نثر

ربیعہ کنول کی خوبصورت تحریر ” سرکار "

شاہ ہوں یا شاہوں کے شاہ… سرکار۔۔۔ تو ہر جگہ ہی ان رہے ہیں
آج ہماری بات ہوئی خوشبو والی سرکار سے ہوئی۔۔
جو ہر جگہ اپنا سکہ اونچا رکهتے ہیں کبھی بزرگ بن کر دعائیں دیتے ہیں کبھی خالہ خیرن کی طرح طعنے دے کر سیاست، معاشرت اور مذہب کو لتاڑ دیتے ہیں ۔۔۔
کسی حکومتی پوسٹ پر خوشبو والی سرکار نے بینڈ بجا دیا، ہم نے بھی ازراہ تفنن ماچس کہا تو سیخ پا ہوگئے اور حلوے والی سرکار “ف” کی طرح بولے۔۔۔ آئین کے تناظر میں ہم بھلے ہیں، حکومت بنانے والوں میں سے ہیں، آگ لگانے والوں میں سے نہیں۔۔
معاملہ سیریس ہوتا دکھائی دیا تو ہم نے مٹی کا تیل کہہ ڈالا، جو آگ پر چهڑکو تو خوب بھڑکتا ہے۔۔جیسے محترم ناراض ہوگئے تھے۔۔
لیکن حضرت ایسا سُن کر خوش ہو گئے اور لگے مٹی کے تیل کی خوشبو کے گُن گانے۔۔۔
سو ہو ئے نا خوشبو والی سرکار…
اورنج، گرین یا میٹرو ابھی کوئی بس نہیں ہوئی۔۔
ہمارے ہاں حکمرانوں کی کهنچائی کرنی ہوتو انہیں سرکار ہی کہتے ہیں۔۔۔
مودی سرکار کے بارے میں سنا ہے… برابر والے ملک میں ہوتے ہیں، پہلے وہ چائے والی سرکار تھے آج کل پوری دنیا کو چائے پلا رہے ہیں۔
مذاکرات کانام لو تو طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں ورنہ راتوں رات دوست کی بیٹی کی شادی میں آ دھمکتے ہیں، کوئی اقتصادی، یا ملکی معاہدے نہیں… بس یاری ۔۔۔
ویسے تو جمہوریت نے ملک کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچایا اور ہمیشہ ہی بوٹوں تلے خوش رہے اور اسی میں چھید کیا تو اسی سے شروع کیے لیتے ہیں
ملک میں ہمارے مارشل لا لگے ۔۔۔ کوڑے، ڈنڈے جوتے برسیں گولی چلے تو ۔۔ لاٹھی گولی کی سرکار۔۔۔
تھر میں بھوک پیاس ننگ ترنگ بے چھت و آبرو سیکڑوں مرجائیں انسان ہوں یا جانور… نہ بلاول کے سر پر جوں رینگے نا قدیم علی شاہ کے۔۔۔
بلکہ قدیم علی شاہ تو ہر وقت ہی سب اچها ہے کہ گن گاتے ہیں اسمبلی ہو سیشن یا کوئی تہوار ۔۔۔چین کی بانسریا بجاتے اور سوتے ہی ملتے ہیں ۔۔۔ اور ان کی سندھ سرکار ٹُن۔۔ ہمیشہ ہی ٹُن، گزشتہ دنوں ایک صحافی نے بھنگ / ٹن سرکار کو جگانے کےلیےسندھ اسمبلی میں اسلحے کے ساتھ اسٹنگ آپریشن کیا، تو بجائے غلطی مانے اور سیکورٹی فراہم کرنے۔۔۔ اتنے گرجے برسے کہ صحافی کو پیشہ وارانہ ذمہ داری کے بدلے جیل کی ہوا کھانی پڑگئی
یہ ہیں بھنگ سرکار۔۔۔
بلاول بھٹو زرداری۔۔۔جسے اپنے خاندان کا نہیں پتا، عوام اور ان کے مسائل کا نہیں پتا، اردو بولنی نہیں آتی، سمجھ نہیں آتی۔۔۔ تقریر کرنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔
ان کی طرح عمران خان کو بھی نہ عوام نظر آتے ہیں نہ مسائل۔۔۔
نظر آتے ہیں تو صرف میاں صیب۔۔۔
کرکٹ کے میدان میں مشہور ہوئے تو اسپتال بنا لیے، فلاحی کام میں بھی شہرت پائی، شادی کی تو بھی شہرت ملی طلاق پر بھی، سیاست کے میدان میں 20 سال سے ہیں لیکن شہرت نہ ملی سو… پکڑی مرغی کی ٹانگ اور کود گئے میدان میں
میاں صیب میاں صیب
ٹھنڈے کنٹینر میں بیٹھے ہوں، سڑک پر ہوں اسمبلی میں ہوں ملک میں ہوں یا ملک سے باہر۔۔ بس میاں صیب
اگر ان کی حکومت آئی تو ہر کوئی نسوار منہ میں دبائے میاں صیب کو للکارتا ہی نظر آئےگا کام تو انہوں نے بھی کچھ نہیں کرنا، سوائے نسوار دبانے اور دبوانے کے
بلوچستان سرکار تو الگ ہی ہے… جہاں پاکستان حکومت کیا، پاکستان کو مانا ہی نہیں جاتا… پھر وسائل کا رونا خواہ مخواہ کا… گویا کہ نہ کهائیں گے نہ کهانے دیں گے… ضائع کردیں گے… یہ ہیں قبائلیوں کی سرکار…
میاں صیب کی حکومت ہے تو چٹ بھی میری پٹ بھی میری …نہ کرپشن کا جواب دیں گے نا پاناما کا، نہ بجلی دیں گے نہ پانی … الزامات کا جواب بھی الزامات سے دیں گے…
ان کو اگر الزامات والی سرکار کہیں تو کیا ۔۔۔
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو تو کوئی کهاتے میں لاتا ہی نہیں…وہاں نام حکومت کا ہے اور سرکار کسی اور کی… تو انہیں تو رہنے ہی دیجئیے…
ارے ارے ایک سرکار تو رہ ہی گئی… پان والی گٹکے والی سرکار… زبان پر تالا بندی ہے آج کل… کچه نہ کہیو اب…

Back to top button