عورت کی جان ( توصیف احمد۔ میانوالی)
عورت کی جان ( توصیف احمد۔ میانوالی)
یہ جان بھی بڑی عجیب چیز ہے ، پرانے زمانے کی دیومالائی کہانیوں میں جن بھوتوں کی جان کسی نہ کسی چیز میں قیدہوتی تھی، کسی کی جان طوطے میں ہوتی، کسی کی مینا میں، وہ ان چیزوں کی بڑی حفاظت کرتے تھے، بڑا خیال رکھتے تھے۔ اگر ان کی جان کسی کے قبضے میں چلی بھی جاتی تو وہ ان کے غلام بن جاتے تھے، غلامی بھی بہت عجیب چیز ہے، اپنی جان کے بدلے لوگ غلام بن جاتے ہیں، اکژ غلاموں کو اپنی غلامی سے اتنا پیار ہو جاتا ہے کہ وہ آزادی کو اپنے پاؤں کی بیڑیاں سمجھنے لگتے ہیں۔
عورت بھی ایسی ہی غلام ہے، جسکی غلامی میں آ جائے اسی کے زیراثرعمر قید گزار دیتی ہے، عورت کی جان بھی پرانے زمانے کی دیومالائی کہانیوں کے کرداروں کی طرح کسی اور میں قید ہوتی ہے، وہ اگر ماں ہے تو اسکی جان اس کے بچوں میں بند ہے، بیٹی ہے تو اسکی جان اس کے ماں باپ میں قید ہے، بہن ہے تو بھائی میں اسکی جان ہے، محبوبہ ہے تو محبوب میں اور اگر بیوی ہے تو شوہر میں ۔ وہ ساری عمر انہی کی حفاظت اور خوشنودی میں گزار دیتی ہے، سو مشکلیں آئیں وہ اف تک نہیں کرتی لیکن ایک چیز ان میں مختلف ہے، اگر ان کی جان پر کوئی اور قبضہ کر لے تو یہ مقابلہ کرتی ہیں ان کی غلام نہیں بن جاتی، اگر اسکی بھابھی بھائی پہ قبضہ کر لے تو یہ برداشت نہیں کرتی، خوب مقابلہ کرتی ہیں، اسی طرح محبوب پر کوئی اور لڑکی نظر ڈال لے یا شوہر کو کوئی اور عورت متاثر کر دے تو یہ کھلا اعلان جنگ کر دیتی ہیں، اور پھر یہ کسی کی نہیں سنتی بس اپنی من مانی کرتی ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ محبت میں بھی توحید کی قائل ہے، ایک بار جس کے لئے وفا کا حلف لے لیا مرتے دم تک اس کی ہو جائے گی، اس کی یہ خصوصیت اسے مردوں سے ممتاز کرتی ہے، ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ کسی کی قدر کا احساس اس کے جانے کے بعد ہوتا ہے، ہم مرد خود کو مرد ثابت کرنے کے لئے بھی عورت کا سہارہ لیتے ہیں، مگر جب بات اس کے حقوق کی آتی ہے تو ہماری مردانگی یہ گواراہ نہیں کرتی کہ عورت کو ہم برابری کی سطح پر لائیں۔ عورت اگر اپنی مرضی سے مرد کی غلامی میں آجائے تو اس سے بڑا غلام کوئی ہو ہی نہیں سکتا لیکن اگر کوئی مرد زبردستی اسکو اپنی غلامی میں لانا چاہے تو اس سے بڑی باغی کوئی نہیں ہوتی، یہاں میں آپ کو زمانہ نبوی کا ایک واقع سنانا چاہتا ہوں، ’’ ایک نوجوان عورت اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے اس لئے کر دیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی مالی تنگی دور کرے۔ نبی اکرمﷺ نے اس کو اختیار دیا کہ وہ اس نکاح کو باطل کر دے۔ تب اس عورت نے کہا میں نکاح کو باقی رکھتی ہوں۔ اس طرح کرنے سے میری غرض یہ تھی کہ عورتوں کو بتا دوں کہ شریعت نے باپ کوبالغ لڑکی پرنکاح کے معاملے میں زبردستی کا حق نہیں دیا۔‘‘ (ابن ماجہ)
