کالم

لازم نہیں کہ جُڑ مریں ہم اک حیات سے۔(ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کا کالم )

ریت پریت
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ
لازم نہیں کہ جُڑ مریں ہم اک حیات سے۔
_________________________

کچھ روائتیں بنتی ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں ۔ویسے بھی انسان کی فطرت ہے کہ ہر لمحہ نئے سے نئے کی تلاش میں رہتا ہے ۔بُری روائتوں کا خاتمہ اور اچھے کاموں کی بنا ڈالنا ہی زندگی کا حق ادا کرنا ہوتا ہے۔انسان اپنی اکلوتی اور مختصر زندگی بھی کئی زندگیوں سے جڑ کر بسر کرتا ہے۔ ایک زندگی کو اس نے کئی کئی حصوں میں بانٹ رکھا ہوتا ہے۔ یوں ایک زندگی کئی چھوٹی چھوٹی زندگیوں میں بانٹ کر دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ اب جو لوگ اپنی اس زندگی میں کچھ نیا نہیں کرتے اور روائیتی طریقے سے کھایا پیا ،سال پورے کیے اور مر گئے تو گویا انہوں نے زندگی کا پینڈا کھوٹا کیا ۔وہ حیوانات و جمادات کی طرح زندگی بتا کر رخصت ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی کرنا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آج میں سو کر اٹھی تو میں نے فیصلہ کیا کہ آج کے دن میں نے اپنے منہ سے کچھ نہیں بولنا ۔سارا دن چپ رہنا ہے اور بس دوسروں کو سننا ہے۔آج دوسروں کو بات کرنے کا موقع دینا ہے۔ میرے اس فیصلے کا دن کے پہلے ایک دو گھنٹوں تک تو کسی کو پتہ نہ چل سکا۔ پھر گھر کے کسی ایک فرد نے نوٹس کیا۔ اس نے دوسرے سے بات کی۔میں یہ ساری حرکات و سکنات دیکھ رہی تھی اور انجوائے بھی کر رہی تھی بظاہر میں انجان بنی ہوئی تھی۔ آخر مجھے چپ رہتا گھر والے کتنی کو دیر دیکھ سکتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد کھسر پھسر سی شروع ہو گئی ۔ میری انکوائری شروع ہوئی کہ کہیں میری طبیعت تو خراب نہیں ۔گھر میں سب سے زیادہ بولنے والا فردِ واحد شاید میں ہی تھی اور آج مجھے ہی چپ لگ گئی ۔ان سب کے لیے یہ تبدیلی ایک انوکھی بات ایک معجزے سے کم نہ تھی۔انسانی زندگی میں چینج ہمیشہ اپنے دورس نتائج چھوڑتا ہے۔دیکھنا تو یہ ہوتا ہے کہ چینج ممکن کیسے ہو ، اس چینج کے محرکات کیا ہیں اور اس چینج کے معاشرے پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔ یہ ایک فیشن سا بن گیا ہے کہ ہر کوئی تبدیلی تبدیلی کا ورد کرتا ہے مگر یہ تبدیلی کیسی ہو اور کیسے وقوع پذیر ہو اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جو کہ بہت ضروری اور حساس بات ہے اسے سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا ہے کہ ایک سکھ کچھ دنوں سے پریشان رہنے لگا ۔شروع شروع میں تو دوستوں نے اسے نارمل لیا ۔آہستہ آہستہ اس کے کولیگز کو تشویش ہوئی کہ اتنے ہنس مکھ ، مخولی اور باتونی سکھ کو چپ کیوں لگ گئی۔ دو ستوں سے اس نے پس و پیش کرنا چاہا مگر دوست اس کی رگ رگ سے واقف تھے انہیں علم تھا کہ سردار جی یوں ہی چپ نہیں ہوئے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے ۔سردار جی بول نہیں رہے تھے مگر ان کی آنکھوں کی اداسی بتاتی تھی کہ اس اداسی کے پیچھے ایک بڑا کرب موجود ہے جس کو اس کے دوستوں نے بھانپ لیا۔آخر کار دوستوں نے سردار جی کو کیفے میں بٹھا کر کھانا شانا کھلایا اور پھر کولڈ ڈرنک سے تواضع کی۔ سردار جی نے جی بھر کے کھانا کھایا ۔ کھاتے وقت لگ رہاتھا کہ سردار جی دو تین دن سے خالی پیٹ رہے ہیں ۔کھانے کے دورانیے میں دوست آہستہ آہستہ سردار جی کو اس نہج پر لے آئے جس سے وہ پہلو تہی برت رہا تھا۔دوستوں کاکچھ کچھ اندازہ یہ بھی تھا کہ معاملہ گھر میں خراب ہوا ہے کیونکہ آفس میں تو سب ٹھیک چل رہا تھا۔از راہ تفنن ایک دوست نے کہا کہ آج کل میرا تو گھر والوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔دوسرا دوست بولا گھروالوں نے کہ گھر والی نے؟ دوست نے کہا کہ ایک ہی مطلب ہے۔یوں بات بڑھتے بڑھتے سردار جی کی طرف مڑ گئی۔سردار جی جو کئی دنوں سے اکیلے ہی اس بھٹی میں جل رہے تھے آج پھٹ ہی پڑے کہ یار دیکھو نا میں نے اسے منہ مانگی تنخواہ پر رکھا اگر چہ ڈیوٹی کوئی لمبی چوڑی بھی نہیں ہے۔