اُمراء کے ٹولے کا عوامی بجٹ ………………. تحریر : حنا غزل
اُمراء کے ٹولے کا عوامی بجٹ ………………. تحریر : حنا غزل
تین جون کو اسمبلی کے فلور پر وفاقی وزیر خزانہ (جنہیں سیاسی حلقوں میں میاں صاحب کی پرچھائیں سمجھا جاتا ہے) اسحاق ڈار نے بجٹ 2016/ 2017 پیش کر دیا جسے صرف ان کی جماعت نے ہی اپنی تالیوں کی گونج میں قبول کیا۔
بجٹ میں عوام کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہو ہی جائے گا۔
ادوایات سے لے کر بچوں کے استعمال کی اشیاء دودھ کے ڈبے ہوں یا جوسز، سیمنٹ ہو یا موبائل فون ہر چیز پر ٹیکسز کی ایک بھرمار ہو گئی ہے۔ غریب طبقے کے لیے یہ ایک زلزلے سے کم بجٹ نہیں جس کے آفٹر شاکس آنے والے بجٹ تک آتے ہی رہیں گے۔
جب وزیر خزانہ بجٹ کی بجلیاں گرا رہے تھے اس وقت میں کتابیں دیکھ رہی تھی اچانک ایک ڈائری کے اندر سے کوئی بارہ پندرہ سال پرانی سودے کی پرچی ہاتھ لگی، سرسری نگاہ ڈالی تو یقین ہی نہیں آیا، دس کلو چاول دوسو روپے کے، بیس کلو آٹا دو سو ساٹھ، چینی پانچ کلو ایک سو دس روپے میں خریدی گئی۔
بارہ پندرہ برس میں مہنگائی اور قیمتوں کو کیسے پر لگ گئے، مہنگائی کا جن غریب طبقے کی قوتِ خرید کیسے لے اڑا، بجلی کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ ہوا، دالیں ہوں یا دودھ، پھل اور سبزیاں یا پھر بیمارعوام کا سہارا دوائیں سب کچھ اس قدر مہنگا ہوا کہ بیان سے باہر ہے۔
مجھ سمیت پاکستان کی نوّے فیصد آبادی کا تعلق متوسط طبقے سے ہے، متوسط طبقہ کس طرح اس مہنگائی سے متاثر ہوتا ہے یہ بات ہر نوکری پیشہ جانتا ہوگا۔ جس طرح مہنگائی نے متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہیں ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس ملک میں تقریباََ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں غریب دو وقت کی روٹی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔
میں اپنے قارئین کی توجہ جس طرف دلانا چاہوں گی وہ ہے رہائش جو پراپرٹی ڈیلرز کے باعث عام افراد کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے، جائیدادیں بنانا تو دور کی بات اب مکان کرائے پر ملنا بھی مشکل ہے، عوام کے سر سے چھت بھی کھسکتی نظر آرہی ہے، اس کے بعد یوٹیلیٹی بلز کی بھرمار آجاتی ہے،
بل میں بھی ایسے ایسے خفیہ ٹیکس لگائے گئے ہیں جو بل کو چار چاند لگا دیتے ہیں، اور صارف کو دن میں تارے دکھائی دینے لگتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک تو ایسا تھا کہ گھر کا ایک فرد کما کر دس سے بارہ افراد کے کنبے کی کفالت کرتا تھا، آج ہر فرد بھی کمائے تو گزارا مشکل سے ہی ہوتا ہے۔ جس طرح مہنگائی نے متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہیں ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس ملک میں تقریبا لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ہمارے حکمرانوں کی عیاشیوں اور بدعنوانی نے عوام کو مہنگائی کا عذاب مسلسل جھیلنے پر مجبورکر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان بیروزگاری سے تنگ آکر یا خودکشی کررہے ہیں یا ہتھیار اٹھا کر دہشت گرد اور ڈاکو بن رہے ہیں، مہنگائی کے ہاتھوں تنگ مائیں بچوں سمیت نہروں میں کود کر خودکشیاں کررہی ہیں، والدین غربت کے باعث اپنے جگر کے ٹکڑے فروخت کررہے ہیں
ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم چوری ڈکیتی موبائل چھیننے کی وارداتیں دن بہ دن کیوں بڑھ رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں بنیادی سہولتوں کا حصول نا ممکن بنا دیا گیا ہےجب ایک انسان بنیادی سہولتوں سے ہی محروم رہے گا تو اس کی منفی سوچ اس کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان دہشت گرد گروہوں میں شامل ہو کر اپنی محرومیوں کا بدلہ لیتے نظر آتے ہیں۔ کیا ہمارا معاشرہ ہمارے لیے چور ڈاکو دہشتگرد پیدا کر رہا ہے؟ کیا ہماری حکومت کبھی عوام کی بنیادی ضروریات اور عوام کے بنیادی مسائل کبھی حل کر پائے گی-
رمضان سے قبل عوامی طبقہ بالخصوص پاکستان کے وہ عوام جو خطِ غربت سے بھی کہیں نیچے زندگی بسر کرتے ہیں اس کی روز مرہ کی وہ اشیاءے خور و نوش آٹا دال چاول گھی تو اپنی جگہ مگر وہ ادویات جو پاکستان کے غریب طبقے کا نصیب ہیں ان کی قیمتوں کو بھی پر لگ چکے ہیں۔
رمضان کے آنے سے قبل ہی منافع خور طبقے نے لوٹ مار کے لئے پوری تیاری کرلی ہے، رہی سہی کسر عید کی خوشیاں منانے میں پوری ہوجائے گی، بچوں کو خوشیاں دینے کے لئے غریب والدین کو خون کے گھونٹ پینا ہوں گے۔
ہمارے حکمرانوں کو جنہیں صرف ووٹ لیتے وقت بے بس لاچار عوام یاد آتی ہے اقتدار ملنے کے بعد وہ عوام ان کے لئے کیڑے مکوڑے ہو جاتے ہیں مگر بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری عوام بھی بار بار آزمائے گئے ان حکمرانوں کو بخوشی ووٹ دے کر انہیں اپنے اوپر مسلط کرتی ہے پتا نہیں ہمارے عوام کی یاداشت اتنی کمزور کیوں ہے اور وہ کیوں ان جابر حکمرانوں کا ہر ظلم ہر زیادتی اتنی آسانی سے بھول جاتے ہیں