاں قائم چونے ریت اور مختلف دالوں سے تیاری کی گئی عمارتیں کئی سو سال قدیم ہونے کی وجہ سے شکست و ریخت کا شکار ہیں ۔ ستمبر 1948 ء کی قیامت خیز بارش نے ان قدیم عبادت گاہوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا ۔ ایودھیا میں بابری مسجد شہید کیئے جانے کا ردِ عمل بھی یہاں دیکھنے میں آیا تھا۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 11 جنوری کو راج کٹاس مندر کی تعمیرِ نو ، تزئین اور ضروری سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے ایک تقریب میں بھی شرکت کی ۔ پاکستان نے ہمیشہ اقلیتوں کے مقدس مقامات کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی ہے ۔ ایسے مقامات کی مناسب دیکھ بھال ہمارا فرض بھی ہے اور اپنے علاقے کے تاریخی ورثے کی دیکھ بھال اور اُسے محفوظ بنانا ہماری قومی ذمہ داری بھی ہے ۔

  • علامہ ڈاکٹر محمداقبال بحیثیت قانون دان

    تحریر و تحقیق خالد سعید ایڈووکیٹ
    علامہ ڈاکٹر محمداقبال بحیثیت قانون دان
    ڈاکٹر محمد اقبال 9نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے کیلڈر 1906کے مطابق اقبال نے بی۔اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا ۔ اس سال 105طالب عالم کامیاب ہوئے تھے جن میں سے چار نے فرسٹ ڈویژن حاصل کی ۔ اقبال مسلمانوں میں اول آئے ۔ 1898ء میں ایم اے فلسفہ کی کلاسوں کے ساتھ ساتھ اقبال نے لاہور لا اسکول کی جماعتوں میں قانون کے طالب علم کی حیثیت سے بھی پڑھنا شروع کر دیا مگر وہ دسمبر 1898کے قانون کے ابتدائی امتحان میں جو رسپروڈنس (Jurisprudence) کے پرچہ میں فیل ہو گئے ۔ انہوں نے بعد میں دسمبر 1900کے قانون ابتدائی امتحان میں کلاسوں میں شامل ہوئے بغیر بیٹھنے کی اجازت کیلئے درخواست دی لیکن وہ درخواست نا منظور ہوئی اس کے بعد اقبال نے یہاں قانون کے امتحان دینے کا اردہ ترک کر دیا اور ان کی اس خواہش کی تکمیل بالآخر لندن میں ہوئی ۔ اقبال نے 6نومبر 1905ء کو لنکزان میں داخلہ لیا ۔ بیرسٹری کے امتحانوں کیلئے کسی نہ کسی ان(Inn) میں ٹر میں پوری کرنے کی خاطر داخلہ کی ضرورت تھی ۔ لندن میں مستقل رہائش اختیار کرنا یا قانون کے لیکچروں میں حاضر ہونا ضروری نہ تھا ۔ قواعد کے مطابق کسی ان (Inn) سے منسلک ہو کر اس کے عشائیوں کی مخصوص تعداد پوری کرنے سے ٹرموں کی تکمیل کی جا سکتی تھی پہلے حصہ کے چھ پرچوں کا امتحان علیحدہ علیحدہ دیا جا سکتا تھا البتہ دوسرے حصے کے چھ پرچوں کا امتحان اکٹھا دینا ضروری تھا سال میں تین یا چار بار یہ امتحانات انز (Inns) آف کورٹ میں دیئے جاتے تھے ۔ سر عبدالقادر کہتے ہیں کہ جب اقبال لندن آئے تو بیرسٹری کے لیکچروں یا کھانوں کیلئے ہم مل جل کر جاتے ۔ اب تک حیات اقبال پر جتنے محققین نے تحقیق کی وہ اس نتیجے پر نہ پہنچ سکے ہیں کہ اقبال نے بیرسٹری کے پہلے حصے کے سارے پرچوں کا امتحان ایک ہی بار دیا یا علیحدہ علیحدہ کر کے یا یہ امتحانات کب دیئے گئے ۔ انہیں بار ایٹ لا کی ڈگری یکم جولائی 1908ء کو ملی ۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے امتحانات کے پہلے حصہ کی تیاری اور تکمیل بعد میں لندن میں رہائش کے دوران کی ۔ اقبال لنکزان کے عشائیوں کے خاطر یا بیر سٹری کے پہلے حصے کے امتحانوں کیلئے لندن آئے تو وہ یا تو سر عبدالقادر کے ہاں ٹھہرتے یا ان کے کے گھر کے قریب کسی مکان میں فروکش ہوتے۔اقبال کی یورپ میں تعلیم اور رہائش کے اخراجات زیادہ تر ان کے بھائی کے بھائی شیخ عطا ء محمد برداشت کرتے تھے۔اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ بیان جاتا ہے کہ شیخ عطا محمد نے اقبال سے کہا کہ بیر سڑی کورس پورا کرکے واپس آجاؤ لیکن ان کا ارادہ پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری لینے کا تھا۔ اقبال نے خط لکھا کہ روپے بھیجو کہ میں جرمنی سے جا کر ڈاکٹریٹ کی سند لے آؤ ں،شیخ عطا محمد نے مطلوبہ رقم بھیج دی۔شیخ عطا محمد بے تکلیف دوستوں کی صحبت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ایک دوست نے پوچھا کیوں شیخ صاحب !سنا ہے اقبال نے ایک اور ڈگری لے لی ہے۔شیخ عطا محمد نے جواب دیا’’بھئی کیا بتلاوں ،ابھی تو وہ ڈگریوں پر ڈگریاں لئے جا رہا ہے خداجانے ان ڈگریوں کا اجراء کب ہو گا‘‘۔
    یورپ سے وطن واپس آنے پر 30اکتوبر1908ء سے ان کی ابرولنمنٹ ہوئی اور آپ کو چیف کورٹ پنجاب میں پریکٹس کرنے کی اجازت ملک گئی،یوں وہ لاہور کے بار روم میں داخل ہوئے جو میاں شاہ دین،سر فضل حسین،سر محمد شفیق،سر شہاب الدین،سر شادی لعل ،لالہ لاجپت رائے،پنڈت شیونا رائن شمیم ،پیر تاج الدین،غلام رسول بیرسٹر،مرزا جلال الدین وغیرہ جیسی مقتدر ہستیوں کے سبب مشہور تھا۔اپنا کلرک(منشی)کا ہن چند کو مقرر کیا۔اس کے کام سے مطمین نہ ہوئے تو سر محمد شفیق کے منشی طاہر الدین کے خدمات حاصل کی گئیں ۔منشی طاہر الدین پر اقبل بہت اعتماد کرتے تھے اور اپنی عمر کے آخری دن تک ان سے تعلقات قائم رکھے یہ وہی منشی طاہر الدین ہیں جنہوں نے بعد میں حکیم طاہر الدین کے حثیت سے دلروز نامی دو ایجاد کر کے خوب نام پیدا کیا۔
    اقبال نے نچلی عدالتوں میں پریکٹس کی مگر ان عدالتوں میں کام کرنا ان کو پسند نہ آیا۔وکالت کا پیشہ اختیار کئے دو ایک ماہ ہوئے ہوں گے کہ انہیں ایم ۔ اے او کالج علی گڑھ میں فلسفہ کے پروفیسر کی پیش کش ہوئی لیکن آپ نے قبول نہ کیا۔1909میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پرودفیسر ی بھی ٹھکرا دی۔اقبال کو ہمہ وقتی معلمی کا پیشہ اختیار کرنے میں اس لئے تامل تھا کہ یہ کوئی معقول آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے،ان کے نزدیک وکالت کا پیشہ اختیار کئے رکھنے میں بہتر مالی مستقبل کے امکانات تھے۔چیف کورٹ پنجاب میں اپنے مقدمات کی پیروی کیلئے اقبال سخت کر رہے تھے ۔یہاں تک کہ یہ عظیم شاعر شعرو شاعری کے شغل سے کچھ مدت دور رہا۔