اب اس واقعے کو نظر میں رکھیں اور کچھ دن پہلے لاہور میں پسند کی شادی کرنے پر زندہ جلائی جانے والی لڑکی کا واقعہ سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ کیا ہماری غیرت ہمارے دین سے زیادہ بلند ہے؟ جب خدا نے عورت کو برابر کے حقوق دیے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں ان حقوق کو ضبط کرنے والے، جہاں مرد کو خدا نے انتہائی سخت حالات میں ’’طلاق‘‘ کا حق دیا ہے وہاں عورت کو بھی ’’خلع‘‘ کا حق دیا ہے، مطلب یہ کہ ہم خدا کے دیے گئے حقوق کو ضبط کر کے عورت پر اپنے حقوق نافذ کرنے پر کیوں تلے ہیں؟ ہمارہ معاشرہ جا کہاں رہا ہے۔
اللہ نے عورت کو برابری کے حقوق سے نوازا ہے، تخلیق آدم کے بعد عورت کو جنت میں آدم کے ساتھ ہی رکھا گیا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’پھر ہم نے آدم سے کہا تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو‘‘ (البقرہ) یہاں پر اللہ تعالی نے عورت کو برابری کے حقوق دیے، قرآن کریم میں کئی جگہ عورتوں کے حقوق اور ان کی اہمیت کے بارے میں ذکر ہے، تو جب خدا نے سب سمجھا دیا ہے تو کیوں انسان اس کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنے قانون اس پر لاگو کرنے پر تلا ہوا ہے؟ عورت پہ اپنی مرضی ٹھونسنا، پسند نا پسند پہ پابندی، ہلکا پھلکا تشدد؟ یہ ہم کس سمت بڑھ رہے ہیں؟
زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ دفنا دینے کے بارے میں سنا تھا مگر آج زندہ جلا دینے کے واقعات سن کر لگتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے وہ جاہل لوگ بھی ہم پر حیران ہو گے کہ اس زمانہ کے لوگ کس سطح کی جاہلیت پر پہنچ چکے ہیں۔ حیرت ہے اس ماں پر جس نے اپنی جان کو اپنے سامنے زندہ جلا کر جاہلیت کی وہ مثال قائم کی جس کی جھلک زمانہ جاہلیت میں بھی نظر آنا مشکل ہے۔ اور آنسو بہانے کو دل چاہتا ہے اس لڑکی پر جس کی جان نے اسکی جان لے لی صرف اور صرف غیرت کے نام پر۔ زندہ جلتے وقت اس نے یہ تو ضرور سوچا ہوگا کہ عورت ہی کیوں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہے، آج تک کسی مرد کو کیوں نہیں زندہ جلایا گیا؟ مگر وہ نہیں جانتی کہ مرد زندہ نہیں جلائے جاتے یہ جلنا تو عورت کے نصیب میں لکھا ہے، کبھی اولاد کے ظلم میں جلنا، کبھی شوہر کی ذلت کی آگ میں جلنا اور کبھی غیرت کے نام پر جلنا۔
سچ ہے عورت جسے اپنی جان بنا لے وہ اسکی مرتے دم تک حفاظت کرتی ہے مگر خود اپنی زندگی کو جلنے سے نہیں روک سکتی، جب تک معاشرے میں بے حسی کی تاریک رات چھائی رہے گی اس وقت تک احساس کا دن کبھی نہیں چڑھے گا۔ اب یہ ہم پہ ہے کہ ہم نے اندھیروں کو ہی اپنا مقدر بنانا ہے یا اپنے معاشرے کو حق و انصاف کی روشنی سے منور کرنا ہے، جب تک یہ بے حسی کی تاریکی چھائی رہے گی لوگ عورت کو جلا کر اس کی روشنی میں حق کا راستہ ڈھونڈتے رہے گے۔