دنیاکی زندگی ایک دھوکہ ہے
حافظ کریم اللہ چشتی
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔ اِعْلَمُوْٓااَنَّمَاالْحَیٰوۃُ الدُّنْیَالَعِب وَّلَھْو’‘وَّزِیْنَۃ’‘وَّتَفَاخُر’‘بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُر’‘فَی الْاَمْوَالِ وَالْاِوْلَادِ۔
ترجمہ:جان لوکہ دنیاکی زندگی محض کھیل اورتماشاہے اورظاہری آرائش ہے اورتمہاراآپس میں بڑائی مارنااورمال اوراولادمیں ایک دوسرے پرزیادتی چاہنا۔(سورۃ الحدید۲۰)
تمام تعریفیں خالق کائنات ،مالک عرض وسماوات اللہ رب العالمین کے لئے جس نے آسمان کوہمارے لئے چھت اورزمین کوبچھونابنایااورہمیں ہرقسم کی نعمتوں سے نوازاجن کاہم شماربھی نہیں کرسکتے ۔تمام جہانوں کی نعمتوں سے بڑھ کرسب سے بڑی نعمت اپناپیارامحبوب جناب احمدمجتبیٰ محمدمصطفیﷺ ہمیں عطافرمایا۔اللہ رب العالمین نے نسل انسانی کی رشدوہدایت کے لئے کم بیش ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء کرام علہیم السلام مبعوث فرمائے ۔ جنہوں نے اللہ پاک کے حکم کے مطابق نسلِ انسانی کوہدایت و رہنمائی کی راہ دکھلائی قربان جاؤں حضرت عبداللہؓ کے دریتیم ،حضرت آمنہؓ کے لال،فخرموجودات،سرورکائنات ،احمدمجتبی محمدمصطفیﷺ پرجنہوں نے اپنی پوری امت کو ایسے وقت میں گمراہی اورضلالت کے گڑھے سے نکالا جب کہ ہم اپنے معبودِحقیقی کوچھوڑکرشیطانی اعمال مثلاًبت پرستی،قتل وغارت،شراب، زنااورجوئے کی طرف راغب تھے اللہ پاک نے ہماری ہدایت کے لئے ہم میں سے اپنے محبوبﷺکومبعوث فرمایا۔مسلمان بھائیو!ہرکسی پریہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ دنیا فانی ہے جس نے ایک دن فناہوجاناہے۔ ہم نے اس دنیاسے محبت توکررکھی ہے پراسکی حقیقت کونہیں جانا ہم اس کی لذتوں میں اسقدرمشغول ہوگئے۔کہ دین اسلام کے احکام سے دورہوتے جارہے ہیں۔یہ دنیاکی لذتیں فانی ہیں جن پرقیامت کے دن ہم پچھتائیں گے کہ کاش دنیا میں ہم نے یہ لذتیں نہ لی ہوتیں اس دن صرف پچھتاوابھی ہوگااورکچھ نہیں۔اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ اوراس کے محبوبﷺکے احکامات کے مطابق زندگی بسرکریں تاکہ اس عارضی زندگی میں بھی راحت نصیب ہواورقبروحشرمیں بھی راحت نصیب ہواورجنت الفردوس ہمارے نصیب ہو۔
حیات دنیاسے مرادوہ زندگی ہے جونفس امارہ کے لئے صرف کی جائے اس صورت میں اس زندگی کے سارے کام لغواورکھیل ہیں مگرجوزندگی توشہ آخرت جمع کرنے کاذریعہ بنے وہ حیات دنیانہیں بلکہ حیات آخرت ہے ۔لہوولعب وہ ہے جس میں مشغولیت زیادہ ہومگرنتیجہ کچھ نہ ہو۔دنیاکی مثال اس ہرے بھرے کھیت کی طرح ہے جوپہلے خوشنمااوربھلامعلوم ہو۔پھرتھوڑی ناموافق ہوایادھوپ یابارش سے برباد ہوجائے۔