خواجہ سراؤں کے ساتھ ایک افطار پارٹی
خواجہ سراؤں کے ساتھ ایک افطار پارٹی ……… تحریر صنوبر سہیل
افطار پارٹیاں ہمارے رمضان کلچر کا خوبصورت حصہ ہیں۔ دن بھر گرمی کی شدت اور روزے کی وجہ سے جہاں معمولات زندگی تھم سے جاتے ہیں وہیں افطار کا وقت مل بیٹھنے کا بہترین ذریعہ بنتا ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی افطار پارٹیاں ہوں یا مخیر حضرات کی طرف سے سڑکوں اور میدانوں میں سجائے گئے دستر خوان ہوں افطاری کے یہ اجتماع اسی تازگی اور خوش دلی کو پیش فرض سمجھ کر منعقد ہوتے ہیں جو افطار کے وقت روزہ دار کو میسر ہوتی ہے۔ چنانچہ روزہ دار ہوں یا روزہ خور ہردو ایک سی خوشگواری اور نجات کا احساس لیے باہمی طور پر وقت گزارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افطار پارٹیاں کدروت ختم کرنے اور دوریاں مٹانے کا کارآمد نسخہ ہیں۔ ایک ایسی ہی افطار پارٹی جو گذشتہ جمعہ راولپنڈی صدر میں ترتیب دی گئی بہرحال ایک حوالے سے منفرد تھی۔ محروم اور معاشرے سے کٹے ہوئے طبقوں سے ازسرنو تعلق استوار کرنے کی نیت سے یہ افطار پارٹی خواجہ سراوں یا ہیجڑوں کے ساتھ رکھی جارہی تھی۔ اس کا اہتمام سکول کے ان بچوں نے کیا تھا جو Youth Exchange and Studies پروگرام کے تحت اپنا ایک تعلیمی سال امریکہ گزار کر واپس آئے تھے۔ اس پروگرام کے تحت یہ بچے تعلیم کے دوران ایک سال کسی امریکی خاندان کے ساتھ ان کے گھر میں خاندان کا حصہ بن کر رہتے ہیں اور انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ اپنے وطن واپس جا کر وہ اپنی تعلیم کے دوران بھی سماجی خدمت کے کسی منصوبے پر کام جاری رکھیں گے۔ تربیت اور خدمت کا یہ امتزاج بہرطور لائق تحسین ہے۔
ایسے ہی بیس بچوں نے مل کر چالیس ہزار روپے اکٹھے کیے اور راولپنڈی صدر میں ہیجڑوں کے گرو ببلی جی اور ان کے چیلوں کو افطار کی دعوت دی۔ ببلی جی نے بچوں کے منصوبے اور جذبے کو سراہتے ہوئے نہایت خوشی سے دعوت قبول کی اور 23 جون کو 5 بجے شام ہمیں اپنے مکان پر آنے کو کہا جہاں یہ سب انتظام کیا جانا تھا۔ باہمی طور پر اکٹھی کی گئی رقم سے بچوں نے ببلی جی اور ان کے تقریبا چالیس ساتھیوں کے لیے افطاری کا سامان اور تحائف خریدے۔ ہم کچھ رضاکار وقت سے پہلے ہی پہنچ گئے اور خاموشی کے مختصر وقفے کے بعد بات چیت کا آغاز ہوا۔ اس دوران باقی بچے بھی افطاری کا سامان لے کر آگئے۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ایسے تھے جو زندگی میں پہلی بار ہیجڑوں کے اتنے قریب بیٹھے تھے۔ ہمارے لیے یہ سب عجیب تھا کہ ہیجڑے بھی جنہیں عام طور پر انسان یا “مکمل” انسان نہیں سمجھا جاتا اور نفرت و حقارت سے دیکھا جاتا ہے اپنے گھر ہماری صورت میں آئے مہمانوں کو دیکھ کر ہماری طرح ہی پرجوش تھے۔ سب ویسا ہی ہورہا تھا جیسا کہ ہمارے گھروں میں کوئی مہمان آئے تو ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی ہم سے باتیں کررہا تھا تو کوئی بچوں کو سبزیاں کاٹنے میں مدد دے رہا تھا۔ ایک برتن اتار کر لارہا ہے تو دوسرا نہا کر نئے کپڑے پہنے مہمانوں بیچ خوش خوش بیٹھ رہا ہے۔ اجنبیت کا وہ احساس جو آج تک ہمارے اور ان کے درمیان پردہ رہا تھا آج انہیں قریب سے دیکھنے پر ختم سا ہوتا دکھائی دیا اور ہیجڑے بھی اپنے جیسے انسان لگے۔
ببلی جی نے اس سوال پر کہ وہ اپنے معمولات زندگی کیسی چلاتی ہیں ہم سب کو یہ بتا کر حیران کردیا وہ NCA راولپنڈی میں ایک کینٹین چلانے کے علاوہ ایک بیوٹی پارلر اور کپڑے کی دکان بھی چلا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ “وجود” نامی ایک ادارے کی نگرانی بھی ان کے ذمے ہے جس کے ذریعے وہ اپنے طبقے کے مسائل کے حل کی کوشش کرتی ہیں۔ انہوں نے پر اعتماد لہجے میں بتایا کہ وہ سب اپنی روزی خود کما رہی ہیں۔ چونکہ اکثر ہیجڑے بڑی عمر کے تھے لہذا ببلی جی کے خیال میں ان کے طبقے کو تعلیم سے زیادہ روزگار دئیے جانے کی ضرورت تھی۔ ببلی جی کے تمام ساتھی ہی بڑے ملنسار اور مہذب تھے اور یہاں میں خصوص طور پر عیشا کا ذکر کرنا چاہوں گی۔ ایم اے کرنے کے بعد اب عیشا ایم بی اے میں داخلہ لینے کی تیاری کر رہی تھی۔ اس کی گفتگو کا اکثر حصہ انگریزی میں تھا جو ہمارے سماجی ڈھانچے میں رہتے ہوئے اس کی خوداعتمادی کا ثبوت تھا۔
اس دوران ببلی جی کے کچھ ساتھی اور کئی بچے مل جل کر افطار کا سامان بنانے میں مصروف رہے۔ یہ سارا اہتمام ببلی جی کے مکان کی چھت پر تھا اور افطار کے قریب اگر کبھی کوئی زیادہ اونچا ہنستا تو بالکل ہمارے گھر کے بڑوں کی طرح ببلی جی انہیں احترام رمضان اور قربت افطار میں دھیما بولنے کی نصیحت کرتیں۔ یہی کچھ کرتے افطار کا وقت آ پہنچا اور بچوں نے ببلی جی اور ان کے پچاس چیلوں کے ساتھ مل کر افطار کیا۔ ہیجڑوں کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی پیتے اور کھانا کھاتے ان بچوں نے کتنے ہی بند دروازے کھول دئیے تھے۔ ایکتا کے رنگوں سے سجی یہ شام افطار کے کھانے پر مل بیٹھنے سے مزید روحانی ہو گئی تھی۔ افطار سے فارغ ہونے کے بعد سب دوبارہ مل بیٹھے اور باتوں ، قہقہوں اور گانوں کا دور چلا۔ اس دوران کہیں بھی ایسا محسوس نہ ہوا کہ یہ پارٹی اسی معاشرے کے اندر ہو رہی ہیں جہاں عام طور پر اس قسم کا اختلاط ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور یوں لگا کہ دور ہوئے لوگوں کی طرف بس ایک قدم اٹھانے کی دیر ہے کہ وہ قریب آکر اپنے جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اسی احساس اور جذبے کے ساتھ محفل برخواست ہوئی۔ اس وقت تک بچوں کی خوشی دیدنی تھی اور دوہری بھی کہ ایک تو جہاں سماجی خدمت میں ان کا اپنی مدد آپ کے تحت اہتمام کیا گیا منصوبہ مکمل ہوا وہیں جڑت اور یکسانیت کا وہ تجربہ ہوا جو پرامن معاشرت کی بنیاد ہے۔ اس تجربے کی پرجوش شدت ہی اس تحریر کا پیش خیمہ ہے۔
