مانسہرہ: شہنشاہ اشوک کی عظیم سلطنت کے ستون . تحریر عدنان خان کاکڑ
اسلام آباد سے خنجراب کی طرف جاتے ہوئے خان پور ڈیم اور ہری پور سے ہوتے ہوئے ہم تقریباً ڈھائی تین گھنٹے بعد ایبٹ آباد سے گزرے۔ قراقرم ہائی وے پر واقع یہ شہر گوروں کے دور غلامی کی اہم نشانی ہے اور کسی ایبٹ نامی گورے کے نام پر بسایا گیا شہر ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ کیمبل پور اور لائلپور کی طرح اس کا نام ابھی تک تبدیل کیوں نہیں کیا گیا ہے۔ ہماری رائے میں تو لاہور اور ملتان کے نام بھی تبدیل کیے جانے چاہیے تاکہ ہم کافرانہ ناموں سے جان چھڑا کر ملک کو صحیح معنوں میں مسلمان کر سکیں۔ اور کوئی یہ تحقیق کر لے کہ مائی کلاچی مسلمان تھی یا نہیں، تو اس کے بعد کراچی کو بھی دیکھ لیں گے۔ بہرحال بات ہو رہی تھی ایبٹ آباد کی۔ تو یہ ایک اہم شہر ہے جہاں آپ ڈائیو کے اڈے پر اپنی گاڑی کھڑی کر کے ٹائلٹ جا سکتے ہیں اور خواہ رمضان ہو یا کوئی دوسرا مہینہ، آپ ڈبل ریٹ پر ہر شے بازار سے ارزاں نرخوں پر خرید کر نوش جان کر سکتے ہیں۔ بہرحال پندرہ بیس منٹ آپ یہاں آرام کریں اور آگے چل پڑیں تو گھنٹہ بھر بعد مانسہرہ آ جاتا ہے۔
مانسہرہ زمانہ قدیم سے اتنا اہم شہر رہا ہے کہ تقریباً پورے ہندوستان پر حکومت کرنے والا پہلا بادشاہ اشوک یہاں اپنی یادگار چھوڑ گیا ہے۔ اشوک کے جنوبی ہندوستان کو فتح نہ کرنے کی وجہ ہمیں تو اس کی تامل اور ملیالم زبان سیکھنے میں الجھن کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتی ہے، بہرحال سنا ہے کہ یہ علاقے بھی اس کے باج گزار تھے۔ یونانیوں کو ہندوستان سے مار بھگانے والا چندر گپت موریہ جین مذہب کا پیروکار تھا۔ اس کا بیٹا بندوسار کسی اجیویکا نامی مذہب کا پیروکار تھا جس کا فلسفہ حیات لڑائی جھگڑا کرنے والے حکمرانوں کو پسند تھا، اور اشوک بدھ مت کا ماننے والا تھا۔ لیکن بدھ مت اختیار کر کے اہنسا اختیار کرنے سے پہلے اشوک اپنے تمام بھائیوں کو مارنا اور تمام مقابل ریاستوں کو فتح کرنا نہیں بھولا تھا۔ بہرحال 268 قبل از مسیح میں تخت نشین ہونے اور 232 قبل از مسیح میں انتقال کرنے والا یہ بادشاہ ہندوستان کی سب سے بڑی سلطنت کا مالک بنا جس کی حدود میں موجود بنگلہ دیش، بھارت، نیپال، پاکستان، افغانستان اور ایران کے علاقے شامل تھے۔
اشوک کے سارے دشمن اس کی حکومت کے آٹھویں سال ہی قضائے الہی سے تلوار کے ذریعے وفات پا گئے تو وہ کافی فارغ ہو گیا۔ غالباً سارے دشمن مرنے کے بعد ہی اس نے اشوک کا نام اختیار کیا ہو گا، جس کا مطلب ہے ‘بے غم، یعنی وہ جسے کوئی غم نہ ہو’۔ سارے دشمن مر چکے تھے اور ابھی اس نے مزید اٹھائیس سال حکومت کرنی تھی۔ اس لیے اس نے بیکار بیٹھنے کی بجائے دنیا بھر میں بدھ مت کی تبلیغ شروع کر دی اور کشمیر، افغانستان، سری لنکا، ایران، ترکی، یونان، اٹلی، چین، منگولیا، کمبوڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور ویت نام وغیرہ ہر جگہ بدھ مبلغین بھیجنے شروع کر دیے تاکہ دھرم کی سیوا ہو جائے اور اس کے پچھلے پاپوں کا پرائشچت ہو۔ دوسری طرف اس نے سلطنت کے گوشے گوشے میں شیروں والے ستون لگوا دیے۔ اس میں چار شیر، چار سمت منہ کیے ایک کنول کے الٹے پھول پر بیٹھے ہوتے تھے۔ کنول اور پھول کے درمیانی حصے میں بیل، ہاتھی، گھوڑا اور بیل بنے ہوتے تھے۔ ہر دو جانوروں کے درمیان اشوک چکر ہوتا تھا جس کے چوبیس دھرے تھے جو دھرم کے چوبیس ارکان کی علامت تھے۔ بدھ شہنشاہ اشوک کا یہی شیروں والا ستون اب سیکولر بھارت کی سرکاری علامت ہے اور اسی کا یہ اشوک چکر بھارت کے جھنڈے پر موجود ہے جو کہ دور طالب علمی میں ہمیں بلاوجہ ہی مہاتما گاندھی کا چرخا لگتا تھا۔