جیسے کھیتی کے لئے بہت سی آفات ہیں ایسے ہی دنیاکے لئے بھی۔ خیال رہے کہ کسانوں کوکفاراس لئے فرمایاکہ کفرکے معنی ہیں چھپانا۔یہ بھی دانہ زمین میں چھپاتے ہیں یہ مطلب بھی ہوسکتاہے کہ ظاہری رونق پرکافراتراتاہے مومن رب پرتوکل کرتاہے ۔ایسے ہی دنیاداربہت مشقت سے کسی درجہ پرپہنچتاہے اورموت کی ایک ہچکی آتے ہی سب کچھ چھوڑچھاڑکرچل دیتاہے ۔مسلمان بھائیو:پھرایسی بے وفازندگی نام کی چیزپراعتبارکیوں کرتے ہو ۔دنیاوی زندگی چارقسم کی ہے۔طغیانی ،شیطانی،انسانی،ایمانی.طغیانی زندگی وہ جواللہ پاک اوراس کے محبوب ﷺکی مخالفت میں گزرے جیسے فرعون یاابوجہل کی زندگی نفسانی و شیطانی زندگی وہ ہے جونفس امارہ کی پرورش اوررب تعالیٰ سے غفلت میں گزرے جیسے عام غافل زندگی گزارتے ہیں ایمانی زندگی وہ زندگی ہے جوآخرت کی تیاری میں گزرے جیسے صحابہ کرام علہیم الرضوان نے اپنی زندگیاں مبارک گزاریں قیامت کے دن کافرکے دلوں پرغشی چہروں پرسیاہی چھاجائے گی مسلمانوں کے دلوں پرخوشی اورچہروں پرروشنی چھاجائے گی کیونکہ جومومن ہوتاہے وہ اپنی زندگی اللہ پاک اوراس کے محبوبﷺکے حکم کے مطابق گزارتاہے مگرکافراپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارتاہے ۔اسی لئے دنیاکاسامان کافر کے لئے موت کے بعدکام نہیں آتالیکن مومن کواس کی دنیاموت کے بعدبلکہ قیامت کے دن بھی کام آئے گی ۔جیساکہ اگرکوئی مومن دنیامیں صدقہ جاریہ کرکے جاتاہے موت کے بعدبھی اس کویہ ثواب ملتارہتاہے۔کافرکی زندگی دنیاکی زندگی ہے اورمومن کی زندگی دینی زندگی ہے کیونکہ کافرکی زندگی خودی کے لئے ہے اورمومن کی زندگی خداکے لئے ہے ارشادپاک ہیقل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للّٰہ رب العالمین۔
بشکل رنگ وُگل اورحقیقت میں خارہے دنیا ایک پل میں اِدھرسے ہے اُدھرچاردن کی بہارہے دنیا
زندگی نام رکھ دیاکس نے موت کاانتظارہے دنیا
ارشادباری تعالیٰ ہے۔”دنیاکی زندگی کی مثال توایسے ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتاراتواس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں سب گھنی ہوکرنکلیں جو کچھ آدمی اورچوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپناسنگارلے لیااورخوب آراستہ ہوگئی اوراس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آگئی ہماراحکم اس پرآیارات میں یادن میں توہم نے اسے کردیاکاٹی ہوئی گویاکل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مفصل بیان کرتے ہیں غورکرنے والوں کے لئے”( سورۃ یونس پارہ ۱۱آیت نمبر۲۴)اس آیت کریمہ میں دنیاوی زندگی کوبارش کے پانی سے تشبیہ چندوجہ سے دی گئی ہے پہلی وجہ تویہ ہے کہ کنوئیں ،تالاب کاپانی قبضہ میں ہوتاہے مگربارش کاپانی قبضہ میں نہیں ہوتا ایسے