ادبی دنیا
ملا جلا انتخاب
-
عروہ نیازی کی دلوں کو چھُو لینے والی تحریر ” اولادِ مدینہ "”
آئینہ عروہ نیازی اولادِ مدینہ "یا اللہ جتنے بھی بے اولاد ہیں…
-
محترمہ حفصہ نور کے جواب میں …………… تحریر سیدہ رابعہ فاطمہ بخاری
محترمہ حفصہ نور کے جواب میں …………… تحریر سیدہ رابعہ فاطمہ بخاری…
-
* شرم سے چور ہوگیا شیطاں *
رمضان المبارک کے دوران شیطان کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بند…
-
امانت کی ادائیگی قرآن وحدیث کی روشنی میں،حافظ کریم اللہ چشتی
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں…
-
تکمیل عشق
عنوان ۔۔۔تکمیل عشق تحریر ۔۔۔ عروہ نیازی (میانوالی ۔۔پاکستان) بینر ۔۔۔۔ محمدزبیرپنوارقادری…
-
راکا پوشی کا چیلنج اور چند نوجوان سر پھرے بادل!. وقار احمد ملک
اندھیرا چھانے لگا جب گلگت سے ہنزہ کے لیے کوسٹر روانہ ہوئی۔…
-
بٹیا رانی سے جھوٹ بولتے ہو ……………………… خالد ندیم شانی کی نئی غزل
تازہ غزل … بٹیا رانی سے جھوٹ بولتے ہو زندگانی سے جھوٹ…
-
انحراف کے فورم میں کہی گئی شاہدہ مجید کی گرہ بند فی البدیہہ غزل .
انحراف کے فورم میں کہی گئی شاہدہ مجید کی گرہ بند فی…
-
حسین ؓ سب کا
سید مبشرمہدی نبی اکرم ؐ کو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ…
-
گلیوور ،فیس بک اور تحقیق نسواں …………. تحریر :. ثنا بتول
گلیوور ،فیس بک اور تحقیق نسواں ………. تحریر :. ثنا بتول گلیور…
-
معروف شاعرہ فریدہ خانم کی خوبصورت نظم ’’ عمران خان ‘‘
فریدہ خانم لاہور عمران خان انصاف کی پہچان ہے عمران خان ہر…
-
اکسویں صدی کا پاکستان . کالاباغ میں انسان دوسرے انسان کا بوجھ کھینچتا ہے
اکسویں صدی کاپاکستان کالاباغ شہر کا محنت کش اپنے گھر کا چولہا…
-
سوال ……………… ناز بٹ
سوال خُداوندا ! تری مرضی تُو جب چاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے چاہے اُسے…
-
دیوان ِ منصور سے ……………………………….. کلام منصور آفاق
کلام ……………….. منصور آفاق میرے دردِ لادوا تھوڑی سی دیر چائے پی…
-
ارم ہاشمی کا خوبصورت اور بے مثال کالم ’’ بات وات ‘‘
بات وات ارم ہاشمی یہ میاں لوگ ّّ________ طویل انتظار،ٹھنڈ اور بے…
-
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر محترمہ شاہدہ مجید کا کلام ۔۔ تمام خواتین کی نذر
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر محترمہ شاہدہ مجید کا کلام…
-
"قرب الٰہی کی انتہامعراج مصطفیﷺ” تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی
قرب الٰہی کی انتہامعراج مصطفیﷺ تم ذات خداسے نہ جداہونہ خداہو اللہ…
-
"سپیشل ایڈیشن یوم وفات” حضرت سیدناابوبکرصدیقؓ
حافظ کریم اللہ چشتی ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَافِی الْغَارِکے محورو مصداق حضرت سیدناابوبکرصدیقؓ…
-
نیلم ملک کا تازہ کلام …………….. "گُل کو کھلنا سکھا نہیں سکتے "
نیلم ملک کا تازہ کلام ……………… گُل کو کِهلنا سکها نہیں سکتے!…
-
"شب معراج کی فضیلت وعبادت” حافظ کریم اللہ چشتی