اشوک کا یہ ستون لگوانے کے علاوہ جو شوق تھا، وہ دور جدید کے دیسی حکمرانوں سے ملتا جلتا تھا۔ ملک بھر میں جہاں بھی کوئی ہموار سی چٹان نظر آتی تھی، وہاں وہ سائن بورڈ لگوا دیتا تھا جس پر اس کی تعریف اور اس کے احکامات لکھے ہوتے تھے۔ ان چٹانوں کو اشوک کی لاٹھ کہتے ہیں اور پاکستان میں یہ مانسہرہ شہر اور مردان کے قریب شہباز گڑھی میں موجود ہیں۔
ان لاٹھوں کی شہرت سن کر ہم نے مانسہرے میں رک کر ذاتی طور پر ان کا مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم عالم لوگ جہاں بھی علم نظر آئے، وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال ہم مین قراقرم روڈ پر واقع ایک چھوٹے سے پارک میں پہنچے تو دیکھا کہ حکومت نے تین چار چٹانوں کے اوپر چھپر ڈالا ہوا ہے۔ چھپر پر جدید اور دیدہ زیب لکھائی میں چھپے ہوئے چند پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ ہم نے قریب جا کر ان کو پڑھنے کی کوشش کی تو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہم اس دو ڈھائی سال پرانی تحریر کو نہایت آسانی سے پڑھ سکتے تھے۔ دو تین لائنیں پڑھ کر مزید حیرت ہوئی کہ اس زمانے میں بھی ہندوستان میں جدید انگریزی جیسی زبان ہی بولی اور لکھی جاتی تھی۔ مگر تحریر کے آخر تک پہنچے تو علم ہوا کہ یہ تو ہزارہ یونیورسٹی والوں کا لگایا ہوا ایک تبلیغی پوسٹر تھا اور اصل تحریر تو پیچھے موجود چٹان پر کندہ ہے۔
خیر چھپر کے اندر جا کر چٹان پر موجود تحریر پڑھنے کی کوشش کی مگر وہاں کوئی تحریر ہوتی تو پڑھتے۔ ہم اردو، عربی، فارسی، ترکی، انگریزی، جرمن اور یونانی زبانوں کی تھوڑی بہت شد بد رکھتے ہیں، یعنی ان کی اے بی سی پڑھ سکتے ہیں اور شکریہ خدا حافظ وغیرہ کہنے پر قادر ہیں، لیکن ان میں سے کوئی زبان وہاں پہچان میں نہ آئی۔ بس چٹان پر چند آڑی ترچھی سی خراشیں موجود تھی جو کہ ہماری رائے میں تو شدید موسمی اثرات کے نشان تھے لیکن وہاں موجود بورڈ پر یہ یقین دہانی موجود تھی کہ یہ خراشیں اصل میں لکھائی ہے۔ ہمیں اس بورڈ پر کچھ زیادہ یقین نہ آیا مگر بعد میں کسی گورے کی تحریر پڑھی تو اس میں ان خراشوں کا باقاعدہ مطلب درج تھا۔ شہنشاہ اشوک نے اتنی محنت صرف یہ باتیں لکھنے کے لیے کی تھی:۔
دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، یہ کہتا ہے کہ میری سلطنت میں اب کوئی جاندار شے ذبح نہیں کی جائے گی یا اس کا چڑھاوا نہیں چڑھایا جائے گا۔ اسی طرح میلے ٹھیلے بھی نہیں منعقد کیے جائیں گے، گو کہ دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی چند میلوں کی اجازت دیتا ہے۔ پیا داسی، یعنی ہر شے پر محبت کی نگاہ ڈالنے والا، اشوک کا پسندیدہ خطاب تھا۔
اس سے پہلے دیوتاﺅں کے چہیتے، مہاراجہ پیا داسی کے باورچی خانے میں لاکھون جانور ہر روز پکائے جاتے تھے مگر اب اس فرمان کے جاری ہونے کے بعد صرف تین جاندار، دو مور اور ایک ہرن ذبح کیے جاتے ہیں اور ہرن بھی کبھی کبھار ہی قربان ہوتا ہے۔