ہی دنیاکے حالات ہمارے قبضہ سے باہرہیں ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ بارش کبھی ضرورت سے زیادہ آجاتی ہے کبھی ضرورت سے کم کبھی ضرورت ہوتی ہے مگر بارش بالکل نہیں ہوتی ایسے ہی دنیاکاحال ہے تیسری وجہ یہ ہے کہ بارش کے آنے کاوقت معلوم نہیں ہوتاایسے ہی دنیاہے چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر بارش نہ ہو،تو مصیبت ،زیادہ ہوتوآفت ہے اسی طرح دنیانہ ہو،توتکلیف زیادہ ،ہوتوآفت ہے اسی طرح کافرجب مشقت سے دنیاجمع کرتا ہے جب جمع ہوجاتی ہے تووہ یہ سمجھتاہے کہ اب یہ میری ہوچکی ہے ہرطرف اس پرتصرف کرونگااچانک یاتومرجاتاہے یادنیااس سے رخصت ہوجاتی ہے پھراس وقت افسوس کرتاہے۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ بارش کاپانی باغ میں پڑکرپھول اگاتاہے خارمیں پہنچ کرکانٹے اسی طرح دنیا کافرکے پاس پہنچ کر کفربڑھاتی ہے اورمومن کے پاس جاکرایمان میں برکت دیتی ہے۔ ابوجہل نے مال سے دوزخ کوخریدلیا۔امیرالمومنین سیدناحضرت عثمان غنی ذوالنورینؓ نے اس مال سے جنت بلکہ وہاں کاکوثر۔اللہ والے دنیاکواپنے پاس رکھتے بھی نہیں ہیں حضرت ابوبکر صدیقؓ،حضرت عمرفاروقؓ،حضرت علی المرتضیٰ یہ تینوں خلفاء کرام ایسے ہیں جنہوں نے عملی طورپرکبھی زکوٰۃ نہیں نکالی۔ جب ان خلفاء کرام کی حالات زندگی کا مطالعہ کیاگیاتوپتاچلا کہ ان کے پاس جوکچھ بھی آتاتھاوہ اللہ کے نام پردے دیتے تھے زکوٰۃ دینے کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتاتھا۔ مسلمان بھائیو!ہمیں بھی اس بے وفادنیاپرگھمنڈنہیں کرناچاہیے یہ اس وقت دھوکادیتی ہے جب اسکی بہت ضرورت ہوتی ہے دنیاکی نا پائیداری اوریہاں مصیبتوں کااچانک آجانابھی عقلمندکودرس عبرت دیتاہے اس سے اسکاایمان بھی قوی ہوجاتاہے بہت سے غافل دنیاکھوکر آنکھیں کھولتے ہیں اوراپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
جگہ جی لگانے کی دنیانہیں ہے یہ عبرت کی جاہے تماشانہیں ہے
آپﷺکی خدمت اقدس میں ایک شخص شام کی سرزمین سے حاضرہواحضورنبی کریمﷺنے اس سے انکی زمینوں کی بابت پوچھی تواس شخص نے شام کی زمین کی کشادگی اوراسکی قسم ہاقسم کی پیدوارکاتذکرہ کیاآقاﷺنے پوچھاتم کیاکرتے ہو؟اس شخص نے عرض کیایارسول اللہﷺ! ہم مختلف قسم کے اناج کاشت کرتے ہیں اورپھررنگارنگ کی ڈشیں تیارکرکے انہیں کھاتے ہیں آقاﷺنے پوچھاپھرکیاہوتاہے ؟اس شخص نے عرض کیایارسول اللہﷺ!آپ بخوبی جانتے ہیں کہ رفع حاجت اورکیاسرکارمدینہ راحت قلبُ وسینہ ﷺنے ارشادفرمایایہی مثال دنیاکی ہے
