کالم

جنابِ چیف جسٹس . نفاذِِ اردو بار اور بنچ کی انگریزی پر کمزور گرفت کا معاملہ نہیں آئینی تقاضا ہے .

حدِ ادب
انوار حسین حقی
جناب منصفِ اعلیٰ ۔۔اردو کا نفاذ آئینی تقاضا ہے
________________
پاکستانی قوم کے بے بصیرت حکمرانوں اور سیاستدانوں کی وجہ سے سماج میں نواؤں کی خشک سالی اور صداؤں کا قحظ ہے لیکن بعض اوقات حُب الوطنی اور اپنی ہی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھنے کا ایسا درس سامنے آتا ہے کہ سرزمینِ پاک سے محبت کی سُرخ گلابوں جیسی آگ کی حدت محسوس ہوتی ہے ۔ اسکاٹ لینڈ سے موصول ہونے والی یہ خبر سرشار اور شرابور جذبوں کی خوشبو سے مہکتی ہوئی دکھائی دی کہ ’’ پاکستانی نژاد رکنِ پارلمنٹ حمزہ یوسف نے اردو میں اپنی وزارت کا حلف اُٹھایا ۔ اسکاٹس نیشنل پارٹی ( ایس این پی ) سے تعلق رکھنے والے حمزہ یوسف کو یورپ اینڈ انٹر نیشنل ڈیویلپمنٹ کی وزارت دی گئی ۔وہ 2011 ء سے رکنِ پارلمنٹ ہیں ۔انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اُردو زبان میں اُٹھا کر پاکستانی ثقافت کو نہ صرف زندہ کر دیا ہے بلکہ پاکستان اور اُس کی قومی زبان سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار بھی کیا ہے ۔ حلف برداری کی تقریب کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ’’اُردو میں حلف اس لیئے لیا کہ پاکستانی مجھ پر فخر کریں ۔ میں جتنا سکاٹش ہوں اُتنا ہی پاکستانی بھی ہوں ۔ میرا اردو میں حلف لینے کا ایک مقصد یہ ہے کہ میں اپنی جیت کو پاکستان کے نام کروں ‘‘۔۔۔۔۔
اس مسحور کن خبر سے کچھ ہی دن پہلے پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعلیٰ جناب انور ظہیر جمالی نے کراچی میں نیشنل راؤنڈ ٹیبل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ عدالتی نظام میں اردو زبان نافذ کرنے کی فوری ضرورت ہے ‘‘منصفِ اعلیٰ پاکستان نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ بعض ججز اور وکلاء انگریزی زبان سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے ۔ ‘‘
جنابِ منصفِ اعلیٰ کے مذکورہ ارشادات نے یادداشت کے شہر میں ایک طوفان برپا کر تے ہوئے 18 ۔ اگست2015 ء کا وہ منظر یاد دلا دیا جب
منصف جوادایس خواجہ منصفِ اعلی کا منصب سنبھالتے وقت قومی زبان اردو میں حلف اُٹھا تے نظر آئے ۔ اس تقریب کا اپنا ہی سرور تھا ۔ یہ ایک یاد گار منظر تھا جو ماضی کے دھندلکوں میں گُم ہونے کی بجائے اَ مرہونے کا سندیسہ بن رہا تھا ۔۔۔پھر وقت اپنی رفتار سے گذرتا رہا ۔۔۔۔ گنے چُنے بائیس دن گذر گئے ۔ مگر ایسے گذرے کے کھبی بھولنے نہیں پائیں گے ۔۔۔۔۔
منصفِ اعلیٰ جواد ایس خواجہ نے 8 ستمبر 2015 ء کو قومی کلینڈر(تقویم ) کا ایک یادگار دن بنادیا ۔کوکب اقبال ایڈو کیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی تفصیلی سماعت کے بعد منصفِ اعلیٰ کی سربراہی میں منصف فائز عیسیٰ اورمنصف دوست محمد خان پر مشتمل عدالتِ عطمیٰ کے تین رکنی بنچ نے قومی زبان اردو کوبطور سرکاری اور دفتری زبان نافذ کرنے کا حکم صادر فرماتے ہوئے قومی اور صوبائی حکومتوں کو آئین کی دفعہ251 کے مکمل نفاذ کو یقینی بنانے کے لےئے ہدایات بھی جاری کی تھیں ۔ اس فیصلے کا سب سے موئثر نکتہ یہ تھا مقابلے کے امتحانات سمیت تمام امتحان اُردو زبان میں منعقد کرنے کی عدالتی ہدایت جاری کی گئی تھیں۔
