سیاسیات

PTI کا یوم تاسیس . اقبال سیالکوٹین کی خصوصی تحریر

انصاف ، انسانیت ، خودداری اور عمران خان …………….. تحریر اقبال سیالکوٹین
ان سب کو ملا کر بنتی ہے پاکستان تحریک انصاف ،
آج سے بیس سال قبل ایک شخص نے چند افراد کے ساتھ مل کر ایک سیاسی جماعت کو تشکیل دیا ،
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک کمرے میں بیٹھ کر بنائی گئی یہ پارٹی کا ایک ایسا وقت بھی ائے گا کہ یہ کروڑ سے زائد ممبران پرمشتمل ہو گی ،
آج اس جماعت کے یوم تاسیس پر پیش خدمت ہیں تحریک انصاف اور عمران خان صاحب کی سیاسی اور سماجی خدمات کی چیدہ چیدہ جھلکیاں ،
عوامی خدمت کا جذبہ تو عمران خان میں روز اول سے ہی موجود تھا اسکا واضح ثبوت کہ جب آسٹریلیا میں کرکٹ ورلڈ کپ اٹھائے صدی کے سب سے بہترین کپتان نے اعلان کیا
میں یہ ورلڈ کپ پاکستان کی عوام کے نام کرتا ہوں
اور میں آج شروعات کرتا ہوں پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں کینسر کا ایک ایسا ہسپتال بنانے کی جہاں غریبوں کا علاج مفت ہوگا .
عمران خان نے اعلان تو کر دیا اور شروعات بھی کر دی
لوگوں نے اسے دیوانے کا خواب کہا اور بہت سوں نے پھبتیاں کسیں کہ خان صاحب کوئی چھوٹا موٹا سا چیرٹی ہسپتال کھول لو اپنی والدہ کے نام سے
چلو مان بھی لیا کہ تم ہسپتال بنا لو گے
لیکن اس میں غریبوں کا علاج اور وہ بھی مفت اور پاکستان جیسے غریب ملک میں ؟
سٹھیا گئے ہو بھائی کیا ؟
کرکٹ ورلڈ کپ تو تم نے جیتا ٹیم کے بل بوتے پر ہاں تم بہترین کپتان تھے اور تمھاری ولولہ انگیز قیادت کا کردار بہت زیادہ تھا
لیکن بھائی یہ کینسر کا ہسپتال ہے کوئی دو کمروں والی ڈسپنسری نہیں ہے .،
لیکن ایک وقت آیا کہ عمران خان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا
اور کرکٹ ورلڈ کپ کی گیارہ رکنی ٹیم کے بعد ہسپتال کے اس ورلڈ کپ میں اسکی ٹیم تھی کروڑوں پاکستانی اور بیرون ملک بسنے والے پاکستانی
اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اسی عمران خان نے لاہور کے شوکت خانم کیسنر ہسپتال کے بعد پشاور میں بھی اسکی شاخ کا افتتاح کر دیا اور اسکے بعد کراچی میں بھی اسی طرز کے ایک کینسر ہسپتال کی داغ بیل بھی ڈال دی ،
کینسر ہسپتال بنانے کی مہم کے دوران عمران خان جب عوام میں گئے تو انہوں نے ایک چیز بہت غور سے دیکھی
کہ عوام الناس جس پر اعتبار کریں اسے دل کھول کر عطیات دیتے ہیں
لیکن یہی عوام ٹیکس ادا کرتے وقت ہاتھ کیوں کھینچ لیتے ہیں ؟
پھر جب عمران خان نے اس بات کی گہرائی میں جا کر پاکستان کی سیاہ ست کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ گزشتہ کئی عشروں سے اس ملک کو کبھی جمہوریت کے نام پر لوٹا گیا اور کبھی ڈکٹیٹرشپ نے جی بھر کے لوٹا
کبھی مزاروں کے نام پر لوٹا گیا اور کبھی لاشوں کی سیاست پر ،
عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا اوراس ملک کے عوام کوانکے حقوق دلانے کے لئے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا ،
25 اپریل 1996 کو پاکستان تحریک انصاف کا سنگ بنیاد رکھا گیا
شروع شروع میں اہل سیاست نے عمران خان کی جماعت پر توجہ نہ دی اور اپنی لوٹ مار میں مصروف رہے