    یکم اکتوبر 1908سے جب مسٹربرئیٹ صدر شعبہ فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور ایک سال کی رخصت پر گئے تو ان کی جگہ آسٹن وائٹ جیمز کو قائم مقام پروفیسر فلسفہ مقرر کیا گیا لیکن جیمز یکم مئی 1909ء کو اچانک فوت ہوگئے ،ان کی آسامی کو پر کرنے کیلئے فوری طور پر کسی انگریز پروفیسر کا انتظام ہو سکنا ممکن نہ تھا چنانچہ پرنسپل کی درخواست پر حکومت پنجاب نے اقبال سے استدعا کی وہ عارضی طور پر فلسفہ کی پروفیسری قبول کر لیں ۔گرمیوں کے موسم میں تدریسی اوقات اقبال کے پیشہ وکالت کی ذمہ داریوں میں حائل نہ ہوں گے،کالج ان کے پریڈ صبح چگ بجے سے لیکر نو بجے تک متعین کرنے کو تیار تھا۔ گرمیوں کی تعطیلات کے بعد چونکہ کالج اور کورٹ کے اوقات میں تصادم یقینی تھا اس لیے اقبال نے بذریعہ انڈر سکرٹری تعلیم حکومت پنجاب کے چیف جج و دیگرجج صاحبان کو درخواست کی ان کے مقدمات ایسے اوقات میں پیش ہوا کریں جب وہ اپنے تدریسی فرائض سے فارغ ہو جائیں ۔تب ان کی پریکٹس ابتدائی مراحل میں ہونے کے سبب برائے نام تھی اس لئے اجازت مل گئی وہ صبح صبح گھر سے سیدھا کالج جایا کرتے اور تین گھنٹے لیکچر دینے کے بعد کورٹ پہنچتے جہاں چار بجے شام تک اپنے مقدموں کی پیروی کرتے یا فراغت ہوتی تو بار روم میں بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ گپیں اُراتے ۔
    ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں ظرافت کو بہت دخل تھا وہ فارغ اوقات مین بارروم میں بیٹھ کر جب اپنی پر تکلیف باتوں اور ظریفانہ گفتگو شروع کرتے تو متعدداو فرادان کے گرد جمع ہو جاتے ۔ہندوؤں میں پنڈت شیو نارائن شمیم کو اقبال سے خاص انس تھا۔ڈاکٹر اقبال پنڈت شیو نارائن شمیم اور مرزا جلال الدین تینوں میں بہت محبت تھی وہ ہر وقت اکٹھے رہتے اس لیے سر میں محمد شفیق و سر فضل حسین مرحوم ان کو ٹرایویا اور کبھی اصحاب ثلاثہ کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔
    رفتہ رفتہ اقبال کی مصروفیات بڑھتی چلی جا رہی تھیں۔1909ء میں آپ لا پبلشنگ پریس لاہور کے شائع کردہ ایک قانونی رسالہ انڈین کیسز لاء رپورٹس کے حلقہ ادارت میں بطور جوائنٹ ایڈیٹر شامل ہوگئے ۔سال ڈیڑھ سال کے عرصہ میں معلمی کے ساتھ وکالت میں اقبال کو اتنی تگ و دو کرنا پڑتی کہ سارا وقت اسی میں صرف ہو جاتا۔تمام دن تدریسی مشاغل یا مقدمات کی پیروی میں گزرتا۔شام کو موکلوں کی ملاقات کیلئے دفتر میں بیٹھنا پڑتا اور رات گئے تک اگلے روز کے مقدمات کی تیاری کرتے۔مئی 1910ء میں ایک شام اپنے دوست وجاہت حسین جھنجانوی کے ہاں اپنا تازہ کلام سنارہے تھے کہ اسی اثناء میں منشی طاہر الدین کمرے میں داخل ہوئے اور کہا کہ ایک موکل آیا ہے اور ملنا چاہتا ہے۔اقبال نے جواب دیا کہ اس کو بٹھائیے یہاں سے فارغ ہو کر بلاؤں گا۔منشی نے کہا کہ بابا پہلے پیٹ کی فکر کرنی چاہیئے۔یہ شغل تو ہوتا رہے گا۔اقبل نے کہا کہ یہی شغل تو غذائے روح ہے اور روح ہے تو سب کچھ ہے۔موکل اگر میرا نام سن کر آیا ہے تو وہ کہیں بھاگ نہیں جائے گا‘‘
    23اکتوبر1923ء کو لارڈ ریڈنگ وائسرے ہند پنجاب ہائی کورٹ کی نئی بلڈنگ کے افتتاح کیلئے لاہور آئے اس موقعہ پر ہائی کورٹ کے لان میں ججوں ،وکیلوں اور صوبے کے حکام کے سامنے وائسرئے نے اپنی جوابی تقریر میں اقبال کا ذکر تعریفی انداز میں کیا جس میں بقول اقبال سب کو تعجب ہوا کیونکہ اسکی کسی کو توقع نہ تھی۔