شب معراج کی فضیلت وعبادت رجب المرجب اسلامی سال کاساتواں مہینہ ہے۔اللہ…
-
ایک اہم سبق دیتی سیرت رسول و امن اسلام کانفرنس کراچی
ایک اہم سبق دیتی سیرت رسول و امن اسلام کانفرنس کراچی عروہ…
شخصیات
-
شخصیات
ذوالفقار احمد چیمہ عہد ساز شخصیت اور نیوٹیک کاادارہ تحریر: سہیل احمد اعظمی
ذوالفقار احمد چیمہ عہد ساز شخصیت اور نیوٹیک کاادارہ تحریر: سہیل احمد اعظمی صحافتی، تجارتی، سماجی اور کھیل کے طبقے…
Read More » -
شخصیات
ﻋﻄﺎﺍﻟﻠﮧ ﺧﺎﻥ ﻋﯿﺴﯽٰ ﺧﯿﻠﻮﯼ -:
ﻋﻄﺎﺍﻟﻠﮧ ﺧﺎﻥ ﻋﯿﺴﯽٰ ﺧﯿﻠﻮﯼ -: ۔ ﺁﭖ 19 ﺍﮔﺴﺖ 1951 ﺀ ﮐﻮﺻﻮﺑﮧٴ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﮐﮯ ﺿﻠﻊ ﻣﯿﺎﻧﻮﺍﻟﯽ ﮐﮯ ﻗﺼﺒﮯ ﻋﯿﺴﯽٰ ﺧﯿﻞ…
Read More » -
تقریبات
ڈاکٹر لبنی آصف کی شاندار خدمات کے اعتراف میں Award of Excellence
ڈاکٹر لبنی آصف کی شاندار خدمات کے اعتراف میں Award of Excellence ڈاکٹر لُبیٰ آصف کی میڈیکل کے شعبے میں…
Read More » -
شخصیات
عمران خان کے لیئے عزت ، دولت اور شہرت ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کا انعام ( تحریر اقبال سیالکوٹین )
عزت ، دولت ، شہرت ، یہی تین چیزیں انسان کی زندگی میں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ناں ؟…
Read More » -
شخصیات
دیکھیئےوزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر نے کالاباغ کے بارے میں کیا کہا ؟
میانوالی ( انوار حقی سے ) وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر کے خاندان کا بنیادی تعلق تحریک انصاف کے…
Read More » -
حزبِ اعتدال
معروف شاعرہ فریدہ خانم کی خوبصورت نظم ’’ عمران خان ‘‘
فریدہ خانم لاہور عمران خان انصاف کی پہچان ہے عمران خان ہر فرد کا سلطان ہے عمران خان بازی ہو…
Read More »
تاریخ
-
قاری کو اپنی سحر آفرینی سے دم بخود کردینے والا محترمہ نیلوفر خان کا کالم ’’لیڈی گارنیٹ کا آسیب ‘‘
نیلاب
نیلوفر خانلیڈی گارنیٹ کا آسیب
_______________
آسیب ایک خوبصورت لفظ ، بھیانک اثر کے ساتھ اپنے اندر پر اسراریت کا انبا ر سمیٹے ہوئے ہمارے ذہن پر اثر انداز
ہوتا ہے۔کبھی آسیب خوابوں میں آکر ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ اورکبھی کبھی حقیقت کو بھیانک بنا دیتے ہیں۔ یکسانیت موت سے مماثلت رکھتی ہے۔ اور مجھے اس سے نفرت ہے۔اسی لئے ہر جگہ تبدیلی کو تلاش کرتی ہوں۔تبدیلیِ موضوع کے لئے’’ آسیب ‘‘مجھے موزوں لگا ۔آسیب سے متعلق ہزاروں حقیقتیں ہندوستان ( انڈیا ) کی سرزمین میں زرخیز مٹی کے ساتھ رچی بسی ہیں۔ہندوستان میرے آباؤ اجداد کی جنم بھومی،ہم راجپوتوں کی عظیم و عالی شان سلطنتِ ہند ہمیشہ میری توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔احساسات کے زیرِ اثر سرحدوں کے فرق مٹنے لگتے ہیں۔ جب میں نے بھوت پریت آسیب پر لکھنے کی سوچی تو انڈیا میں موجود ایک آسیب زدہ ہوٹل Savoy سب سے منفرد لگا۔مگر اس کے بارے میں میری معلومات نا مکمل تھیں بے شمار باتوں سے میں نا واقف تھی۔ انڈیا میں وسیع حلقہ احباب کے باوجود مجھے اس آسیب زدہ ہوٹل کے بارے میں کچھ خاص معلومات نہ مل سکیں کیونکہ زیادہ تر انڈین لوگ بھی اس کی تاریخ سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے ۔