اپنی ساری سلطنت میں اور یونانی بادشاہ انطیوکس کی بادشاہت اور ملحقہ راجواڑوں میں، مہاراجہ پیا داسی نے انسانوں اور جانوروں کے لیے شفاخانے قائم کیے ہیں۔ جہاں طبی جڑی بوٹیاں دستیاب نہیں تھیں، وہاں ان کو درآمد کر کے اگانے کا بندوبست کیا ہے۔ سڑکوں کے کنارے مہاراجہ پیا داسی نے انسانوں اور جانوروں کی خاطر کنویں کھودے ہیں اور درخت لگائے ہیں۔
مہاراجہ پیا داسی کی سلطنت میں ہر پانچ سال بعد اعلی اہلکار دورہ کریں گے اور اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ان ہدایات پر عمل کیا جا رہا ہے یا نہیں اور دوسرے امور بھی دیکھیں گے۔ ماں باپ کی عزت کرنا، دوستوں سے سخاوت کرنا، واقفوں، رشتہ داروں، برہمنوں اور جوگیوں کی خدمت کرنا اچھی بات ہے۔ جانداروں کا نہ مارنا اچھا ہے، پیسہ خرچنے میں اعتدال کرنا اور بچت کرنے میں بھی اعتدال کرنا اچھی بات ہے۔ افسران ان سب باتوں پر عمل کرنے کا جائزہ لیں گے۔
گزشتہ کئی سو سال سے جانداروں کو مارنا اور ماں باپ کی عزت نہ کرنا، دوستوں سے کنجوسی کرنا، واقفوں، رشتہ داروں، برہمنوں اور جوگیوں کی خدمت سے کترانے کا رویہ بہت بڑھ گیا تھا۔ لیکن اب دیوتاؤں کے چہیتے کے فرامین فطرت کے باعث ہر طرف جنگی نقاروں کی صدا کی بجائے قانون فطرت اور دھرم کی پکار سنائی دیتی ہے۔ آسمان میں رتھوں، مقدس ہاتھیوں، آگ اور دوسری ملکوتی چیزیں کئی سو سال سے دکھائی دینا بند ہو چکی تھیں مگر اب مہاراجہ پیا داسی کے دور میں نیکیاں بڑھ جانے سے یہ سب دوبارہ دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ فرمان اسی لیے لکھا گیا ہے کہ لوگ ان نیکیوں کا اہتمام کریں اور انہیں ہرگز بھی کم نہ ہونے دیں۔
بھلائی کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ جو شخص کچھ اچھا کرنا چاہتا ہے، اسے پہلے کچھ بہت ہی کٹھن کام کرنا پڑتا ہے۔ مہاراجہ پیا داسی نے کئی بہت اچھے کام کیے ہیں اور اگر دنیا کے خاتمے تک مہاراجہ پیا داسی کے بیٹے اور ان کے بیٹے بھلائی کریں گے تو بہت اچھا ہو گا۔ لیکن ان میں سے جو بھی ان کو نظرانداز کرے گا، وہ بدی کرے گا۔ سچ ہے کہ بدی کرنا بہت آسان ہے۔
مہاراجہ پیا داسی نے بہت سے نیک دل پروہت مقرر کیے ہیں جو دن رات لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ وہ بڑوں بوڑھوں بچوں عورتوں سپاہیوں تاجروں قیدیوں سب کی بھلائی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ماضی میں ریاستی امور کے بارے میں اطلاعات بادشاہ تک ہر وقت نہیں پہنچائی جاتی تھیں۔ مگر اب مہاراجہ پیا داسی نے حکم جاری کیا ہے کہ بے شک میں کھانا کھا رہا ہوں، حرم میں ہوں، خوابگاہ میں ہوں، رتھ پر ہوں، باغ میں ہوں یا جس حال میں بھی ہوں، مجھے عوام کی حالت کے بارے میں اطلاعات فوراً ملنی چاہئیں تاکہ میں ان کی پریشانی دور کر سکوں۔ بلاشبہ لوگوں کی فلاح ہی میری حکومت کی بنیاد ہے۔ اس سے بہتر کام کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لوگوں کی زندگی کو خوشی سے بھر دینا مجھ پر ایک قرض ہے جو میں ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اسی لیے چٹانوں پر یہ قوانین فطرت لکھے گئے ہیں تاکہ یہ بہت مدت تک باقی رہیں اور میرے بیٹے، پوتے، پڑپوتے ان کے مطابق دنیا کی بھلائی کے لیے کام کریں۔ لیکن یہ بہت زیادہ محنت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، یہ چاہتا ہے کہ تمام مذاہب ہر جگہ ہونے چاہئیں کیونکہ یہ تمام مذاہب نفس پر کنٹرول کرنے اور دل کی صفائی ہی چاہتے ہیں۔ لیکن لوگوں کی مختلف خواہشات اور چاہتیں ہیں، اور انہیں وہ سب کرنا چاہیے یا اس کا کچھ حصہ۔ لیکن وہ لوگ جو بڑی نعمت پاتے ہیں لیکن خود پر قابو نہیں پا سکتے اور ان کا قلب صاف نہیں ہے، وہ شکر گزار نہیں ہیں اور خلوص سے خالی ہیں، وہ کمینہ فطرت لوگ ہیں۔