عمران خان نے دیکھا کہ کئی عشروں سے دونوں پارٹیاں یعنی کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی یہ دونوں باری باری برسراقتدار آکر دونوں ہاتھوں سے عوام کی ٹیکس کی دی ہوئی امانت کو لوٹ مار کے ذریعہ اپنی تجوریوں کو بھر رہے ہیں ،
جب عمران خان نے میدان سیاسیت میں آکر ان دونوں پارٹیوں کو للکارا تو حسب عادت نواز شریف اور اسکے حواریوں نے عمران خان کی ذاتیات پر حملے شروع کر دیئے
اور عمران خان کی خاندانی زندگی کو تباہ کرنے کے درپے ہو گئے
کبھی اسکی بیوی جمائمہ خان پر اسمگلنگ کا الزام لگایا اور کبھی عمران خان کو یہودی لابی کا ایجنٹ قرار دیا گیا
حتکہ ایک وقت ایساآیا کہ عمران خان اور جمائمہ خان میں نہج طلاق تک پہنچ گئی ،
برطانوی قانون کے تحت بچے ماں کے پاس برطانیہ چلے گئے
یوں عمران خان اکیلے ہو گئے
اسکے بعد عمران خان نے اپنی بھرپور توجہ سیاست کی طرف مرکوز کر لی
وقت گزرتا گیا اور عمران خان میدان سیاست میں جمے رہے
پہلی بات 20 اکتوبر 2002ء کے قانون سازی اسمبلی کے انتخابات میں اس پارٹی کو 0.8 فیصد ووٹ ملے اور ان انتخابات میں کل 272 ممبران میں سے ایک ممبر تحریک انصاف کی طرف سے منتخب ہوا۔ اسی طرح صوبائی انتخابات میں صوبہ سرحد کی طرف سے تحریک انصاف کا ایک رکن منتخب ہوا۔
ایک وقت آیا کہ تحریک انصاف کو تانگہ پارٹی کے طعنے سننے پڑے او یہ حقیقت بھی تھی
لیکن مرد آہن عمران خان نے ہمت نہ ہاری
وہ وقت بھی تھا جب پارٹی میں سوائے عمران خان اوردو چار افراد کے کوئی بھی نہ تھا
پھر عمران خان نے عوام کو انکی طاقت کا اندازہ دلانے کے لئے بھر پور کوششیں کیں
ہر عوامی مسلے کو ہر فورم پراجاگر کنے کی کوشش کی
عافیہ صدیقی کی بازیابی ہو یا پھر بلوچستان میں گمشدہ افراد کا مسلہ فاٹا میں ڈرون حملے ہو یا پھر بیرونی جارحیت
عمران خان عام عوام کی آواز سے آواز ملا کر انکے ساتھ ہرشہر میں جا کر ساتھ دیتے رہے .
اسی دوران 2008 کے عام انتحابات ہوئے جس میں میں پاکستان تحریک انصاف نے حصہ نہیں لیا۔
کیونکہ نواز شریف نے الائنس بنایا کہ مشرف کے نیچے ہم انتخابات میں حصہ نہیں لینگے
لیکن وہی پرانی بددیانتی جو کہ نواز شریف کے رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے انتخابات کے بائیکاٹ کا کہہ کر خود جا الیکشن لڑا .
اور یوں اس الیکشن میں تحریک انصاف حصہ نے لے سکی ،
میڈیا چینلز کھلنے کے ساتھ ساتھ عوام تک عمران خان کی آواز پہنچتی گئی
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آزاد عدلیہ کی جدوجہد کی خاطر عمران خان کو کئی دن جیل کی قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں .
ڈرون حملوں پر عالمی توجہ مرکوز کروانے کی خاطر عمران خان نےوزیرستان تک امن مارچ کا انقعاد کیا اور دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کروانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی .
پھر 30 اکتوبر 2011 کا وہ دن آیا کہ جب عمران خان کی جدوجہد نے رنگ دکھانا شروع کیا
برسوں کی محنت کے بعد آخر کار تحریک انصاف کو ایک نئی زندگی ملی جب لاہور کے مینار پاکستان کے وسیع و عریض میدان میں لاکھوں لوگوں نے عمران خان کی آواز پر لبیک کہا ،
اور پھر اس جدوجہد کو ایسا عروج ملا کہ لاہور کے بعد اسی سال 25 دسمبر کو کراچی میں قائد اعظم کے مزار پر کراچی کا تاریخ ساز جلسہ ہوا جہاں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ عوام جاگ چکی ہے .
