حافظ حمد الله جیسے بے چارے مرد کہاں جائیں؟ ….. تحریر . سلیم ملک
حافظ حمد الله جیسے بے چارے مرد کہاں جائیں؟ ….. تحریر . سلیم ملک
یہ خواتین ہم مردوں کو جینے تو نہیں دیں گی اور خاص طور پر غیرت مند مردوں کے لئے تو زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ کل رات کا واقعہ ہی دیکھ لیں۔ یہ کوئی خاتون جسے ماروی سرمد وغیرہ کہتے ہیں، ایک ٹی وی ٹاک شو میں تین مردوں کے ساتھ دھڑلے سے یوں بیٹھ گئی جیسے وہ بیچارے انسان ہی نہ ہوں۔ اور پھر ان تین مردوں میں جناب حمدللہ صاحب بھی تھے جو کوئی عام آدمی نہیں ہیں۔ وہ حافظ قران ہیں، باریش ہیں، ہمیشہ اپنا سر ڈھانپتے ہیں (اور دوسروں کا بھی ڈھاپنے پر اصرار کرتے ہیں)، مشہور عالم دین ہیں، منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، سینیٹر ہیں اور جمعیت علمائے اسلام کے لیڈر ہیں، گفتگو کے ماہر ہیں اور ٹاک شوز میں کوئی نئے نہیں ہیں۔ بہت اہم ٹاپک جیسے جہاد کی فضیلت، فیملی پلاننگ اور مردوں کے حقوق کے حوالے سے ٹی وی اینکرز میں بہت مقبول ہیں۔ ان کے سامنے تو صرف اس خاتون کو بیٹھنے کی جرات کرنی چاہیے جو سمٹ کر بیٹھنے کی ماہر ہو اور مجھے لگتا ہے کہ ماروی سرمد اس ہنر سے بالکل بے بہرہ ہے۔
ایک تو یہ صورت حال پر امن گفتگو کے لئے بہت زیادہ سازگار نہیں تھی اوپر سے وہ اینکر پرسن بھی گھریلو نوعیت کے اکا دکا واقعات لے کر بیٹھ گئی کہ پچھلے چند دنوں میں کوئی دو چار لڑکیوں کو ان کے گھر والوں نے شاید آگ وغیرہ لگا دی تھی اور وہ جل کر فوت بھی ہو گئیں۔ سیدھی سی بات ہے اگر لڑکیاں اپنی شادیوں کے فیصلے خود کرنا شروع کر دیں تو پھر ان خاندانوں کے مرد بیچارے کیا کریں؟ ان کی بھی کوئی عزت اور غیرت ہے، گندم کھاتے ہیں غصہ بھی آتا ہے۔ اور پھر ابھی تک گولیوں، کلہاڑیوں، چاقو اور زہر وغیرہ سے بھی قتل کر کے دیکھ لیا ہے پھر بھی یہ لڑکیاں باز نہیں آئیں اور آئے دن کہیں نہ کہیں کوئی لڑکی پھر فیصلہ کر گزرتی ہے اور خاندان پر اپنی مرضی ٹھونستی ہے۔ پتہ نہیں کس مٹی کی بنی ہیں یہ لڑکیاں۔ آگ لگانا صرف ایک نیا حربہ ہے کہ شاید لڑکیاں سمجھ جائیں اور خاندان کے مردوں کی عزت کو خاک میں ملانا بند کر دیں۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی ٹی وی ٹاک شو کی، وہاں پر بیٹھے ایک مرد بیرسٹر صاحب نے بول دیا کہ مولانا شیرانی صاحب غالباً کوئی چرس وغیرہ پیتے ہیں۔ بیرسٹر صاحب نے شاید اس لئے کہہ دیا چونکہ مولانا شیرانی صاحب بہت حلیم الطبع ہیں اور کسی سے لڑائی وغیرہ نہیں کرتے زیادہ تر سر جھکائے بیٹھے رہتے ہیں۔ برشوری صاحب کا آرٹیکل پڑھا ہوتا تو بیرسٹر کو معلوم ہوتا کہ وہ تو گود میں رکھی کتاب کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں ان کا سر چرس کے سوٹے کہ وجہ سے نہیں جھکا ہوتا۔ اور یہ بھی کہ شیرانی صاحب زیادہ تر چپ رہتے ہیں اور جب بولتے ہیں تو ان کی باتیں بہت دلچسپ اور مزاحیہ ہوتی ہیں اور لوگوں کو بہت پسند آتی ہیں۔ میڈیا اور عام لوگ کئی روز بلکہ ہفتوں تک ان کی باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ اب تو عدالتوں میں بھی لوگوں نے ان کی باتوں کے حوالے دینے شروع کر دیئے ہیں۔ ابھی کی بات ہے ایک ساٹھ سالہ نئے نئے دلہے نے اپنی نو سالہ نئی نویلی دلہن کے ساتھ اپنے نکاح کو بچانے کی خاطر (کیونکہ طلاق کو تو بہت ناپسند کیا گیا ہے اور خاندان کو ٹوٹنے سے بچانا ہم سب کا فرض ہے) مولانا شیرانی صاحب کی بات کا ہی حوالہ دیا کہ ان کی شادی شریعت کے عین مطابق ہے۔
