ِ.. مولانا شیرانی: مجموعہ کمالات وتنازعات
مولانا شیرانی: مجموعہ کمالات وتنازعات. تحریر … بخت محمد برشوری
بچپن میں روز شام کو قریب کے سرکاری ڈیری فارم سے دودھ لینے جاتے تھے،یہ وقت دودھ لانے سے زیادہ کھیل کا وقت ہوتا تھا کیوں کہ وہاں محلے بھر کے بچے آئے ہوتے تھے اور روز اسٹاپو ، چھپن چھپائی ، برف پانی وغیرہ کے کھیلوں میں سے کسی ایک کا میگاایونٹ کھیلا جاتا تھا ۔ بڑے گروپ بنائے جاتے ۔ یہ گروپ کبھی صنفی بنیادوں پر بنتے یعنی لڑکے لڑکیاں اور کبھی دوستی کی بنیاد پر گروپ بندی کی جاتی۔ان بچوں میں شیرانی خاندان کے بچے بھی تھے ۔ مولانا شیرانی صاحب کی سوتیلی والدہ ژوب کی ایک روایتی دیہاتی خاتون تھیں جو ہمارے گھر کبھی کبھار آجایا کرتی تھیں۔ مولانا شیرانی اپنے سوتیلے بھائیوں میں سب سے بڑے اور اکیلے ہیں ۔ ان کی سوتیلی والدہ ان کی ہم عمر تھیں۔ والد کے انتقال کے بعد مولانا شیرانی نے ہی اپنے بھائیوں کو پڑھایا ، بڑا کیا اور ان کی بہترین تربیت کی ۔ جس ادارے میں میری آج سرکاری ملازمت ہے یہاں کبھی شیرانی صاحب کے بھائی گریڈ 17 پر تعینات تھے ۔ جو آج کل وزیراعلی کی انسپیکشن ٹیم کے رکن ہیں ۔ ہمارے اور ان کے گھر کے درمیان صرف ایک دیوار تھی یعنی ہم پڑوسی ہی تھے ۔ شیرانی خاندان سے دو طرفہ تعلق تو بعد میں نہ رہا مگران کے بارے میں واقفیت پھر بھی رہی۔
اپنی کمی علمی اور جہالت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ہم نے ہمیشہ شیرانی صاحب کی سیاسی پالیسیوں پر تنقید کی ہے مگر ان کی علمی حیثیت کا اعتراف بہر حال ان کا بڑا سے بڑا مخالف بھی کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ ان کے چھوٹے بھائی بھی خاصے علم دوست واقع ہوئے ہیں ۔ ان کے گھر کے قریب بلوچستان کی ایک معروف دارالافتاء قائم ہے ۔ وہاں کے اساتذہ نے بتایا کہ ہمیں بعض اوقات کچھ بڑی اور نایاب کتابوں کی ضرورت پڑتی ہے تو ہم ان سے رابطہ کرتے ہیں ۔ فقہ ، تفسیر ، احادیث اور دیگر موضوعات پر ان کے گھر کی لائبریری سے بہت اچھی کتابیں پڑھنے کو مل جاتی ہیں ۔ مگر چونکہ چھوٹے شیرانی عملی طورپر علمی میدان کے آدمی نہیں ہیں اس لیے اس حوالے سے ان کی شہرت نہیں ہے ۔ خود مولانا شیرانی صاحب بڑی لائبریریوں کو جاننے اور وہاں جاکر کتابیں پڑھنے کا خصوصی شغف رکھتے ہیں ۔ اسلام آباد اور کراچی میں اچھی لائبریروں کے وہ مستقل وزیٹر ہیں ۔ کراچی میں اچھے کتب خانوں کے وہ بڑے خریدار ہیں ۔ ہر دو چار ماہ بعد ہزاروں کی کتابیں خریدتے ہوئے انہیں ہم نے بچشم خود دیکھا ہے ۔ کتابوں کے بنڈل کے بنڈل ان کی گاڑی میں رکھتے کتب خانے کے ملازموں کو ہم نے بارہا دیکھا ۔ وسیع ترین مطالعہ اور کتب بینی کا جو شوق انہیں قدرت نے دیا ہے ایسا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے ۔