کوئئٹہ کا وہ شہر جہاں پاکستان کا جھنڈا لہرانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا وہاں پرعمران خان نے سخت ناگزیر حالات کے باوجود ایک کامیاب جلسہ کرکے ثابت کردیا کہ تحریک انصاف چاروں صوبوں کی جماعت ہے .،
پھر عمران خان نے ایک کام ایسا کیا جو کسی دوسری پارٹی نے کروانی کی جرات نہیں کی
یعنی انٹرا پارٹی الیکشن اور اس طریقہ سے ہر گلی محلے اور قصبہ سے عام پارٹی ورکر صوبائی اور ضلعی سطح پر لیڈر بن کر ابھرے .
آخر کار 2013 کے انتخابات سر پر ان پہنچے انتخابی مہم اپنے زوروں پر تھی
عمران خان نے ایک ایک دن میں کئی کئی جلسے کرکے ریکارڈ قائم کیے
ہر شہر ہر قصبہ میں عمران خان کو بھرپور پزیرائی ملی ،
اسے بدقمستی کہیئے یا سازش کہ الیکشن سے دو روزقبل عمران خان لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لئے جیسے ہی لفٹر کے ذریعے سٹیج پر چڑھ رہے تھے کہ اپنا بیلنس قابو نہ رکھ سکے اور نیچے گر کر شدید زخمی ہوگیے
جس کے بعد انکو شوکت خانم ہسپتال لایا گیا
شدید زخمی حالت میں بھی عمران خان کی زبان پر پاکستان کا نام تھا ،
یوں تحریک انصاف کی الیکشن کمپین کو بریک لگ گئی
ہوش میں آنے کے بعد آخری جلسہ جو کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں تھا سے عمران خان نے ہسپتال سے براہ راست عوام الناس سے خطاب کیا
اور عوام کو سمجھایا کہ سوچ سمجھ کر اپنے حق رائے دہی کا استمعال کرنا
ورنہ اگل پانچ سال میں تے برداشت کر لوں گا لیکن تم نہیں سہہ پاو گے.
خیر الیکشن ہوا اور خوب ہوا
وہ اپر کلاس طبقہ وہ سول سوسائیٹی جو کبھی الیکشن کے دن باہر نہیں نکلے تھے اور نہ ہی انکو ضرورت پیش آئی تھی ووٹ دینے کی
عمران خان کی تعلیمات کا اثر تھا کہ عوام الناس کی کثیر تعداد نے اپنے ووٹ کا حق استمعال کیا ،
لیکن اس ملک کے اس دور کے چیف جسٹس اور اسٹیلشمنٹ کو کچھ اور ہی منظور تھا
آر اوز کی مدد سے سارا الیکشن ہائی جیک کر لیا گیا ،
جیو اور جنگ گروپ کی مدد سے رات گیارہ بجے ہی نواز شریف نے اپنی جیت کا اعلان کر دیا جوکہ کسی طرح بھی قانون کے مطابق نہیں تھا ،
عمران خان نے ہسپتال سے صحت یاب ہونے کے بعد اسمبلی میں پہلے خطاب میں کہا کہ ہم نے الیکشن کو تسلیم کیا ہے لیکن دھاندلی کو نہیں ،
اس سب کچھ ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو ایک کروڑ کے لگ بھگ ووٹ حاصل ہوئے اور خیبر پختون خواہ میں واضح برتری کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع ملا ،
اسی دوران عمران خان نے دھاندلی کے خلاف اعلی عدالتوں میں جانے کا فیصلہ کیا لیکن بے سود
وہ عدالتیں جو پہلے ہی نواز شریف کی جیب میں تھیں ان سے انصاف ملنا تو دور کی بات عمران خان پر توہین عدالت کا کیس کر دیا گیا ،
وقت گزرتا گیا ایک سال ہو گیا لیکن عمران خان کو انصاف نہ ہی ملنا تھا اور نہ ہی ملا ،
آخر کار عمران خان نے عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ کر لیا
یعنی کہ لاہور سے اسلام آباد تک عوام کا لانگ مارچ ،
لاہور سے قافلہ چلا اور کئی دن بعد جا کر اسلام آباد پہنچا
راستے میں نون لیگیوں نے اپنے وہی پرانے اوچھے ہتھکنڈے آزمائے
کہیں کنٹینر لگا کر راستے بند کیے گئے
اور کہیں پر ہیلی کاپٹروں سے کیلیں سڑکوں پر پھنکوائیگئیں ،
خیر یہ قافلہ اسلام آباد پہنچا اور عمران خان کے کنٹینر کا پڑاؤ ایوان اقتدار کے سامنے ٹھہرا .