بس بچوں کو سکول لے کر آنا اور واپس لانا،کبھی کبھی مجھے بھی آفس چھوڑ جانا اور بیگم کے ساتھ شوپنگ وغیرہ پر چلے جانا پھر بھی اسے ڈیوٹی کرنی نہیں آئی۔دوست سمجھ گئے کہ اسے اپنے ڈرائیور سے شکایت ہے۔یہ کون سی پریشانی کی بات تھی ڈرائیور پیشہ لوگ تو ایسے ہی ہوتے ہی ہیں تجسس یہ تھا کہ آخر ہوا کیا ؟کیا اس نے گاڑی سے پیٹرول چوری کیا یا گھر میں کوئی نقصان کیاہے؟ ایک دوست نے بات آگے بڑھائی۔نہیں ایسا تو کچھ نہیں کیا بس ایک دن موقع پرپکڑاگیا۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔بس اس دن سے پریشان ہوں ۔سردار جی نے لمبی آہ بھری توایک دوست نے پوچھا کہ کیسے پکڑا سردار جی آپ نے اس کو؟ سردار جی گھگھیائی ہوئی آواز میں بولے کہ ایک دن میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو میں آفس سے جلدی گھر چلا گیا تھا۔جیسے ہی میں اپنے گھر میں داخل ہوا ڈرائنگ روم میں سے کچھ آوازیں آرہی تھیں ۔بچے تو سکول سے ابھی واپس نہیں آئے تھے میں نے سوچا کوئی مہمان آئے ہوں گے مگر وہاں تو عجیب ہی منظر دیکھا۔وہ حرامی ڈرائیور میری بیوی کے ساتھ میرے ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھا رنگ رلیاں منا رہا تھا۔ یہ بات کہتے ہوئے سردار جی زارو قطار رونے لگے۔سردار جی کے تینوں دوستوں نے اسے حوصلہ دے کر چپ کروایا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ سردار جی روتے ہوئے کہنے لگے کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آخر مجھے کیا کرنا چاہیے؟؟؟؟؟؟تینوں دوستوں میں سے ایک نے کہا کہ سردار جی آپ ڈراوئیورکو فوراً چلتا کریں۔دوسرے دوست نے کہا کہ بیوی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فارغ کر دو۔تیسرے دوست نے کہا کہ دونوں کو اپنی زندگی سے نکال دو۔ سردار جی صافا جھاڑ کر یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ آج تو کچھ کرنا ہی پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔اگلے دن سردار جی صبح ٹائم سے کچھ پہلے ہی ڈیوٹی پر پہنچ گئے جو اکثر اپنے دوستوں کے بعد آیا کرتے تھے۔ جب دوست آفس پہنچے تو آج سردار جہ پہلے سے زیادہ چست لگ رہے تھے۔ دوستوں نے سردار جی کوچھیڑا۔۔۔کیا بات ہے سردار جی لگتا ہے ڈرائیور کو نکال کے بہت خوش ہیں یا بیوی کو میکے بھجوا دیا ہے۔ سردار جی کندے اچکا کر بولے کہ نہیں جی ایساکچھ بھی نہیں کیا اگر میں تم لوگوں کی ماننے لگوں تو اپنا گھر برباد کر کے بیٹھ جاؤں۔۔۔۔۔ دوست حیران تھے کہ آخر کس بات پر سردار جی اِترا رہے ہیں ۔ دوست یک زبان ہو کر بولے تو پھرآپ نے کیا حل نکالا اس مسئلے کا؟ سردار جی اکڑ کر بولے کہ :
’’بھایو! اگر میں آپ لوگوں کی مانتا تو اپنا گھر برباد کر لیتا سو میں نے وہ صوفہ ہی اٹھوا دیا ہے جو میرے گھر کی بربادی کاباعث بنا ۔اس طرح گھر بھی بچ گیا ،بیوی بھی اور ڈرائیور بھی ‘‘۔
ایسے لگتا ہے کہ ملک عظیم میں امن قائم کرنے کے لیے ہر نئی حکومت صرف صوفہ اٹھوانے کہ لا حاصل جدو جہد کرتی ہے۔لا حاصل اس لیے کہا کہ کم فہموں سے تو صوفہ اٹھوانے کی امید بھی نہیں کی جاسکتی جو صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے اسمبلیوں میں بیٹھنے کو پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔
مجھے جو آج چپ لگی ہے وہ اس والی چینج کو دیکھ کر لگی ہے جس کا ماٹو ہے: CENTER FOR HEALTH AND GENDER EQUALITY (CHANGE)
اس’’ چینج‘‘ نے وہ مشن اپنایا ہے جو اس ملک کے وہ کرتا دھرتا بھی نہیں اپنا سکے جن کے پاس سردار جی کی طرح اس ملک کے مالکانہ حقوق ہیں۔چینج انتظامیہ نے شہر یوں میں امن کا پیغام بذریعہ ذرائع ابلاغ آغاز کیا ہے۔جس میں انتہا پسندی، دہشت گردی اور تشدد پسندی کا مکمل خاتمہ کرنا ہے۔امن ، پیار، محبت، رواداری، اخوت اور انسانیت کا بول بالا کرنا ہے۔ نو جوان نسل کی بزرگوں کے زیر سایہ تربیت مقصود ہے۔ملکی ترقی کے لیے اپنے ضمیر اور شعورکو جگانا ہے۔اپنی زمے داریوں سے واقفیت رکھنا ہے۔ ملکی امن کے لیے سماجی ثقافتی ہم آہنگی کے کردار کو پیش نظر رکھنا ہے۔ ریاستی بہتری کے لیے وطن عزیز کے دانشوروں ، اساتذہ، ڈاکٹرز، صوفیا اور نو جوانوں کو ساتھ لے کر علم امن بلند کرنا ہے اور چینج لانا ہے ۔

مزید آرٹیکل
Close
Back to top button