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریمﷺنے ارشادفرمایا”لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مندوہ ہے جودنیا(کی محبت) کوسب سے زیادہ چھوڑنے والاہو”۔ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍہم آخرت کی ابدی زندگی کوچھوڑکردنیاکی فانی زندگی میں لگ گئے ہیں ہمیں نہ حقوق اللہ کاخیال ہے نہ حقوق العبادکاہم نے اللہ پاک اوراس کے محبوب ﷺکے بتائے ہوئے راستو ں کوچھوڑدیاہے ۔ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس دنیانے ایک دن فنا ہوناہے باقی رہے گی توصرف ایک ہی رب ذوالجلال کی ذات پاک باقی رہے گی ۔ہمیں بھی یہی چاہیے کہ اس ذات سے محبت کریں جس نے ہمیں اشرف المخلوقات بناکراپنے پیارے نبی کریمﷺکی امت میں پیدافرمایا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے اس دن آدمی یادکرے گاجوکوشش کی تھی اورجہنم ہردیکھنے والے پرظاہرکی جائے گی تووہ جس نے سرکشی کی اوردنیاکی زندگی کوترجیح دی تو بیشک جہنم ہی اسکاٹھکاناہے۔(پارہ ۳۰سورۃ النٰزعٰت آیت ۳۴،۳۹) یہاں پرتوہم عیش و عشرت کی زندگی گزاررہے ہیں ہم نے دنیاکواپناپکاٹھکانہ سمجھ رکھا ہے ۔مسلمانوبھائیو!ایک دن وہ بھی آئے گاکہ اس دن انسان کے سامنے اسکی پوری زندگی کی فلم گھومنے لگے گی وہ اعمال جن کوہم بھول گئے ہیں وہ ایک ایک کرکے نسیان کی گہرائیوں سے ابھرنے لگیں گے اگردنیاکی زندگی ہم نے اچھے کاموں میں گزاری توقیامت کے دن خوشی کی انتہانہ ہوگی اگردنیاکی زندگی بداعمالیوں میں گزاری تواس روزافسوس ہوگاقیامت کے دن ہمارے اعضاء گواہی دیں گے ۔قیامت کے دن اولادآدمؑ دوگروہوں میں ہوگی ایک گروہ ان لوگوں کاہوگاجنہوں نے سرکشی اختیارکی حدوداللہ کوتوڑاہوگادنیاوی زندگی کے آرام وآسائش کوابدی زندگی کے آرام وآسائش پرترجیح دی ہوگی۔آج ہم کونہ نمازیادہے نہ زکوٰۃ صدقات نہ روزہ وحج کل بروزقیامت ہم پچھتائیں گے کہ افسوس صدافسوس ہم نے زندگی گناہوں میں نہ گزاری ہوتی کاش کہ ہم نے اپنی زندگی میں حقوق اللہ وحقوق العبادکاخیال رکھاہوتا۔پراس دن صرف پچھتاواہی ہوگا۔ دوسراگروہ ان لوگوں کا ہوگاجواپنی پوری زندگی یہ تصورکرکے ڈرتے رہے کہ ہم نے ایک دن اللہ پاک کے روبروپیش ہوناہے ۔اپنی ساری زندگی شریعت کے حکم کے مطابق گزاری ہوگی حقوق اللہ اورحقوق العبادکاخیال رکھاہوگا۔اس قسم کے لوگوں کے لئے جنت کی بہاریں ان کی چشم براہ ہونگی حوریں رنگین اور خوشبودار پھولوں کے ہارپروئے ہوئے ان کاانتظارکررہی ہوں گی۔حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ ملک الموت ہرگھرمیں تین مرتبہ روزانہ چکرلگاکردیکھتے ہیں۔کس کاررق پوراہوگیا،کس کی مدت عُمرپوری ہوگئی ۔ جس کارزق پوراہوجاتاہے اس کی رُوح قبض کرلیتے ہیں اورجب اس کے گھروالے اس کی موت پرروتے ہیں توملک الموت دروازے کی چوکھٹ پرکھڑے ہوکرکہتے ہیں ۔میراکوئی گناہ نہیں مجھے تواسی کاحکم دیاگیاتھا۔