عمران خان کا مطالبہ تھا کہ صرف چار حلقوں کا آڈٹ کروایا جاۓ اس پر سارے الیکشن کا کچہ چٹھا کھل جاۓ گا
بھیگتی بارشیں طوفان اور برسات بھی کارکنوں کے جذبات کوشکست نہ دے سکی ،
دوسری طرف علامہ طاہر القادری کا دھرنا بھی وہاں براجمان تھا ،
ایک دن چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے عمران خان کو ملاقات کے لئے GHQ بلایا اور درخواست کی کہ دھرنا ختم کیا جاۓ
لیکن عمران خان نے نواز شریف کے استعفی سے کم کسی بات پر اکتفا نہیں کیا .
پھر ایک ایسا وقت آیا کہ پرامن مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کئی کارکنان زخمی اور شہید بھی ہوئے
دونونو جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے قائدین کے لئے ڈھال بن گئے
عمران خان کا کنٹینر شیلوں کے دھوئیں سے بھر گیا سانس لینا محال ہو گیا .
لیکنں عزم اور یقین کا قافلہ ڈٹا رہا
یہ دنیا کا طویل ترین دھرنا تھا جوکہ126 دنوں پر محیط تھا ،
پھر 26 دسمبر کا وہ خون آشام دن جب آرمی پبلک سکول میں ڈیڑھ سوسے زائد طلباء اور اساتزہ کو شہید کر دیا گیا .
اس افسوسناک واقعہ کی خبر ملنے پر عمران خان نےدھرنا ختم کرنے کااعلان کیا ،
اس سانحہ کے بعد ایک جوڈیشل کمشن تشکیل پایا گیا
جو کہ ریٹائر ججوں پر مشتمل تھا
لاہور سے خواجہ سعد رفیق کے حلقہ میں ہونے والے الیکشن کو کلعدم قرار دے دیا گیا
لیکن وہی پرانے کرتوت کہ خواجہ صاحب سٹے آرڈر کے پیچھے جا چھپے
اسکے بعد سردار ایاز صادق کے حلقے میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا گیا
جس الیکشن میں علیم خان کو ایاز صادق کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا
جنہوں نے حکومتی مشنری اور سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا
لیکن ووٹوں کی ہیر پھیر اور حلقہ بندیوں کے سامنے انکا بس نہ چل سکا اور یوں وہ الیکشن ہار گئے .
اسکے بعد لودھراں میں پروفیسر صدیق بلوچ صاحب کی ڈگری جعلی نکل آئی وہاں پر دوبارہ الیکشن کا حکم دیا گیا جسے جہانگیر خان ترین نے واضح برتری کے ساتھ جیت لیا .
سیالکوٹ سے خواجہ آصف کے حلقہ کا ابھی تک کچھ بھی نہیں ہو سکا .
لاہور کے دو اور لودھراں کے ایک حلقے کا آڈٹ ہونے پر عوام کے سامنے سب کچھ کھل کر واضح ہو چکا ہے کہ 2013 کا سارا الیکشن ایک ڈرامہ تھا اور تاریخی دھاندلی تھی ،
نواز شریف کو اخلاقی طور پر مستعفی ہو جانا چاہیئے تھا
لیکن وہ نواز شریف ہی کیا جو عزت سے استعفی دے ،
اور آخر کار خدا کو شاید اس قوم پر ترس اہی گیا کہ پانامہ لیکس میں نواز شریف کےخاندان کے افراد کا نام آگیا کہ کس طرح انہوں نے پاکستان کے عوام کا پیسہ لوٹ کر بیرون ممالک منی لانڈرنگ کے ذریعہ منتقل کیا اور وہاں اپنے کاروبار جمائے ،
عمران خان ایک بات بہت زیادہ دہرایا کرتے ہیں کہ
اللہ الحق ہے اور وہ سب سے بڑا منصف ہے اور اللہ نے عوام کی آنکھوں ایک سامنے سے پردے ہٹا دیئے جب نواز شریف کا نام دنیا بھر کے زرائع ابلاغ میں ایک چور اور لٹیرے کےطور پر پہلے صفحات پر چھاپا گیا .
دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی جن افراد کا نام اس پانامہ لیکس میں آیا انکو عوامی دباؤ پر استعفی پڑا
آئس لینڈ کے وزیر اعظم ہوں یا یوکرائن کے وزیر اعظم یا پھر ازبکستان کے وزیر اعظم اور بہت سے ممالک کے وزراء اس پانامہ لیکس کا شکار ہو چکے ہیں .
لیکن ایک نواز شریف صاحب ہیں کہ جونک کی طرح اقتدار کو چمٹے ہوئے ہیں .
کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزمات تو پانامہ لیکس نے لگائے ہیں لیکن نواز شریف اور اسکے حواری گالیاں عمران خان کو دیتے ہیں اور شوکت خانم ہسپتال جیسے فقید المثال ادارے پر قدغن لگانے کی کوشش کرتے ہیں ،
بہرحال یہ پاکستان کی عوام کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ حق اور باطل کی پہچان کریں ،
تو دوستو ان آخری تین سال میں تحریک انصاف کی خیبر پختون خواہ حکومت نے اپنے صوبے میں جہاں انکی حکومت ہے وہاں بہت سے بے مثال کام کیے جنکی مثال دوسرے صوبوں میں نہیں ملتی .،
جیسے خیبر پختون خواہ میں پولیس کو غیر سیاسی کر دیا گیا
صحت اور تعلیم کے شعبے میں ایمرجنسی نافظ کی گئی .
رائٹ ٹو انفارمیشن کا عوامی قانون بنایا گیا .
کرپشن کے انسداد کے لئے نیب کے ادارے کو آزاد کیا گیا
اسکے علاوہ عوامی فلاح و بہبود کے کئی فقید الممثال کام کیے گئے جنکی مثال آپکو دوسرے صوبوں میں گزشتہ چالیس سال میں بھی نہیں مل سکتی .
تو دوستو یہ تھی تحریک انصاف اور عمران خان کی گزشتہ بیس سال کی چیدہ چیدہ کہانی ،
تحریک انصاف اس وقت بھی اپنی تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے
اس وقت بھی تحریک انصاف کو اندرونی اختلافات کا سامنا ہے
پارٹی کے اندر دھڑے بندیاں ہیں اور سینیر رہنماؤں کے آپس میں اختلافات ہیں .
بہرحال تحریک انصاف جو ایک وقت میں صرف ایک تانگہ پارٹی ہوا کرتی تھی
عمران خان کی محنت اسکی شجاعت اورولولہ انگیز قیادت کی وجہ سے آج ایک کروڑ ووٹ کی مالک اور ایک صوبہ پر حکومت رکھتی ہے .
اور آنے والے وقتوں میں تحریک انصاف پورے پاکستان پر خیبر پختون خواہ کی طرز اپر حکومت بنا سکتی ہے
لیکن اس کے لئے ہمیں آپ سب کومل کر عمران خان ایک ہاتھ مضبوط کرنے ہونگے
کیونکہ تحریک انصاف صرف عمران خان کی ہی نہیں
ہماری پارٹی ہے
تحریک انصاف کا منشور یہ ہے کہ قوم کی عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسا منصف معاشرہ تشکیل دیا جاۓ کہ جس کی بنیاد میں انسانی اقدار شامل ہوں۔
تحریک انصاف حقیقی اقتدار اور لوگوں کو ان کی مرضی کے سیاسی اور معاشی مقاصد کو معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی اقدار کے مطابق چننے کا اصل حق دے گی۔
ہم ایک ایسی تحریک کے داعی ہیں جس کا مقصد انصاف پر مبنی آزاد معاشرہ ہو۔
ہم جانتے ہیں کہ قومی نشاۃ ثانیہ تبھی جنم لے سکتی ہے اگر لوگ حقیقی معنوں میں آزاد ہوں۔
پاکستان تحریک انصاف لوگوں سے خلوص نیت سے رابطہ کرتی ہے اور اسے تاریخی حقائق کا علم بھی ہے.
اور اسے ہم نے ایک عظیم الشان ادارہ بنانا ہے کہ جو دنیا کے سامنے ایک مثال ہو ،
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
،.،

Back to top button