خالد ندیم شانی کا افسانہ ” کنجری کہیں کی "
افسانہ
کنجری کہیں کی
خالد ندیم شانی
صبح ہی سے مطلع ابر آلود تھا … کام پہ نکلنے کے لیے اس کا من نہیں چاہ رہا تھا . . .مگر گھر کے سناٹے اور اپنے اکلاپے دونوں سے دوری میں اسے سکون ملتا تھا … اسی لیے وہ دل کڑا کر کے گھر سے نکل آئی
چھبیس سال سے اس کا یہی معمول تھا .. وہ اپنے گاؤں سے کسی دوسرے گاؤں کو بھیک مانگنے نکلتی تھی
ان سالوں میں دنیا نامی مکوڑے کو پر لگتے اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے … سب کچھ اتنی تیزی سے بدلا تھا کہ اسے بعض اوقات اپنی حیرت پر بھی حیرت ہوتی تھی
بچپن میں بابا اسے کاکی بلاتا تھا سو ہر جاننے والے پر لازم ٹھہرا کہ وہ اسے کاکی بلائے … رفتہ رفتہ وہ یہ بھی بھول گئی کہ اس کا اصل نام زیب النساء ہے
اس گاؤں میں مستقل سکونت اختیار کرنے سے پہلے کاکی کا خاندان ایک خانہ بدوش قبیلے کا حصہ تھا .. کاکی کے والد نے اپنے کچھ رشتہ داروں اور قبیلے کے کچھ دوستوں سے مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ اب انھیں کہیں مستقل ٹھکانہ کر لینا چاہیئے یہ سب باتیں کاکی کی پیدائش سے پہلے کی تھیں … یہاں سکونت اختیار کرنے کے بعد خاندان کے مردوں نے مزدوری اور عورتوں نے مٹی کے کھلونے بنا کر گھر گھر بیچنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ جھگی سے کرائے کے مکان اور کرائے کے مکان سے اپنے کچے مکانوں تک کا سفر آغاز ہوا
کاکی کی پیدائش اپنے کچے گھر میں ہوئی تو خاندان بھر میں خوشی منائی گئی کیوں کہ وہ اپنے بابا کی شادی کے دسویں سال پہلی اولاد تھی
خانہ بدوش قبائل کے نین نقش تقریبا” ایک جیسے ہوتے ہیں … آنکھوں کو سوا ان کے سبھی اعضاء موٹے ہوتے ہیں … ناک , کان , ہونٹ , گردن اور ہاتھ پاؤں … اور رنگ سبھی کا کالا … مگر کاکی قبیلے کی رات میں چاند کی طرح اتری تھی اور اس کی آنکھوں کے سوا کچھ موٹا نہ تھا … یوں لگتا تھا جیسے بنائی نہ گئی ہو تراشی گئی ہو
عمر کے اٹھارویں سال اپنے چچا زاد نور محمد سے بیاہی گئی…. وہ غلہ منڈی پر مزدوری کرنے والا کڑیل جوان تھا . . . اس کی پندرہ سالہ رفاقت کاکی کی زندگی کا حاصل تھی اس رفاقت کا ہر دن عید تھا , ہر رات شب برات… مگر ایک رات وہ سویا تو صبح نہیں اٹھا . . . معلوم نہیں کیوں
نور محمد پانچ بیٹیوں کا ہمالیہ کاکی کے کاندھے پر رکھ کر روانہ ہوا تو زندگی کا سر حالات کی چکی میں آ گیا . . . کوئی کب تک دیتا . . . آخر کاکی کو گھر سے نکل کر حالات کے مقابل آنا پڑا .
پہلے پہل اس نے لوگوں کے گھروں میں کام تلاشا. . . مگر ایسی خوبصورت عورت کو کوئی عورت گھر پر ملازم رکھنے کو تیار نہ ہوئی . . .
آخر کار وہ بھیک مانگنے کے لیے گھر سے نکلی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ دنیا اپنا دھن اس کی ہتھیلی پہ رکھنے کو بیتاب کھڑی تھی مگر اس کے عوض دنیا . . . دعا کی نہیں. . . دوا کی طالب تھی … تب اس پہ کھلا کہ دنیا کے بازار میں کرنسی نوٹوں کی طرح عورت کا بدن بھی چلتا ہے
شروع شروع میں اسے اپنے آپ سے گھن آئی مگر پھر پانچ بیٹیوں کا ہمالیہ سر کرنے کے لیےاس نے اپنا کام عبادت سمجھ کر کیا . . .