اُس وقت قوم کے تمام طبقات کی جانب سے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے اس فئصلے کے دُور رس نتائج برآمد ہوں گے ۔ تعلیمی نصاب کو اردو زبان میں واپس لانے کی راہ ہموار ہو گی ۔ لیکن عدالتِ عظمی نے آئینی تقاضے کی تکمیل کے لیئے جو فیصلہ دیا تھا وہ ماضی کی کہانی بنتا نظر آتا ہے ۔ مذکورہ فیصلے پر اُس کی روح کے مطابق عمل درآمد تو کیا ہونا تھا قوم کے کسی طبقے کی جانب سے اس جانب موئثر قدم اُٹھانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی ۔
منصفِ اعلیٰ جناب انور ظہر جمالی نے عدالتی نظام کو اُردو میں ڈھالنے کا جو جواز پیش کیا ہے وہ نظرِ ثانی کا متقاضی ہے۔اُن کی خدمت ہیں عرض ہے کہ 1973 ء کے آئین کی رُو سے نفاذِ اردو کے لئے پندرہ سال کا عرصہ مقرر کیا گیا تھا لیکن گذشتہ 42 سال کے عرصہ میں اس حوالے سے جس قدر پیش رفت ہوئی تھی وہ ہم سب کے سامنے ہے اور اس صورتحال پر وطنِ عزیز کے سنجیدہ اور فہمیدہ حلقے اپنے ضمیر سے پوچھتے رہے کہ قومی زبان کی نفاذ و ترویج کا وہ مسئلہ جس پر حال کی تعمیر اور مستقبل کی ترقی کی بنیادیں اُستوار ہیں ہماری مناسب توجہ حاصل کیوں نہیں کر سکا ۔ ایک روشن نصب العین کے باوصف اپنی قومی زبان کو وہ مقام کیوں نہیں دلا سکے جو کسی آزاد قوم کا طرہ امتیاز ہے ۔
محسنِ اردومنصف جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالتِ عالیہ کے بنچ کا فیصلہ ہمارے قومی تشخص کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اردو کی ہمہ گیر وسعت و عظمت میں کسی کو کلام نہیں یہ زبان ہمارے اجتماعی تشخص کا نشانِ امتیاز ہے ۔تحریکِ پاکستان کے دوران یہی زبان مہمیز کا کام دیتی رہی اور قوم کی صفوں میں اتحاد کی روح پھونکتی رہی ۔انہی بنیادوں پر اُردو کو نظریہ پاکستان کی داعی اور مفسر کہا جاتا ہے ۔مختلف علاقوں کے لوگوں میں فکری ربط و ضبط کے علاوہ وسیلہ ابلاغ یہی زبان ہے۔اس آگہی کے باوجود قومی زبان اردو کو دفتری اور سرکاری زبان بنانے کے معاملے میں ہم بحیثیتِ قوم مجرمانہ غفلت کے مرتکب رہے ۔انگریزی کی بلاجواز بالا دستی نے ہماری غلامانہ ذہنیت کے خود رو مگر سدا بہار پودے کی خوب آبیاری کی اور انگریزوں کی سیاسی بالا دستی کی آخری علامت کے طور پر ہمارے دفتری ، عدالتی اور تعلیمی نظام پر یہ بدیسی زبان آج تک حکمرانی کر رہی ہے۔ ماضی میں انگریزی کے اس تسلط کے خلاف نفاذِ اردو کی جد وجہد کو ہماری غلام فکر بیوروکریسی علاقائی زبانوں کی مخالف تحریک ثابت کرنے کی مذموم مگر کامیاب کوشش میں مصروف رہی ۔ہماری افسر شاہی کی یہ انتہائی خطر ناک اندازِ فکر تھی جس کے نتیجے میں ہمارے ہاں لسانی تعصب خوب پروان چڑھااور آج ہم جن عصبیتوں کا شکار ہیں اُن میں لسانی عصبیت سرِ فہرست ہے ۔ حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ علاقائی زبانیں اردو کے لسانی سرمائے میں مسلسل اضافے کا ایک مستقل ذریعہ ہیں اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اردو کی پُر شکوہ عمارت علاقائی زبانوں کے بلند و بالا، مستحکم اور مضبوط ستونوں پر اُستوار ہے ۔