ہاں تو واپس آتے ہیں ٹاک شو کے قصے پر کہ مرد بیرسٹر صاحب نے چرس پینے کا الزام لگایا تو مولانا حمداللہ صاحب خاموش رہے کیونکہ وہ ایک صابر اور تہذیب یافتہ سیاست دان ہیں۔ اگر وہ خدانخواستہ کوئی اکھڑ گنوار ہوتے تو وہ ان مرد بیرسٹر پر بھی برس پڑتے لیکن انہوں نے ایسا ویسا کچھ نہیں کیا جو ایک تہذیب یافتہ گفتگو کے دائرے سے باہر ہو۔ بات جیسی بھی تھی لیکن بات کرنے والا تو مرد تھا اور گفتگو بہرحال مردوں کا حق ہے۔ حافظ صاحب چوکس رہے اور انہیں یہ شک بھی گزرا کہ اس بگڑی ہوئی خاتون ماروی سرمد نے ایک عورت ہوتے ہوئے بھی بیرسٹر کی شیرانی صاحب کے بارے میں کی گئی چرس والی بات کی تائید کی ہے۔ یہ شک ہونے کے باوجود حافظ صاحب نے کمال صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے دیکھا کہ حافظ صاحب نے ماروی پر ‘ہلکا پھلکا تشدد’ نہ کیا اور نہ ہی اس کی کوشش کی۔ انہوں نے محض اتنی سی بات کی کہ تم طوائف ہو اور یہ کہ وہ تمہاری اور تمہاری والدہ محترمہ کی کوئی شلوار وغیرہ اتار دیں گے۔ اب اس پر بھی جب وہ خاتون خاموش نہ ہوئیں تو پھر وہ کیا کرتے ہلکا تشدد تو بنتا تھا لہٰذا انہوں نے مجبور ہو کر ان کی طرف ہلکا سا ہاتھ بڑھایا وہ شاید ان کا کوئی تراہ وغیرہ نکالنا (پنجابی میں تراہ کاڈھنا کہتے ہیں) چاہتے تھے لیکن ٹی وی کیمرے بند ہو گئے اور حسب معمول اشتہارات کا دور چل پڑا۔ اتنی سی بات پر جو ہنگامہ شروع ہو گیا ہے اللہ معافی بات کا بتنگڑ بنانا تو کوئی ان خواتین سے سیکھے جنہوں نے اپنی مرضی کی شادیاں کی ہوئی ہیں اور بگڑ گئی ہیں۔ اگر ان کے گھروں کے مرد غیرت مند ہوتے تو ان کا قصہ کب سے تمام ہو گیا ہوتا۔
یہ ماروی سرمد بھی میرا خیال ہے کہ کسی مغرب زدہ گھر میں پیدا ہوئی ہے ورنہ اس نے یقیناً پسند کی شادی کی کوشش میں کام آ جانا تھا اور اس ٹی وی ٹاک شو وغیرہ میں بدمزگی کی نوبت ہی نہ آتی۔ خیر اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ اور اس طرح کی کافی عورتیں بچ نکلی ہیں اور حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں
یہ بات تو اب نوشتہ دیوار ہے کہ عورتیں، گھروں سے باہر، اب صرف زبان سے کنٹرول ہونے والی نہیں ہیں۔ چند دن قبل اسمبلی میں خواجہ صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور انہیں بھی ایک عورت کی ہوٹنگ سے بچنے کی خاطر سپیکر صاحب سے خاص مدد مانگنی پڑی۔ خواجہ صاحب غصے میں شاید نام بھول گئے اور ٹریکٹر ٹرالی کہہ دیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ واقعہ بھی اسی سلسے کی ایک کڑی ہے۔ اور اسلامی نظریاتی کونسل کو عورتوں کے تحفظ والے بل کو پاس ہونے سے پہلے ہی اس میں کچھ ترامیم کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ جو ہلکی پھلکی پھینٹی کی اجازت پہلے گھر تک محدود تھی اس کا دائرہ تھوڑا بڑھانا پڑے گا۔ اس کی اجازت ٹی وی ٹاک شوز اور اسمبلی میں بھی دینی پڑے گی اور خاوند کے علاوہ یہ اجازت کچھ اور حضرات جیسے مرد رفقائے کار یا شریک گفتگو وغیرہ کو بھی دینی پڑے گی۔ ورنہ معاملات مردوں کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