عمر ڈھلتی گئی تو آمدن برائے نام رہ گئی مگر وہ ” بھلے ” دنوں میں اتنا جوڑ چکی تھی کہ
پانچوں بیٹیوں کی شادی کر دی
آج اس کی سوچ کا انجن ماضی کے اسٹیشنوں کی طرف رواں دواں تھا . . . وہ گاؤں کی گلیوں میں بھیک مانگے بغیر بس گھومے جا رہی تھی . . . بابا, اماں, بچپن, جوانی . . نور محمد اور اس کے بعد چھبیس سالہ تلخابہ سوچ سے نکل کر اس کی دھڑکن میں سماتا جا رہا تھا … سانس آری بنتی جا رہی تھی اور جسم انگارہ ..
اسے یاد آیا جب ایک دن اس نے اماں سے کہا تھا ” اماں میں نے جیون کا سارا ننگا پن دیکھ لیا ہے … مجھے بتا دے . . . تیری کوکھ میں کاکی نامی قطرہ کس کی ہوس نے ٹپکایا تھا”
بادل زور سے گرجا . . . وہ آسمان کو دیکھ کر خود سے بولی ” آج تو بادل میرے نصیب سے بھی زیادہ کالے ہیں … رب خیر کرے ”
شام ہونے کو تھی اس نے خود کو سمیٹا اور واپسی کے راستے پہ ہو لی …
سڑک تک وہ مشکل سے پہنچی اس کا جسم تپ رہا تھا اور سانس دھوکنی کی طرح چل رہی تھی
اسے لگا جیسے وہ اب تب میں گر پڑے گی
بادل ایک بار پھر گرجا اور ٹوٹ کے برسنے لگا .. بارش کے قطرے جسم سے ٹکرائے تو ایسے لگا جیسے کوئی اسے پتھر مار رہا ہے
سڑک کی دوسری سمت یونین کونسل کا آفس تھا .. برامدے میں کھڑے نوجوان نے اس کی حالت دیکھی تو آگے بڑھا اور چار دیواری کا چھوٹا گیٹ کھول کر اسے پکارا … ” اماں اندر آجاؤ سردی میں مر جاؤ گی ”
کاکی نے اس کی بات سنی اور ادھر جانے کے لیے قدم اٹھایا لیکن ٹانگوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ گندم کی بوری کی طرح لڑھک گئی
نوجوان دوڑ کر باہر آیا اور اسے اٹھا کر اندر لے جا کر کمرے کے کونے میں لگے بستر پر لٹا دیا . . .
لحاف اور کمرے کی گرمی میں اس کا دم مزید گھٹنے لگا … دماغ نے مزید کچھ سوچنے سے انکار کر دیا اور وہ بے ہوش ہو گئی.
رات کا جانے کونسا پہر تھا اسے لگا جیسے کوئی اسے جھنجوڑ رہا ہے اس نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو دیکھا. . . اسے ماں کہہ کر پکارنے والا اس کی دھجیاں بکھیرنے کے لیے اس پر سوار ہے . . . اس نے اپنا نحیف ہاتھ اسے روکنے کے لیے اٹھانا چاہا مگر شیطان نے ہاتھ جھٹک کے اس کے کان میں سرگوشی کی ” مجھے پتا ہے تو سارے جہان سے دو سو لیتی ہے میں تجھے تین سو دوں گا … آرام سے لیٹی رہ ”
کاکی نے اپنی زندگی کے سارے دردوں کو دو لفطوں میں سمیٹا اور چھت کی طرف دیکھتے ہوئے التجا کی …
” اللہ …. موت ”
مگر زندگی کے باقی ماندہ لمحوں نے کسی اور زندگی کا تریاق بننا تھا
اس کی آنکھ اسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں کھلی جہاں کچھ لوگ اس پر جھکے اسے موت سے چھیننے کی کوشش کر رہے تھے مگر کاکی جانتی تھی اب یہ ممکن نہیں … اس نے پاس کھڑی ڈاکٹر کا ہاتھ تھاما اور اسے کہا میری بات سنو … ڈاکٹر جھکی اور اپنا کان اس کے ہونٹوں کے پاس لے آئی … کاکی نے جیسے ہی اپنی بات مکمل کی زندگی کا دھاگہ ٹوٹ گیا …. ڈاکٹر کچھ لمحے تو ساکت کھڑی اس کے بے جان جسم کو دیکھتی رہی پھر زار و قطار روتے ہوئے ایمر جنسی وارڈ سے باہر بھاگ گئی