اس تقریب کے روح رواں بچوں کی اکثریت متوسط طبقوں سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی کاوش یہ درس دینے کو کافی ہے کہ شعور انسانیت ہو تو خدمت کا کام ادارہ جاتی جھمیلوں اور تنظیمی بھول بھلیوں سے بچتے ہوئے بھی براہ راست خود سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں اس نظام تعلیم کی افادیت کا اعتراف نہ کرنا بھی بخل ہو گا جس نے کمرہ جماعت کے چاروں طرف پھیلے سماج اور اس سے جنم لیتی ذمہ داریوں کے شعور کو بھی نا صرف نصاب کا حصہ بنایا بلکہ علم کو عمل اور تربیت کو خدمت سے مشروط کیا۔ سماجی قباحتوں اور غیر معقول روئیوں کی درستی کی کوشش کرتے یہ بچے جدید تعلیم کی روشنی میں اپنا سماج دوبارہ سے ان بنیادوں پر کھڑا کرنے کی تگ و دو میں ہیں جہاں انسان کو انسان سے دور کرنا ممکن نہ ہو۔ خواجہ سراوں کے ساتھ افطار اسی جذبے کا ایک اظہار تھا اسی لئے اس کا نام بھی “افطار ود پیار” رکھا گیا۔ تاہم یہ اعتراف کرنے میں مضائقہ نہیں کہ یہ سارا پروگرام محض جذبہ خدمت کے تحت نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لئے بقول غالب “شوق فضول و جرات رندانہ چائیے”۔ اس کی وجہ خواجہ سراوں کے بارے میں عمومی طور پر پایا جانا والا مغائرت کا تصور اور اس سے پھوٹتے انفرادی و سماجی روئیے ہیں۔
فطرت کو مرد و عورت کی دوئی تک محدود سمجھنے سے خواجہ سراوں کو ادھورا یا نا مکمل انسان سمجھا جاتا ہے جو فطری وظیفے کو ادا کرنے کا اہل نہیں۔ چونکہ معاشرت کی بنیاد خاندان اور خاندان کی بنیاد مرد و عورت کے جوڑے پر ہے لہذا روایتی معاشرے میں ایک خواجہ سرا کے لئے کوئی مقام نہیں۔ جب کہ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جنس کی دو واضح تعریفات میں نہ آنے کے باوجود ایک خواجہ سرا بھی جذباتی ، عقلی اور وجودی طور پر اتنا ہی انسان ہوتا ہے جتنا کہ ایک مرد یا عورت۔ اگرچہ ووٹ کا حق ملنے کے بعد خواجہ سراوں کو اجتماعی زندگی میں برابر کا انسان تسلیم کیا گیا ہے لیکن ان سے برتی جانے والی غیریت اور نفرت کی بنیادیں سماج میں کہیں گہری ہیں اور یہ واضح کرتی ہیں کہ کس طرح ہمارا سماج ملکیت اور جنس کی اقدار پرمبنی ہے۔ بچوں کے جذبے سے سجی اس افطار پارٹی نے جہاں ہمیں مل بیٹھ کر خود کو ایک سا محسوس کرنے کا موقع دیا وہیں یہ درس بھی کہ اگر یہی انسیت اور توجہ شروع سے دی جائے تو کوئی خواجہ سرا معاشرے سے کٹ کر ذلت آمیز ذریعوں سے پیٹ پالنے پر مجبور نہ ہو۔