واللہ میں نے نہ تواس کارزق کھایانہ اس کی عُمرگھٹائی ،نہ اسکی عمرسے کچھ حصہ کم کیا۔میں تمہارے گھروں میں بار بارآتارہوں گا۔یہاں تک کہ تم میں سے کسی کوبھی باقی نہیں چھوڑوں گا۔حضرت حسنؓ نے فرمایااگرمیت کے گھروالے ملک الموت کاکھڑاہونادیکھ لیں اوران کاکلام سن لیں تواپنی میت سے غافل ہوجائیں اوراپنے اُوپرروئیں۔(ابن ابی الدنیا)امیرالمومنین سیدناحضرت عثمان غنی ذوالنورینؓجب کسی قبرکے قریب سے گزرتے یاقبرستان میں جاتے توقبرکودیکھتے ہی زاروقطارروناشروع ہوجاتے ۔آپؓ اتناروتے کہ آپؓ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے ترہوجاتی ہچکی بندھ ہوجاتی ۔آپؓ کے ساتھ موجوداحباب عرض کرتے تھے کہ جنت اوردوزخ کے ذکرکے وقت آپؓ کبھی اتنانہیں روئے جتناقبرکودیکھ کرروتے ہیں اسکی وجہ کیاہے؟آپؓ نے فرمایا’’موت اورقبرقیامت کاپہلامرحلہ ہے ‘‘اگراس میں ناکام ہوئے توقیامت میں کامیابی کی کوئی سبیل نہیں ہے اوراگرموت کے بعدقبرکے اس امتحان میں کامیاب ہوگئے توقیامت میں کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں ۔فیصلہ قیامت کااس قبرمیں ہوجاناہے۔ ام المومنین سیدتناحضرت عائشۃ الصدیقہؓ سے روایت ہے کہ ’’حضرت عائشۃ الصدیقہؓ نے حضورﷺسے عذابِ قبرکے بارے میں پوچھا؟آقاﷺنے فرمایاہاں عذاب قبرحق ہے اس دن کے بعدعذاب قبرکے بارے(لوگوں کے شکوک وشبہات کوپوچھے بغیررفع کرنے کی خاطر)حضورنبی کریمﷺنے ایک نمازبھی ایسی نہیں پڑھی جس نمازکے اختتام پرآپﷺنے عذابِ قبرسے پناہ نہ مانگی ہو۔(السنن الکبریٰ جلد۱صفحہ۳۸۹،حدیث۱۲۳۱)حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’حضورﷺصحابہ کرام کویہ دعااس طرح سکھاتے اورپڑھاتے جیسے قرآن کی سورۃ کی تعلیم دیتے تھے ۔’’اے اللہ میں عذاب جہنم سے تیری پناہ مانگتاہوں اورمیں قبرکے عذاب سے تیری پناہ مانگتاہوں اورمیں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتاہوں اورزندگی اورموت کی آزمائش وامتحان سے پناہ مانگتاہوں ۔(مسنداحمدجلد۱صفحہ۳۱۱،حدیث۲۸۳۹)
اللہ رب العزت ہم کواپنی بندگی اور مخلوقِ خداکی خدمت کی توفیق عطافرماکر ہم سب کواس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے، بروزمحشرآقاﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے وطن عزیزپاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے۔ملک پاکستان میں نظام مصطفیﷺبرپا فرمائے۔ مسلمانوں کوآپس میں اتفاق واتحاد نصیب فرمائے۔اللہ رب العالمین آقائے دوجہاں سرورکون ومکاںﷺ کی سچی اورپکی غلامی نصیب فرمائے۔کفارومشرکین،منافقین، حاسدین کامنہ کالافرمائے ۔ حضورﷺکے غلاموں کادونوں جہانوں میں بول بالافرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامینﷺ