دو جوڑے ملیشیا کھدر اور ایک جوڑی جوتے میں زندگی گذارنے والا فقیر منش ایدھی
عبدالستار ایدھی نے ساری زندگی سادگی و متانت میں گذارد دی کروڑوں روپے کے فنڈز لینے والے عبد الستارایدھی نے دو جوڑے ملیشیا کھدر کے کپڑوں میں ساری عمر گذار دی جب یہ دو جوڑے بہت خراب ہو جاتے تو دوسرے دو جوڑے بنوا لیتے اسی طرح وہ گزشتہ 20 سالوں سے جوتوں کے ایک ہی جوڑا استعمال کر رہے تھے۔ وہ علی الصبح بیدار ہوجاتے تھے اور تلاوت و ترجمہ سننے کے بعد ناشتے میں نہایت سادہ خوراک دودھ اور سوکھی روٹی کھاتے تھے جس کے بعد اپنے آفس کے امور کی انجام دہی میں مصروف رہتے دوپہر میں وہ ایک روٹی اور سالن سے دوپہر میں کھانا کھاتے ،ایدھی صاحب نے زندگی بھر نہ تو چائے پی اور نہ ہی تمباکو نوشی نہیں کی ،کھانے میں اُن کی مرغوب غزا بُھنا ہوا گوشت تھی جو وہ خود بھی بنالیا کرتے تھے۔عبدالستار ایدھی کی سادہ دلی کا یہ عالم تھا کہ کراچی کی کسی بھی مصروف شاہراہ پر سخت گرمی میں چادر بچھا کر بیٹھ جاتے اور اپنے ادارے کے لیے چندہ اکھٹا کرتے رہتے لوگ بھی اُن سے بے انتہا پیار کرتے تھے اور دامے درمے سخنے اُن کے ادارے کے لیے چندہ دیتے۔ وہ ذیابیطس اور بلند فشار خون کے مرض میں مبتلا تھے لیکن کبھی ایلو پیتھک دوا استعمال نہیں کی نہ کسی بڑے اسپتال یا ماہر معالج سے علاج نہیں کروایا،وہ اپنے مشن میں اتنے مشغول رہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں چل سکا کہ ذیابیطس و بلڈ پریشر نے اُن کے گردوں پر بہت منفی اثر چھوڑ دیا ہے۔بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویو دیتے وقت ایدھی صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ زندگی بھر سادگی اختیار کرے رکھوں گا اور ایک ہی قسم کے کپڑے زیب تن کروں گا میری زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے کسی اور چیز سے مجھے لگاؤ نہیں۔ ایدھی صاحب ایک آدمی کی طرح گذر بسر کرتے تھے اُن سے مل کر نہیں لگتا تھا کہ وہ عالمی سطح پر جانی پہچانی اور اعزاز یافتہ شخصیت ہیں غرور و تکبر اُن کی فطرت میں ہی نہیں تھی اور شہرت بھی اُن کی شخصیت میں کسی منفی تبدیلی کا باعث نہ بن سکی۔
ایدھی صاحب گذر بسر کے لیے بازار میں کپڑوں کے تھان ڈھوتے تھے انہوں نے اپنی غربت کو بہانہ نہیں بنایا بلکہ انہوں نے محنت اور لوگوں کے تعاون ایک ایسے رفاحی ادارے کی بنیاد رکھ دی جس کی مثل دنیا کے اعلٰٰ ترین اور مہذب معاشروں میں بھی نہیں ملتی………