یہ آسیب زدہ ہوٹل SAVOY انڈیا کے خوبصورت ترین پہاڑی مقام ’’مسوری ‘‘ میں واقع ہے۔ مسوری کو پہاڑوں کی ملکہ بھی کہا جاتا ہے۔ مسوری کا نام ’’ منسور ‘‘اس علاقے میں کثرت سے پائی جانے والی جھاڑی ہے سے منسوب ہے ۔ آج بھی بہت سے مقامی لوگ مسوری کو منسوری کہتے ہیں۔ہوٹل Savoy مسور ی ڈسٹرکٹ اتر کند مال پر موجود ہے ۔ 1902 ء میں اس ہوٹل کا باقاعدہ آغاز عمل میں آیا۔ یعنی انڈیا کے مشہور ہوٹل تاج محل سے دو سال قبل ۔اس لگژری ہوٹل کے ہال ، دہلیزیں اور فضا آسیب زدہ ہیں۔ یہ ہوٹل اور اس کے اطراف خاتون Garnet Orme کے بھوت کے قبضے میں ہے ۔یہ خوبصورت ہوٹل خاتون گارنیٹ کے بھوت کے سبب سہما ہوا لگتا ہے۔شام ڈھلتے عجیب پر اسراریت ہوٹل اور اس کے اطراف میں پھیل جاتی ہے۔ دل عجیب کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے ۔ طبیعت بے چین ہونے لگتی ہے۔ ممکن ہے کہ سب لوگ اس پراسراریت اور خوف و ہراس کو فوری طور پر محسوس نہ کرتے ہوں۔ مگرمحسوس کرنے والے جلد صورتحال کو بھانپ لیتے ہیں۔ اس ہوٹل کو شام کا اندھیرا باقی جگہوں کی نسبت قدرے جلد اپنے آغوش میں لے لیتا ہے۔ اس اندھیرے میں اکثر لوگوں کو خاتوں گارنیٹ کا بھوت بھٹکتا مل جاتا ہے۔اکثر اس خاتوں کا بھوت لوگوں کو خالی بے جان آنکھوں سے گھورتا، جذبات سے عاری سپاٹ چہرے کے ساتھ ان کی طرف آتا دکھائی دیتا ہے۔ لیڈی گارنیٹ کی وحشت بھری آنکھیں اور رات کا سناٹا سپاٹ چہرے کے ساتھ اس ہوٹل کو آسیب زدہ کئے ہوئے ہے۔خاتوں گارنیٹ کے بھوت نے اس ہوٹل کو جو کہ پچاس کمروں اور دو ریسٹورنٹ پر مشتمل ہے۔ اور جہاں دو سو گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ موجود ہے کو ہولناک بنادیا ہے۔1911 ء کے آوائل میں خاتون گارنیٹ پر اسرار انداز میں اس ہوٹل میں مردہ پائی گئی تھی۔ یہ کیس آج بھی حل نہیں ہو سکا۔ خاتون کی موت زہر سے ہوئی تھی۔اس کی دوا کی بوتل کو کسی نے زہر سے بدل دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ خاتون کا بھوت اُس شخص کو رات کے اندھیرے میں ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ جس نے خاتون کی دوا کی بوتل کو زہر کی بوتل سے بدلا۔یہ لگژری ہوٹل جو کہ انگلش گوتھِک آرکیٹیکٹ سٹائل میں بنا ہے ۔ اور زیادہ تر بھاری لکڑی کے شاندار کام کا نمونہ ہے۔ مکمل طور پر آسیب کی زد میں ہے۔یہ ہولناک ماحول سے بھرا ہوٹل 2009 ء میں پرائیویٹ لمیٹڈ ’’ ویلکم گروپ آف ہوٹلز ‘‘کی ملکیت میں آگیا۔
اس بھیانک ہوٹل کا رقبہ گیارہ ایکٹر ہے ۔ہوٹل وادیِ دون کی طرف جھانکتا معلوم ہوتا ہے۔ 1900 ء میں Dehradun میں ریل کے پہنچنے کے بعد مسوری برٹش راج میں یورپین باشندوں کی موسمِ گرما کی پسندیدہ تفریح گاہ بن گئی۔1911 ء میں ایک خاتون Frances Garnett Orme لکھنؤ سے آکر مسوری کے اس ہوٹل میں قیام پذیر ہوئی ۔
یہ خفیہ روحانی علوم کی ماہر 49 سالہ خاتون تھی ۔ لیڈی گارنیٹ کے ہمراہ اس کی ایک دوست Eva Mountstephen تھی۔ ’’ ایوا ‘‘ بھی ایک روحانی علوم کی ماہر خاتون تھی۔ خاص کر کرسٹل بال میں مستقبل ، ماضی اور پوشیدہ چیزیں دیکھنے کی ماہر تصور کی جاتی تھی۔کچھ دن کے بعد ایوا لکھنؤ واپس چلی گئی۔ اور خاتون گارنیٹ اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائی گئی۔ Atoypsy کی رپورٹ نے یہ واضح کیا کہ خاتون کی موت Prussic Acid سے ہوئی ۔ جو کہCyanide سے بناایک زہر ہے۔ گارنیٹ کا قتل معمہ بنا رہا اور کبھی حل نہ ہوسکا ۔ اس قتل کے الزام میں ایوا کو حراست میں لیا گیا۔ مگر عدالت نے ایوا کو بے قصور پا کر چھوڑ دیا۔ اس بعد سے لے کر آج تک گارنیٹ کا بھوٹ ہوٹل میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ کیتھی ایک بوڑھی خاتون ہیں جن سے میری اچھی دوستی ہے کا کہنا ہے کہ انہیں ایک بار اس ہوٹل میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کیتھی کی طبیعت ناساز تھی۔ اس لئے اس کا خاوند اکیلا ر ہوٹل کے یسٹورنٹ میں چلا گیا۔ وہاں اُسے ایک خوبصورت خاتون ملی ۔ دونوں میں ہلکی گپ شپ ہوتی رہی۔ کیتھی کی ایک دوست جو وہاں کھانا کھا رہی تھی نے کیتھی کو بتایا کہ تمہارا شوہر اکیلا ریستورنٹ میں بیٹھا یوں خود کلامی کر رہا تھا جیسے اُس کے ساتھ کوئی ہو۔ غالباً اُس کی طبیعت ناساز ہے۔ جب کیتھی نے اپنے خاوند سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اُسے ایک دلچسپ خاتون ملی جو خفیہ علوم کی ماہر تھی وہ اس سے بات کر رہا تھا ۔ پھر اُسی رات کیتھی نے اپنی کھڑکی سے باہر جھانکا تو اندھیرے میں سفید لباس میں ملبوس ایک عورت کو ہوٹل کے احاطے میں گھومتے دیکھا وہ گارنیٹ کا بھوت تھا۔
یہ بھی مشہور ہے Savoy کے جس کمرے میں گارنیٹ کی موت واقع ہوئی تھی ۔ اُس کمرے میں ٹہر کر واپس جانے والی پانچ سے سات خواتین کی موت بھی زہر سے واقع ہوئی۔ ہوٹل میں ہاؤس کیپنگ کاکام کرنے والی خواتین کی اکثریت پراسرار اور خوفزدہ کرنے والے واقعات کا ذکر کرتی ہیں۔ ایک خاتون نے اس ہوٹل کی ملازمت چھوڑ دی تھی اور وجہ یہ بیان کی تھی رات کو ایک پُر اسرار خاتون کے ہیولے نے اُس کا گلا گھوٹا۔
انڈیا کی مضبوط سیاسی شخصیت محترم راہل گاندھی جو کہ انتہائی نفیس اور قابل شخص بھی ہیں۔ کا خاندان 1920 ء کی دہائی سے لے کر آج تک بارہا اس ہوٹل میں قیام کر چُکا ہے۔ مگر اس خاندان نے وہاں کبھی بھوت پریت نہیں دیکھے البتہ ایک عجیب سی بے چینی ضرور محسوس کی ۔ جو شاید تھکاوٹ کے باعث بھی ہو سکتی ہے۔
انگریز کے دورِ حکومت میں مسوری میں مال جو کہ تصویر محل سے مشرق کی سمت اور پبلک لائبریری سے مغرب کی جانب پھیلا ہوا ہے۔ وہاں انگریز نے ایک سائن بورڈ لگا رکھا تھا جس پر لکھا تھا ’’ Dogs and Indians are not allowd ‘‘