    1925ء میں پنجاب ہائی کورٹ میں ایک مسلم جج کے تقرر کا مسلہ پیدا ہوا۔سرشادی لعل چیف جسٹس تھے۔صوبہ بھر کے مسلم اخباروں میں ایک مسلم اخباروں ،انجمنوں ،وکیلوں اور تعلیم یافتہ لوگوں نے مطالبہ کہ کہ اقبال کو ان کی قابلیت اور روشن دماغی کی بناء پر عدالت عالیہ کا جج مقرر کیا جائے مگر سر شادی لعل نے اُن کے متعلق یہ ریماریکس دئیے کہ ’’ہم اقبال کو شاعر کی حثیت سے جانتے ہیں قانون دان کی حثیت سے نہیں‘‘چنانچہ اقبال ہائی کورٹ کے جج نہ بن سکے اور آسامی کو پر کرنے کیلئے سر شادی لعل کی خواہش کے مطابق یو۔پی سے سید آغا حیدر کا تقرر عمل میں آیا۔
    اس بات کا کھوج لگانے کے لیے کہ اقبال کو واقعی ایک ناکام یا کم قابل قانون دان تھے جو ہائیکورٹ پہنچتے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ سر شادی لعل ایک متعصب ہندو تھے جب ہم اس واقعہ کی تہہ تک پہنچتے ہیں تو ثابت ہو تا ہے کہ سر شادی لعل انتہائی متعصب ہندو تھے اور مسلمانوں کے خلاف ان کا تعصب پنجاب بھر میں مشہور تھا وہ1913ء میں ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے اور 1917میں انہیں مستقل جج بنا دیا گیا۔1920ء میں جب عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کی تقرری کا سوال پیدا ہوا تو لاہور کی معروف فیملیکے سربراہ سرمحمد شفیق نے خاص طور پر وائسرئے کو کہہ کر ان کا تقرر کروایا۔سو1921ء میں جسٹس سر شادی لعل عدالت عالیہ پنجاب کے چیف جسٹس بنے مگر چیف جسٹس مقرر ہوتے ہی سر محمد شفیق کی میاں فیملی کے حریف بن گئے اور اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرنے لگے۔ویسے سر شادی لعل اپنے تعصب کے سبب پنجاب کی ہر اہم مسلم شخصیت کے خلاف تھے۔لیکن اقبال سے ان کی دشمنی کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے میاں فیملی سے اچھے تعلقات تھے۔اقبال جیسی شخصیت بھی اپنی تمام صلاحیتوں کے باوجود سر شادی لعل جیسے ہندو کے تعصب کا نشانہ بنی۔اقبال کے گوشوارہ آمدنی سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1916ء سے بیشتر ان کی آمدنی ناقابل ٹیکس تھی۔ان کی فائل میں آمدنی کا سب سے پہلا گوشوارہ انکم ٹیکس1917-18ء کا ہے جس میں مالی سال 1916-17ء کی آمدنی کی تشخیض کی گئی ہے۔متذکرہ سال میں ان کی آمدنی تین ہزار چھ سو چودہ روپے تھی اس پر ان کو چورانوے روپے انکم ٹیکس اور سال1924-25ء تک جب علامہ اقبال نے وکالت سرگرمی سے کی ان کی آمدنی 13702روپے تھی۔آمدنی کتابوں کی رائلٹی اور مختلف یونیورسٹیوں کیلئے پرچہ بنوانے کی وجہ سے بھی ہوئی لیکن زیادہ تر آمدنی وکالت کے پیشے سے تھی جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ علامہ اقبال ایک کامیاب وکیل بھی تھے۔آخری13سال میں سیاست،شاعری،گول میز کانفرنسوں،سفر جنوبی ہند،سفر افغانستان،اندلس اورسب سے بڑھ کر خرابی صحت اور آنکھ کی بینائی کی وجہ سے وکالت ختم ہو کر رہ گئی تھی۔جہاں تک کی قانونی آراو بصیرت کا تعلق ہے ایک زمانہ بلا تخصیص ہندو مسلم ان کے زندگی کے آخری سانس تک مستفید ہوتا رہا اور یہ استفادہ اب تک جاری ہے

Back to top button