کالم

پانامہ لیکس حکمرانوں اور اپوزیشن کی جاری رسہ کشی سہیل احمد اعظمی

پانامہ لیکس حکمرانوں اور اپوزیشن کی جاری رسہ کشی سہیل احمد اعظمی
ملک میں کرپشن کا شور ہر کوئی مچا رہاہے لیکن کرپشن کے خاتمے میں مخلص نظر کوئی نہیں آرہا۔ پانامہ لیکس کے بعد ملک میں جو دھماچوکڑی سیاسی جماعتوں نے مچارکھی ہے اس کے نتیجے سے کسی کو امید نظرنہیں آرہی۔ اپوزیشن اور حکومتی جماعت اور ان کے حلیف ایکدوسرے پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں میں موجود سیاسی اپنا الگ راگ الاپ رہے ہیں ۔ اپوزیشن جماعتوں کے بیانوں اور پالیسی میں ربط ہے نہ ہی ہم آہنگی ۔ ہر کوئی حکمران جماعت کو نیچا دکھانے اور اپنی جماعت کی سیاسی ساکھ کو بہتر بنانے میں مصروف ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی یہ بات جائز ہے کیوں کہ نواز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں اسلئے ان کے خاندان کے حوالے جو الزامات ہیں ان کا حساب کتاب پہلے ہونا چاہئے۔ بعد میں جسکا چاہیں احتساب کیاجائے۔ لیکن ستم ظریفی اور ہماری بدقسمتی ہے کہ اخلاص نہ ہونے اور ذاتی سیاسی فوائد کی جنگ کے باعث پانامہ لیکس کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ڈیڈلاک برقرار ہے۔ اپوزیشن اراکین وزیراعظم کا نام شامل کرنے اور حکومتی ارکان نہ شامل کرنے پر بضد ہیں۔ اپوزیشن کامطالبہ ہے کہ وہ 15نکات میں سے 13کو من و عن تسلیم کرلے اس سلسلے میں سینیٹر اعتزاز احسن کا کہناہے کہ احتساب کا آغاز وزیراعظم کے خاندان سے ہی ہوگا۔ جبکہ بے نظیر جب وزیراعظم تھیں تو ان کے شوہر کے کرپشن کے چرچے ہر خاص و عام کی زبان پر تھے۔ وہ اس وقت مسٹر 10%کے نام سے مشہور تھے جبکہ ان کی صدارت کے دور میں کرپشن کی سطح بہت بڑھ گئی اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ زرداری کے بیٹے بلاول زرداری بھی فرمارہے ہیں کہ ہماری جماعت کی پالیسی میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اسکی تحقیقات کا آغاز وزیراعظم سے ہی ہو۔ انہوں نے اپنے والد سے مشاورت کے بعد پارٹی کی لائن واضح کی اور جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کو ہدایت کی کہ وہ پارلیمانی کمیٹی میں اپنے سخت موقف پہ ڈٹے رہیں۔ ان کے بقول ایسا کوئی موقف اختیار نہ کیاجائے جس سے یہ تاثر ابھرے کے وہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں۔ جبکہ اس سلسلے میں PTIکے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم کے احتساب کے معاملے سے دستبردار نہ ہوں گے۔ انہوں نے اپنی جماعت کے ایک اجلاس میں پارلیمانی کمیٹی کی کارروائیوں اور رویے پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہرگز وزیراعظم کو احتساب سے دستبردار نہ نے دیں گے جبکہ شاہ محمود قریشی کے بقول حکومت اس مسئلے پر سنجیدہ نہیں ہے۔ جبکہ اسی سلسلے میں اے این پی کے سابق سینیٹر حاجی عدیل کان کے موقف کی تائید کرتاہو ں کہ ہر مہذب معاشرے اور اسلامی اقدار اور اپنے اسلاف کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے وزیراعظم کو خود وزارت عظمی سے ہٹ کر اپنے آپکو احتساب کیلئے پیش کرنا چاہئے۔ انہوں نے حکومتی اور اپوزیشن اراکین پر مبنی کمیٹی کو یہ مشورہ دیا کہ دونوں لچک کا مظاہرہ کریں اور TROSپر متفق ہوکر تحقیقاتی کمیٹی کو بھجوائیں اگر یہ آپس میں لڑتے جھگڑنے رہے تو عوام کا اعتماد ان سے اٹھ جائیگا اور سیاسیوں کا گراف مزید گرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ حکومت اپوزیشن کے 15نکات پر متفق ہو اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ اپوزیشن حکومتی نکات پر دونوں کو بیچ کا راستہ نکالنا چاہئے۔ اگر موجودہ ڈیڈلاک برقرار رہا تو پارلیمان سے عوام کا اعتماد اٹھ جائیگا۔ حکومتی حلیف جماعت JUI (F) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو نواز شریف کی وزارت عظمی کو بچانے کی پوری کوشش کررہے ہیں، کا کہنا ہے کہ جسکا اپنا دامن صاف نہ ہو وہ دوسروں کے احتساب کی بات نہ کرے۔ پہلے اپنا احتساب کرے۔ انکا اشارہ عمران خان کی طرف ہے ۔ دونوں جماعتوں کے سربراہ ایک دوسرے پر الزام لگانے میں پانامہ لیکس کے بعد کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مولانا فضل الرحمن کے مطابق پانامہ لیکس کی تحقیقات کا ضابطہ قانون اور آئین کے مطابق بننا چاہئے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ KPKکی حکومت جب خود احتساب کی زد میں آئی تو انہوں نے اپنے ڈی جی احتساب کو ہی فارغ کردیا۔ مولانا کے مطابق دنیا بھر میں کہیں بھی پانامہ لیکس کا ذکر نہیں جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے قائد علامہ طاہر القادری فرماتے ہیں کہ پانامہ لیکس کا جنازہ نکالنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی۔ انہوں نے اپوزیشن پر الزام لگایا کہ وہ اپنے موقف سے ہٹ کر حکومت کو سہولت دے رہی ہے۔ ان کے مطابق پانامہ لیکس کے معاملے کو لمبا کرنا حکومتی ایجنڈا ہے ۔ اصل ٹی آر اوز لندن میں بن رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے جوابی خط میں کمیشن بنانے کا نہیں کہا تھا۔ اس معاملے میں حکومت کے گرد گھیرا تنگ تھا لیکن اپوزیشن نے ان کی مدد کی انہوں نے کہا کہ قومی دولت کو لوٹنے میں ہمارے حکمران پیش پیش ہیں۔ چھوٹے بڑے ٹھیکوں کے پیچھے حکمران جماعت اور ان کے فرنٹ مین ہیں۔ پنجاب میں پانی ، گوشت، پاور کی کمپنیاں بناکر قومی دولت کو لوٹا جارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ میٹرو منصوبہ، اورنج ٹرین یا کوئی اور منصوبہ حکمران طبقہ اسکے پیچھے ہے۔ جبک تک ملک میں احتساب اور انصاف نہ ہوگا ترقی کا خواب دیکھنا فضول ہے۔ انہی خیالات کا اظہا ڈی جی نیب سلیم شہزاد نے ایک تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ انکا کہنا تھا کہ بدعنوانی کے باعث ملکی بنیادوں کا استحکام اور ترقی کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوان اور ترقی کی منازل کو کبھی ایک پلڑے میں تولا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو کرپشن فری ملک بنانے کیلئے ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ شہری بیچارے کیا کریں ہمارے حکمرانوں کی کرپشن اقرباء پروری نے انہیں بجلی، پانی، صحت، تعلیم ، انصاف جیسی بنیادی ضروریات سے گذشتہ 68سالوں سے محروم کررکھا ہے۔ وہ کیا کردار ادا کریں گے ان کے پاس نہ سکت ہے اور نہ ہی وسائل ۔ جب ہمارے احتسابی ادارے اور عدالتیں لوگوں کو کرپشن سے پاک معاشرہ اور فوری اور سستا انصاف تمام تر وسائل کے ہوتے ہوئے فراہم کرنے میں ناکام ہوں تو غربت اور ناانصافی ، بے روزگاری، بدامنی اور دہشت گردی کی چکی میں پسی عوام کیا کرے؟ پانامہ لیکس کے بعد اپوزیشن اور حکمران جماعت کی رسہ کشی اور محاذ آرائی کیا رنگ لاتی ہے۔ اس سلسلے میں عوام کسی قسم کی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہے۔ کیوں کہ انہیں گذشتہ 68سالوں کا تجربہ یہ بتاتاہے کہ ملک کو لوٹنے اور ایک دوسرے کا سہارا بننے میں ہماری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں۔ پانامہ لیکس کی رسہ کشی کے دوران نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری کا معاملہ سامنے آگیاہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں جلد از جلد صحت دے۔

Back to top button