خواجہ اجمیر چشتی کے سالانہ عرس کے موقع پر عروہ نیازی کی تحریر
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری
تحریر . عروہ نیازی
حضور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا آج عرس مبا رک ہے آپ اپنے دور کے بہت بڑے قطب او غوث تھے۔
ایک دن آپ کی نظر 5 بہت بڑے آتش پرستوں پر پڑی وہ آپ کو دیکھ کر کا نپنے لگ گئے۔آپ نے پو چھا ایک بات تو بتا ئو آگ کو کیوں پو جتے ہو؟
وہ کہنے لگے۔اس لئے پو جتے ہیں کہ موت کے بعد ہمیں آگ نظر آ جا ئے اور ہمیں جلا نہ سکے۔
آپ نے فرما یا آگ تو تب نہیں جلا ئے گی جب خدا کی عبا دت کرو گے۔
وہ کہنے لگے آپ ہمیں دکھا دیں کہ آگ آپ کو نہیں جلا سکتی تو ہم آ پ کی بات مان لیں گےَ
آپ نے فرما یا۔
آگ کی یہ مجال کہ غریب نواز کو جلا سکے آگ تو غریب نواز کے جو توں کو بھی نہیں جلا ئے گیَ یہ کہ کر آپ نے اپنے جو تے اتار کے شا گر دوں کو دے دئے اور فرمایا انہیں آ گ میں رکھ دو۔انہیں آ گ میں رکھ دیا گیا
آپ نے فرما یا اے آگ معین الدین کے جو توں کا خیال کرنا
غیب سے آواز آئی کہ آگ کی کیا مجال کہ خدا کے دوست کے جوتوں کو جلا سکے
وہ پا نچوں یہ دیکھ کے مسلمان ہو گئے۔
یہ واقعہ سید الاقطاب میں آ یا ہے۔
آپ نے دہلی سے اجمیر کا سفر کیاَ۔اور صرف اس سفر میں آپ نے 700 خا ندانوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔
اسی سفر میں جب آپ اجمیر پہنچے آپ نے اپنے 40 درویشوں کے ساتھ ایک بہت بڑے درخت کے نیچے قیام فرما یاَ۔وہ درخت اس وقت کے را جہ کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔آپ وہاں قیام پزیر ہو گئے۔
مسالک العلوم جلد دوم صفحہ 278 میں آ تا ہے۔
راجہ کے دربا ری آ ئے وہ غصہ سے بھڑک اٹھے اور آپ سے گستاخانہ لہجہ میں بات کی۔آپ کے 40 درویش بے ساختہ آپ کے چہرے کی طرف دیکھنے لگے کہ آپ کیا کہتے ہیں،
آپ نے فرما یا چلو،اور فرما یا ہم چلتے ہیں اور تمہا رے راجہ کےاونٹ بیٹھے کے بیٹھے رہ جا ئیں گے۔
اس کے بعد جب صبح سب لوگ آ ئے تو اونٹ نہ اٹھے پو رے اجمیر میں پھیل گیا کہ کو ئی درویش آ یا ہے تب انہوں نے آ کے آپ سے معافی مانگی،تب جا کے اونٹ اٹھ گئے۔
اجمیر کی سرزمین پر یہ آ پ کی پہلی کرامت تھی۔