کالم

مسز جمشید خاکوانی کا فکر انگیز کالم ” آئینہ ” سیاست کی defination کیا ہے ؟

آئینہ
عالیہ جمشید خاکوانی
سیاست کیdefination کیا ہے؟
چھ ڈاکو جو کہ نوجوان تھے ۔ جینز اور جیکٹس میں ملبوس کلائیوں میں بینڈ یا سٹیل کے کڑے پہنے ہوئے کانوں میں ایک ایک بُندا گریبان کھلے ہوئے کمرے میں داخل ہوتے ہی انہوں نے بنک سے لُوٹے ہوئے پیسوں کا بیگ ایک طرف پھینکا اور جس کو جہاں جگہ ملی پاؤں پسار کے لیٹ گیا فُل آواز میں ڈیک جاری تھا اور میوزک کی تال پہ تھرکتے نوجوانوں کے پاؤں بتا رہے تھے کہ انہیں اپنی اس غیر اخلاقی حرکت کا زرہ بھر احساس یا ندامت نہیں۔ تھوڑی دیر بعد ملازم کھانا لے کر آ گیا بھنے ہوئے چرغوں سے دعوت اُڑانے کے بعد ایک نوجوان نے جیب میں ہاتھ ڈلا اور جو کچھ ہا تھ میں آیا فراخ دلی سے ملازم کے حوالے کر دیا۔ ملازم کی آنکھیں چمک اٹھیں اس نے نوجوان کو سلام کیا اور الٹے قدموں چلتا ہوا باہر نکل گیا ۔ ڈاکو ہیں تو کیا ہوا ملازم نے کندھے اُچکائے میرے کو تو تنخواہ سے زیادہ ہی مل جاتا ہے وہ یہ سوچتے ہوئے تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا۔
ادھر ڈاکوؤں نے کھانے اور شغل سے فراغت کے بعد مال کی طرف دھیان دیا۔ گینگ کے سردار نے اپنا حصہ زیادہ رکھا ایک جوان کے ماتھے پر بل پڑ گئے ، ویسے یار تمھارا کام صرف گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرنا ہے سارا خطرہ تو ہم مول لیتے ہیں گارڈ کی گن کا سامنا بھی ہمیں ہی کرنا ہوتا ہے اور پکڑے جانے کا خطرہ بھی ہمیں ہی زیادہ ہوتا ہے لیکن حصّہ تم زیادہ رکھ لیتے ہو یہ نا انصافی ہے ایک نے زبان کھولی تو باقی نوجوان بھی سوالیہ نگاہوں سے باس کو دیکھنے لگے۔ گینگ سردار کی تیوری چڑھ گئی ۔
اوئے ! تم لوگوں کو کس نے اکھٹا کیا؟ یہ جو ٹکے ٹکے کے مال پہ ہاتھ صاف کرتے تھے آج لاکھوں تمھاری جیبوں میں ھوتے ہیں زیادہ بکواس کی تو گولی حلق میں اُتار دونگا۔نوجوان نے سر جھٹکا اور اُٹھ کے باہر نکل گیا باقیوں نے بھی اپنا حصہ اُٹھا کر نکل جانے میں ہی عافیت سمجھی۔۔
یہ ہے ہماری آج کل کی پاکستانی سیاست کی ڈیفی نیشن ۔لوٹ کے مال کا زیادہ حصہ لیڈر کے ہاتھ آتا ہے باقی جو ہاتھ لگتا ہے اسی پہ اکتفا کرتے ہیں بخشیش حاشیہ برداروں اور کارندوں کے حصے میں آتی ہے وہ اسی کو غنیمت سمجھتے ہیں اور عوام اندھوں میں کانے راجہ کو ہی غنیمت سمجھ کے صبر کر لیتے ہیں جی ہاں !آج کل لوگ کمنٹس میں لکھتے ہیں نواز شریف اندھوں میں کانا ہے یعنی زرداری وغیرہ سے بہتر ہے اس لیئے ہم اسے ووٹ دیتے ہیں اپنی تسلی کے لیے عوام نے بھی کیا تاویل گھڑ لی ہے اس لیے ایسی عوام کی تسلی کے لیے ہمارے سیاست دانوں نے اپنے ارد گرد لمبی زبانوں والے مشیر ،اکڑی ہوئی گردنوں والے وزیر اور بکاؤ صحافیوں کی قطاریں لگائی ہوئی ہیں جن کا کام اپنے لیڈر کا دفاع کرنا ہوتا ہے اس کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنا جو اس کام میں جتنا آگے بڑھ جاتا ہے من کی مراد پاتا ہے جناب پرویز رشید،رانا ثنا اللہ ،مسٹر سعد رفیق ،دانیال عزیز ہراول دستہ ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر صاحب اقتدار کا ہراول دستہ ہوتے ہیں چاہے وہ مشرف ہو یا شریف
آپ ان کو اکل حلال کی تلقین کرو انہیں صرف تنخواہ میں گذارہ کرنے کی تنبہیہ کرو یہ چٹکی بجاتے ہی اڑنچھو ہو جائیں گے سیاست اب صرف مال کمانے کا دھندہ ہے ابھی جو بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں ان میں بھی کروڑوں نہیں اربوں کا مال چلا ہے ہمارے ایک ملنے والے جن کو سیاست کے ذریعے خدمت کا شوق چرایا ان کو ہمارے ایم این نے مشورہ دیا دو کروڑ مجھے دو میں تمہیں حمزہ سے نون لیگ کا ٹکٹ لے دیتا ہوں یہ تو ان کے پاس دو کروڑ نہ ہوئے اور وہ تحریک انصاف کا ٹکٹ لے آئے جتنا گڑ اتنا میٹھا جیتنے کے باوجود ہار گئے کیونکہ جس نے دو کروڑ بھرا تھا وہ کیوں ہارتا؟ بعد میں وہ معافی مانگنے بھی آیا کہ یار مجبوری ہے سیاست میں یہی کچھ کرنا پڑتا ہے میں دو کروڑ بھر کے گھاٹے کا سودا کیوں کرتا انہوں نے جتوانے کا وعدہ کیا تھا بے ایمانی سہی ایمان میں کیا رکھا ہے آپ خود سوچیں نئی نسل کے اس سپوت کے دل میں یہ بات اتر گئی باپ سے شکوہ کرنے لگا ابا کیا تھا اگر تو دو کروڑ بھر دیتا میں جیت تو جاتا اور ہم بعد میں اس سے زیادہ کما بھی لیتے تو آپ کیا سمجھتے ہیں اربوں کے کاروبار اور کمپنیاں حق حلال کے مال سے ممکن ہیں ؟حق حلال کمانے والے تو دو وقت کی روٹی پوری نہیں کر سکتے بمشکل اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھ پاتے ہیں لوگ نواز شریف سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کس نے دیے ہیں یہ جھمکے،کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے
اس سوال کو ایوان کی سطع پر لانے والے بھی حق بجانب ہیں کیونکہ یہی وہ مقدس ایوان ہے جہاں اپنی ذات سے بالا تر ہو کر ملک کی وفاداری اور عوام کی خدمت کا حلف اٹھایا جاتا ہے اس ایوان کی وساطت سے اگر آپ صرف اپنی ذات اور اپنی کرپشن کا دفاع کرتے ہیں تو پھر اس ایوان میں آنے کا آپ کو کوئی حق نہیں یہ بھوکی ننگی عوام کب تک آپ کو ووٹ دیکر مسند اقتدار تک پہنچائے گی ایک دن یہ طلسم ٹوٹ جائے گا
آخری غلطی مشرف نے کی تھی اب کوئی اس غلطی کو نہیں دہرائے گا کہ آپ مظلوم بن کر واپس ملک لوٹنے کے لیے آ بیٹھیں آج عوام کی نظریں پھر اسی سمت اٹھ رہی ہیں لیکن وہ خاموش ہیں دیکھ رہے ہیں کہ آپ اپنی ترجیحات بدلتے ہیں یا عوام کو موقع دیتے ہیں لاڑکانہ کے ایک محلے نشتر کے دو نو عمر لڑکے کاشف اور نوید ساتھ والے گاؤں میں ایکو ساؤنڈ لے کر شادی کی ایک تقریب میں روزی کمانے جا پہنچے لیکن گاؤں کے کچھ بے راہ رو نوجوانوں نے انہیں نشہ پلا کر ساری رات زیادتی کا نشانہ بنایا جس پر ایک بچہ دم توڑ گیا اور دوسرا ابھی تک بے ہوش ہے سوال یہ نہیں کہ یہ سانحہ کیوں ہوا سوال یہ ہے کیا اس ریاست پر غریب کا کوئی حق نہیں رہا کوئی غریب کی اس وقت تک بات ہی نہیں سنتا جب تک وزیر اعلی نوٹس نہ لے جو پولیس ہمہ وقت حکمرانوں کی حفاظت پر معمور رہتی ہے اسے غریب کی ایف آئی آر تک کاٹنے کی فرصت نہیں جب تک میڈیا چیخ چیخ کر آسمان سر پہ نہ اٹھا لے اس وقت تک محکمہ جاتی کاروائی شروع نہیں ہوتی کیا وزیر اعظم کا کام صرف اپنی اور اپنے بچوں کی کمائیوں کا دفاع کرنا رہ گیا ہے کیا کسی اور ملک میں بھی ایسا ہوتے دیکھا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم پڑوسی ملک کے جاسوس پکڑے جانے پر تو ایک لفظ نہ بولے مگر اپنی دولت بچانے کے لیے سرکاری ٹی وی کا استعمال کرے عمران خان کی سرکاری ٹی وی پر خطاب کی خواہش بچگانہ سہی وزیر اعظم کی تو مجرمانہ ہے کیا کیا سانحے اس ملک پہ گذر گئے ہمارے وزیر اعظم کی خاموشی نہ ٹوٹی اور ٹوٹی تو کہاں جب دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا الوداع اے کاروبار سیاست الوداع!

مزید آرٹیکل
Close
Back to top button