موتی لال نہرو جو کہ جواہر لعل نہرو کے والد اور اندار گاندھی کے دادا تھے جب بھی مسوری جاتے ہرروز جان بوجھ کر یہ قانون توڑتے اور جُرمانہ ادا کیا کرتے تھے۔ نہرو ہمیشہ اسی ہوٹل میں ٹہرتے تھے ۔ اکثر اندار جی بھی ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔ یہاں سے وہ ’’دہرہ دون‘‘ بھی جاتے ۔جہاں نہرو کی بہن وجیہ لکشمی رہتی تھی۔ یہ آسیب آزدہ ہوٹل اپنی تمام تر پُر اسراریت کے باوجود دلکش ہے۔ یہ Hauntedلگژری ہوٹل خاتوں گارنیٹ کی پر اسرار موت کی وجہ سے اس قدر مشہور ہوا کہ ایگتھا کرسٹی کا پہلا ناول جو کہ انہوں نے 1920 ء میں لکھاThe Mysterious affair at Styles اسی کیس کو بنیاد بنا کر لکھا ۔
میں جلد فراغت پاتے ہی اس ہوٹل میں قیا م کے لئے جاؤں گی ۔ کیا پتا بھٹکتی ہوئی گارنیٹ مجھے بھی مل جائے۔ کیا آپ اس آسیب زدہ ہوٹل میں رہنا پسند کریں گے۔ ؟ -
ملک قیصر اقبال ٹھیٹھیہ کا ایک منٹ ’’ کیا کھوکھر راجپوت ہیں ؟‘‘
ملک قیصر اقبال ٹھیٹھیہ کا ایک منٹ ’’ کیا کھوکھر راجپوت ہیں ؟‘‘
ایک منٹ
تحریر ۔ملک قیصر اقبال ٹھیٹھیہ
کیا کھوکھر راجپوت ہیں ؟
اس علاقہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے سر ڈینزل ابٹسن کی کتاب PUNJABI CASTSپڑھنے کو ملی جس میں پنجاب کی اہم اقوام کے بارے میں حقائق کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کتاب کا اردو ترجمہ یاسر جواد نے پنجاب کی ذاتیں کے نام سے بھی کر رکھا ہے ۔اس کتاب میں سر ڈینزل ابٹسن لکھتے ہیں پنجاب کے مشرق میں کھوکھر تسلیم شدہ راجپوت نظر آتے ہیں ۔تاہم جالندھر میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے قبیلے کے اند ر ہی شیخوں ،اعوانوں اور دیگر کے ساتھ شادی بیاہ کرتے ہیں نہ کہ اپنے راجپوت پڑوسیوں کے ساتھ ۔لیکن مغرب میں کھوکھر غزنی قطب شاہ کے سب سے بڑے بیٹے محمد کی اولاد ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں جو اعوانوں کا روایتی مورث اعلٰی ہے اور اعوان بھی یہ تسلیم کرتے ہیں ۔تاہم یہ بھی ان کی اپنی کہانی جیسا ہی من گھڑت ہے ۔مسٹر بارکلے نشاندہی کرتے ہیں کہ میجر ٹاڈ نے جیسلمر کے جو وقائع بیان کیے ہیں وہ جیسلمروں کے کھوکھروں اوربھٹیوں کے درمیان حضرت محمد ﷺکے دور سے بہت پہلے کے جھگڑے بیان کرتے ہیں ۔تاہم میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ میجر ٹاڈ کے خیال میں کھوکھر شاید گھکڑ ہی کا غلط تلفظ ہے ۔وہ کھوکھرا کو راٹھور راجپوتوں کا ایک قبیلہ بتاتے ہیں ۔بہاولپور میں کھوکھر راجپوت اپنا مرکزی قبیلہ بھٹی بتاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔بحیثیت مجموعی لگتا ہے کہ وہ در اصل راجپوت ہیں ۔جبکہ سرحد میں راجپوتوں کو جو کم درجہ حاصل ہے اس کی وجہ قریشی النسل ہونے کا دعوٰی ہے ۔جس نے مسلمان قبائل میں تیزی سے مقبولیت اختیار کی سرسا میں جہاں ذات سے باہر شادی کرنے کی پابندی پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے ،کھوکھر مقامی راجپوت قبائل میں باہمی شادیاں کرتے ہیں ۔