اردو شناش حلقوں کے نزدیک یہ زبان ایسے ہے جیسے آبِ سُخن میں رچ جائے آتشِ چنار ،اس میں ترکی کی دلنواز ملاحت جُبیناں ، عربیء مبین کی جلال آفرینیاں،قندِ فارسی کی حلاوت ،بھاشا کی مٹھاس، ہندی کی لوچ ،پنجابی کے شعور کی ارفع فراستیں ، سندھی کی شیرینیاں ہندکو اور سرائیکی کی مکرم نفاستیں سوچ اور فکر کے لئے پُر شوق راستوں کو کشادہ کرتی نظر آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اردو کے دیدہ وروں میں کسی قسم کا کوئی تعصب نہیں پایا جاتا۔سر سید مرحوم نے اُردو کے فروغ کا علم اُٹھایا ، حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے اسی کو آراستہ کرنے پر زور دیا ۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے تاریخی اعلان میں اسی اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا ۔ لیکن فرنگی تہذیب و تمدنیت نے ہمیں نہ صرف اسلام سے بیگانہ کر دیا بلکہ اپنی قومی زبان ، ملی تمدن ،مشرقی روایات اور جذبہ حب الوطنی سے یکسر عاری کردیا ہے ہمارے بعض نام نہاد دانشور جنہوں نے انگریزی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے آفاقیت میں ایسے گُم ہوئے ہیں کہ مملکتِ خداداد کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدیں انہیں غیر ضروری نظر آتی ہیں ۔پاکستان اور نظریہ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آفاقیت مجروح ہوتی ہے ۔
اردو کو بطور دفتری اور سرکاری زبان نافذ کرنے کے بارے میں عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے سے اردو کا جو احیاء ہواتھا اُس نے ہمیں ایک ایسا موقع فراہم کیا تھا کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھیں ۔منصفِ اعلیٰ جناب انور ظہیر جمالی نے عدالتی نظام میں اردو نافذ کرنے کا جو ارشاد فرمایا ہے اُسے وکلاء اور جج صاحبان کی انگریزی پر کامل دسترس نہ ہونے کی بجائے پاکستانی قوم کے متفقہ دستور 1973 کے آرٹیکل251 سے مشروط کیا جانا چاہیئے تھا جس کے تحت آئین کے نافذ العمل ہونے کے پندرہ سال کے اندر اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنا ضروری قرار دیا گیا تھا ۔ نیز 8 ستمبر2015 کو عدالتِ عظمی کے منصفِ اعلیٰ جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں ایک تین رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہے جس پر عملدرآمد ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
ممتاز جس بِنا پہ ہیں سارے جہاں سے ہم
رکھیں نہ کیوں عزیز تر جنت نشاں سے ہم
اس کی لطافتوں کی زمانے میں دھوم ہے
اُردو زبان ہم سے ہے قومی زباں سے ہم

Back to top button