******
ڈاکٹر ہاشم علی خان جو اس ہاسپٹل کے ایم ایس تھے تیز قدموں سے چلتے ہوئے ایمر جنسی کی سمت جا رہے تھے … انھیں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر نائلہ ایمر جنسی وارڈ میں ایک بڑھیا کی وفات پر روتے ہوئے بھاگ گئی ہیں … راستے میں ہی انھیں وارڈ بوائے نے بتا دیا کہ ڈاکٹر صاحبہ اپنے آفس میں ہیں
وہ کمرے میں داخل ہوئے تو دو نرسیں ڈاکٹر نائلہ کو چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن وہ مسلسل روئے جا رہی تھیں
ًڈاکٹر ہاشم میز کی دوسری سمت موجود کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھتے ہوئے کرخت لہجے میں بولا… ” ڈاکٹر نائلہ ہاسپیٹل میں روز ہی کوئی نہ کوئی مریض مر جاتا ہے … پہلے تو کبھی تم میں یہ بچپنا دکھائی نہیں دیا …. تعفن میں لپٹی اس بڑھیا کی لاش میں کیا خاص بات تھی جس نے تمھیں رونے پر مجبور کر دیا ”
ڈاکٹر نائلہ نے روتے روتے سر اٹھایا اور کہا ” ڈاکٹر ہاشم اس تعفن زدہ بڑھیا کا ساٹھ سال کی عمر میں ریپ ہوا ہے … مرنے سے پہلے اس نے مجھ سے دو سوال پوچھے … جن کا جواب تو میرے پاس نہیں تھا مگر ان سوالوں نے میری روح میں شگاف کر دیا ہے ….ڈاکٹر نائلہ روتے روتے بول رہی تھی اور بولتے بولتے رو رہی تھی اس کی آواز اب بلند ہونا شروع ہو گئی تھی . . . اس نے مجھ سے پوچھا ” ڈاکٹر پتر دنیا نے بہت ترقی کر لی … اس ترقی کا عورت کو کیا فائدہ ہوا …. اور پھر اس کے آخری الفاظ …. بیٹا … دنیا ساری بدل گئی ہے …جب سب کچھ بدل گیا ہے تو یہ مرد کیوں نہیں بدلتا ….
ڈاکٹر نائلہ کی سسکیوں میں اضافہ ہوتا گیا …
” ڈاکٹر ہاشم. . . وزٹ کے دوران جب میں کسی مریض کی کیس ہسٹری دیکھ رہی ہوتی ہوں تو تم اس فائل پر جھکنے کے بہانے اپنی ران میری ران سے لگا دیتے ہو … اور میں تمھاری خباثت کو پہچانتے ہوئے بھی چپ رہنے پر مجبور ہوں ….. میرے ہاتھوں سے کچھ بھی پکڑتے ہوئے تمھاری انگلیوں کی پوروں پر تمھارے ہونٹ اگ آتے ہیں … اور حد تو یہ ہے ڈاکٹر ہاشم کہ آپریشن تھیٹر میں آپریشن کے دوران تم میرے سینے میں کہنی چھبونے کے بہانے ڈھونڈتے ہو …
سسکیاں چیخوں میں بدلتی جا رہی تھیں … ” ڈاکٹر ہاشم….. میں تمھاری بیٹیوں کی عمر کی ہوں اور تم میرے بدن سے لطف کشید کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے … کیوں … آخر کیوں ….
ڈاکٹر نائلہ چیختے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی ….
میز پر ڈاکٹر ہاشم اپنی خباثت کے آئینے کے روبرو بیٹھا تھا …
ایسا لمحہ ایسے مرد کی زندگی میں جب بھی آیا وہ کچھ لمحے ساکت رہتا ہے … ہاں ہاں کچھ لمحے
ان لمحوں میں اس کے دل میں دفن شرم و حیا کے تابوتوں میں معمولی سی چرچراہٹ ہوتی ہے. . . مگر مردانہ معاشرے کی عطا کردہ حیثیت نے اسے جو طاقت, آزادی , مان , سمان اور مرتبہ دیا ہے وہ سب مل کر اس کے غرور کے ایکسلیریٹر پر پاؤں رکھ دیتے ہیں اور اگلے ہی لمحے اس کا تاسف بھاپ بن کر غصے کی جھاگ اڑانے لگتا ہے … اور ان چھینٹوں کی زد میں کوئی بھی , کچھ بھی آ سکتا ہے
ڈاکٹر ہاشم نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پین کا ایک سرا میز پر رکھا اور درمیان میں انگوٹھے کا دباؤ ڈال کر پین کو دو ٹکڑے کر دیا ….
اٹھتے ہوئے غصے کی جھاگ اس کے ہونٹوں سے بڑبڑاہٹ بن کر بہہ نکلی ….
” اس کتیا کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا …… کنجری کہیں کی