ماضی میں بادشاہ سیر و شکار پر جایا کرتے تھے اور عیش و عشرت کے دلدادہ تھے۔ مگر اپنی تخت نشینی کے دس سال بعد دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، مقامات مقدسہ کی زیارات، قانون فطرت کی تعلیم، سادھووں اور برہمنوں کی خدمت، بوڑھوں اور اہل دیہات کی خدمت کے لیے ہی دورے کرتا ہے۔ اس کام سے دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، خوش ہوتا ہے اور اسے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ یہ خدمت ایک اور ہی طرح کی دولت ہے۔
دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، یہ کہتا ہے کہ وہ شہرت اور شان کسی کام کی نہیں ہے جو کہ عوام کی خدمت کر کے نہ ملے۔ صرف ایسی شان و شہرت ہی مہاراجہ پیا داسی چاہتا ہے کہ اس سے لوگوں میں بدی ختم ہوتی ہے۔
دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، تمام مذاہب کے رہنماؤں اور ان کے خاندان کا احترام کرتا ہے اور ان کی خدمت میں نذرانے پیش کرتا ہے۔ لیکن مہاراجہ پیا داسی ان نذرانوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتا ہے جتنی اس امر کو دیتا ہے کہ تمام مذاہب کی بنیادی تعلیمات خوب پھلیں پھولیں۔ یہ افزائش مختلف طریقوں سے ہوتی ہے مگر ان کی جڑ ایک ہی ہے، اور وہ ہے زبان پر قابو پانا۔ اور زبان پر قابو یہ ہے کہ کسی بہت بڑے سبب کے بغیر اپنے مذہب کی بڑائی نہ جتلائی جائے یا دوسرے مذہب کی برائی نہ کی جائے۔ اگر تنقید کی واقعی کوئی ضروری وجہ ہے تو اسے نہایت شائستہ انداز میں کیا جانا چاہیے۔ لیکن دوسرے مذاہب کی عزت کی جانی چاہیے۔ ایسا کرنے سے اپنا مذہب ہی فیض پاتا ہے اور دوسرے مذاہب بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو کوئی بھی حد سے بڑھی ہوئی عقیدت کے ہاتھوں مجبور ہو کر سوچتا ہے کہ ‘میں اپنے مذہب کی شان بڑھاتا ہوں’، انجام کار وہ اپنے مذہب کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔ اسی وجہ سے مذاہب کے درمیان مکالمہ ضروری ہے۔ ہر شخص کو دوسرے مذاہب کے عقائد کو جاننا اور ان کا احترام کرنا چاہیے۔ دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، یہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ دوسروں کے مذاہب کے بارے میں جانتے ہوں۔
دیوتاﺅں کا چہیتا، مہاراجہ پیا داسی، یہ فرمودات اپنی تمام سلطنت میں کندہ کروا چکا ہے۔ تمام فرامین ہر جگہ نہیں لکھے گئے، کیونکہ میری سلطنت بہت وسیع ہے، لیکن زیادہ تر ہر جگہ لکھے گئے ہیں اور میں مزید بھی لکھواؤں گا۔ کئی موضوعات بار بار چھیڑے گئے ہیں کیونکہ وہ بہت میٹھے ہیں اور تاکہ لوگ ان پر عمل کرنے پر مائل ہوں۔ اگر لکھے گئے کچھ فرامین مکمل نہیں ہیں، تو وہ اس جگہ کی مناسبت ہے ہیں، یا عوام کی سہولت کے لیے ایسے نامکمل ہیں، یا یہ کاتب کی غلطی سے ہوا ہے۔
ہم نے شہنشاہ اشوک کے یہ فرامین پڑھے تو سوچ میں پڑ گئے کہ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود کو ہی اپنا مقصد حیات بنا لینے والا یہ بادشاہ اپنے عوام کی دعاؤں کے باعث واقعی مالک ارض و سما کی بارگاہ میں پسندیدہ ٹھہرا ہو گا۔