دراصل سر لیپل گریفن اعوان کے ساتھ مشترک ماخذ کا دعوٰی کرنے والے کھوکھروں کو کھوکھر راجپوتوں سے الگ تصور کرتے ہیں ۔لیکن اس کا درست یا غلط ہونا مشکوک ہے کیونکہ اعوان روایتی بدیہی طور پر بہت زیادہ مقبول ہے ۔حتٰی کہ ان کھوکھروں میں بھی جو ابھی تک سارے علاقے میں بطور راجپوت اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ کھوکھر اس قدر وسیع پیمانے پر بکھرے ہوئے ہیں اور کسی نہ کسی دور میں اتنے طاقت ور رہے ہیں کہ پنجاب میں پست ذاتوں کے قبیلوں کے لیے کھوکھر بھی اتنا ہی مرغوب نام ہے جتنا کہ بھٹی ۔اور ہو سکتا ہے کہ وہاں پر راجپوتوں سے قطع نظر کھوکھر الگ ذات ہو بالکل اسی طرح جیسے یہ دونوں یقینی طور پر کھوکھر چوہڑوں سے الگ ہیں ۔کرنل ڈیویز کہتے ہیں کہ شاہ پور کے کھوکھروں کی متعدد سماجی روایات ہندو ماخذ کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور قطب شاہی کہانی کے خلاف بہت فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے ،
دریائے جہلم وچناب کی وادیوں کے ساتھ ساتھ اور خصوصا جھنگ و شاہ پور اضلاع میں کھوکھروں کی تعداد کافی زیادہ ہے ۔لیکن چاہے کم تعداد میں ہی سہی وہ زیریں سندھ ،ستلج کے علاوہ جہلم سے لے کر ستلج تک پہاڑوں کے دامن میں بھی ملے ہوئے ہیں ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پنڈدادنخان کا نا بھی ایک کھوکھر سردار کے نا م پر ہے ۔جو جہانگیر کے دور میں اس علاقہ کا راجہ تھا ۔گجرات اور سیالکوٹ کے کھوکھروں میں ایک اہم روایت کے مطابق وہ بالاصل گڑھ کراناہ میں آباد ہوئے ۔تاہم مسٹر سٹینڈ مین کی رائے میں یہ ضلع جھنگ میں شاہ پور کے جنوب میں واقع کوہ کیرانا ہے اور تامرلین نے انہیں وہاں سے بے دخل کیا ۔
جہلم اور چناب کے میدانوں کے کھوکھروں کے ارتکاز اور دامن کوہ خطہ کے کھوکھروں کا وسیع اختلاط اس نظریہ میں کچھ رنگ بھرتا ہے کہ وہ پہاڑیون سے نیچے کی طرف پھیلے نہ کہ جنوب سے اوپر کی طرف ۔
مسلمان تاریخ دانوں کے مطابق تیمور کے حملہ کے وقت کھوکھر لاہور پر قابض او ر اپر باری دو آب میں خاصے طاقت ور تھے ۔
چودھویں صدی میں شیخا یا شجاع مشہور کھوکھر سردارنے 1393میں لاہور پر قبضہ کیا ۔بعد میں شیخا کا بیٹا جسرت ان کا سردار بنا ۔اس نے کشمیر پر قبضے کے لیے شاہی خان کا ساتھ دیا اور علی شاہ کا مقابلہ کیا ۔اس نے دہلی تک فتوحات کیں ۔کھوکھروں کی تاریخ فتح و شکست کی داستانوں سے مزین ہے ۔کھوکھر قبیلے سے نکلنے والے کئی ذیلی قبائل آج اپنی شناخت کھو رہے ہیں ،انہیں اپنے خاندانی پس منظر پر فخر کی بجائے نہ جانے کیوں شرمندگی ہے ۔
اس مختصر کالم میں کھوکھروں کی تاریخ کو بیان نہیں کیا جا سکتا لیکن کوشش کی ہے کہ کھوکھروں کے اوریجن کے بارے قارئین کو تھوڑی سی معلومات فراہم کی جائیں ۔بحرحال ہمارا کام ایسے تاریخی حقائق کو سامنے لانا ہے جن سے آج کی نوجوان نسل کی نہ صرف معلومات میں اضافہ کیاجائے بلکہ ان کاشوق مطالعہ بھی بڑھایا جائے ۔اب بھی اگر کوئی کہے کہ کھوکھر راجپو ت نہیں ہیں تو ہم ہی ہار مان لیتے ہیں ۔