مزاجا مولانا شیرانی صاحب انتہائی حلیم الطبع ، ملنسار ، درویش صفت اور نرم گفتار آدمی ہیں ۔ کسی خطاب میں وہ جوش میں نہیں آتے ۔ کبھی انہیں مشتعل ہوتے نہیں دیکھا گیا ۔ ان کا موقف ہمیشہ روایتی مذہبی حلقے کے خلاف رہا ، کچھ لوگوں نے ان کے افکار اور عقائد پر بھی انگلیاں اٹھائیں، انہیں منہ پر کافر اور ملحد تک کہا گیا ۔کوئٹہ میں جمعیت علماء اسلام کےپارٹی اجلاس میں جب وہ جماعت کے صوبائی امیر تھے ایک مرتبہ ایک شخص نے ان پر تنقید کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ “تعجب کی بات ہے کہ جماعت علماء کی ہے اور اس کا امیر ایک کافر شخص ہے “، شیرانی صاحب نے فوری جواب تو نہیں دیا کہ یہ ان کا مزاج ہی نہیں ۔اپنی باری آنے پر کھڑے ہوئے اور سب سے پہلے کلمہ طیبہ پڑھا ، پھر کہا “یہ لو اگر اب تک میں کافر تھا تو اب میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتاہوں “۔ ان کے عقائد پر کچھ لوگوں نے کتابیں تک لکھیں اور انہیں زندیق اور ملحد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے کبھی اس کا جواب تک نہیں دیا اور مستقل مزاج ایسے کہ کبھی اپنے ایک حرف سے پسپائی نہیں کی اور کبھی پشیمانی کا اظہار نہیں کیا ۔صحیح تھا یا غلط،خود جس بات کو درست سمجھا کہہ دیا اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا ۔ ان پر بم دھماکے بھی ہوئے ، ان کی گاڑی پر فائرنگ بھی ہوئی ، جلسے میں حملہ کیا گیا اور مردہ باد وغیرہ کے نعروں سے “عزت افزائی” تو بارہا کی گئی مگر کبھی ان کے ماتھے پر بل نہیں آئے ، کبھی انتقامی اور جوابی ردعمل نہیں دکھایا ۔ مدارس اور علماء پر انہوں نے کئی بار بجا اور بے جا تنقید کی، اپنی فکر کے مطابق مدارس ، علماء یا طلباء میں پائی جانے والی خامیوں پر انہوں نے ہمیشہ کھل کر تنقید کی ۔ بحث ومناظرہ سے انہیں نفرت ہے ۔ اسی لیے وہ ٹی وی ٹاک شوز میں بھی شریک نہیں ہوتے کہ وہاں بات سمجھنے سمجھانے سے زیادہ مقابل کو نیچا دکھانا مقصود ہوتا ہے ۔ ان کا انداز کلام منطقی اور استدلالی ہے ۔ آج تک شاید کسی نے یہ دعوی کیا ہو کہ اس نے شیرانی صاحب کو لاجواب کردیا ۔ دلائل کے بادشاہ ہیں ۔ بات سے پہلے ایک مقدمہ باندھتے ہیں اور سوالات اٹھاتے ہیں ۔ فکری نگاہ خاصی گہری ہے ۔ پاکستان کے ریاست اور اسلامی ریاست کے حوالے سے انہوں نے کراچی میں ایک تھنک ٹینک کے پروگرام میں جو سوالات اٹھائے تو تقریر کا سارا وقت ہی سوالات میں گذر گیا ۔ کاش کوئی سنجیدہ خو اور موضوع کی اہمیت سمجھنے والا اینکر ان کے سوالات جمع کرکے ان سے طویل وقت مانگے اور ان سے مدلل گفتگو کرے تو ان کے جوابات سے پاکستان ، ریاست اور اسلامی ریاست کے حوالے سے ہونی والے مباحث میں ایک وقیع باب کا اضافہ ہوگا۔ مین سٹریم میڈیا بلوچستان سے دور ہے اس لیے شیرانی صاحب کے روایتی دستار اور جبے کو دیکھ کر سب انہیں ایک روایتی مولوی ہی سمجھتے ہیں حالانکہ شیرانی صاحب روایتی دینی حلقے کے درمیان رہتے ہوئے بھی فکری لحاظ سے ان سے بہت دور کے ایک شخص ہیں ، جنہیں اب تک نہ دینی طبقہ سمجھا ہے اور نہ یہ دینی طبقے کو قائل کر سکے ہیں ۔ سیاست کے میدان میں شیرانی صاحب کا طویل عرصہ گذرچکا ہے ، جوڑ توڑ کی سیاست کے بادشاہ بلکہ بادشاہ گر ہیں ۔ اپنے خلاف کھڑے مہروں کو اپنا شہسوار بناکر کھلانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ نگاہیں کہیں اور نشانہ کہیں اور باندھتے ہیں ۔ علمی اور سیاسی میدان کی اس شخصیت کو ان کے عقیدت مندوں کا حلقہ “امام سیاست ” کہتا ہے ۔بلکہ ان کا دعوی ہے کہ شاہ ولی اللہ کے فکر اور فلسفے کو مولانا سندھی کے بعداگر وارث ملا ہے تو وہ شیرانی صاحب ہی ہیں۔
جو لوگ مولانا شیرانی صاحب کو قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ان کی علمی حیثیت اور شخصیت میں شاید کسی کو کلام ہو مگر سیاست کے میدان میں ” امام سیاست” ہوتے ہوئے بھی تنازعات سے نہ بچ سکے ۔ آج تک کسی کو یہ اپنی قادر الکلامی اور علمی وفکری گہرائی کے باوجود اپنا ہم نوا نہ بناسکے ۔ ان کی وجہ سے بلوچستان میں تنظیم دو ٹکڑوں میں بٹی ، ان کے حامیوں نے انہیں سرپر بٹھایااور بھاری مینڈیٹ دیا ، جس کا ان پر کچھ منفی اثر ہوا اور انہوں نے مرکزی قیادت سے بھی پنجہ آزمائی کی ۔ موجودہ دور میں جہاد کے حوالے سے اپنے اعتراضات میں بعض اوقات انتہائی شد ت کی حد تک پہنچ جاتے ہیں ۔ ان کے اعتراضات وہی ہیں جو عموما لبرل میڈیا دہراتا رہتا ہے کہ یہ غیروں کی پراکسیز ہیں ، یا یہ کہ سادہ لوح لوگوں کو جنگجو بنایا گیا ہے ۔ سادہ لوح نوجوانوں سے خود کش حملے کروائے جارہے ہیں وغیرہ۔
جماعتی بندوبست میں من مانیوں اور موجودہ دور میں جہاد کے حوالے سے ان کے بعض انتہاپسندانہ بیانات کے باعث مذہبی طبقے میں ان کی علمی حیثیت تو کہیں کھوگئی تھی، حالیہ خواتین بل میں صرف ایک جملے کے باعث انہیں میڈیا بھر میں نشانے پر رکھاگیا۔ ان کی جماعتی ، سیاسی اورقائدانہ زندگی تنازعات ہی کا شکار رہی ۔ ان کے جیسے علمی شخص کا یہ مقام ہر گز نہیں ۔ ایسی علمی زندگیاں تنازعات میں دب جائیں تو یہ ہمارے جیسے علمی زوال کا شکار معاشرے کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔شیرانی صاحب اپنے موقف کی علمی انداز میں وضاحت کے لیے اگر آگے آئیں اور تحریری صورت میں بھی اپنا موقف واضح کریں تو شاید بہت سے تنازعات کا خاتمہ ہوجائے۔