پاکستان میں کافکا کے قدیم مخطوطے کی شرح نو… تحریر حنا جمشید
کچھ دنوں سے فرانز کافکا کی کہانی ”ایک قدیم مخطوطہ“ مسلسل ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہی ہے۔ جس کی ابتدا کچھ ان الفاظ سے ہوتی ہے۔
” ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کے دفاعی نظام میں بہت سی کوتاہیاں رہنے دی گئی ہیں۔ اب تک ہم نے اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں رکھا اور اپنے روز مرہ کے کاموں میں لگے رہتے تھے۔ لیکن حال میں جو باتیں ہونے لگی ہیں انھوں نے ہمیں تنگ کرنا شروع کر دیا ہے“۔ ایک قدیم مخطوطہ۔۔ فرانز کافکا (ترجمہ: نیر مسعود)
فرانز کافکا کی کہانیاں اپنے واضح اندازِ بیاں کے بوجود مفاہیم کے اعتبار سے بڑی حد تک مبہم ہیں۔ تاہم سوچنے والوں کے لئے معنی کے کئی در وا کر جاتی ہیں۔ کافکا کی یہ علامتی کہانی ایک ایسی ریاست کے حالات سے مشروط ہے جہاں باشندے اپنے ملک میں ہونے والے حادثات اور واقعات میں محض ایک تماشبین کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ملک کی سلامتی کو در پیش وہ عفریت ان کے اپنے دروازوں پر دستک دینا شروع کر دیتی ہے۔ کہانی میں موجود ملک کے عوام جو ایک طرف تو اس ماحول سے خوفزدہ ہیں تاہم دوسری طرف وہ اپنی زندگی کے معمولات میں یوں منہمک ہیں جیسے انھیں اب یہ سب دیکھنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔
”میرے یہاں سے بھی وہ بہت سا بڑھیا مال لے چکے ہیں۔ لیکن میں اس کی شکایت بھی نہیں کر سکتا، اس لئے کہ میں دیکھتا ہوں کہ قصاب بیچارے پہ کیا گزرتی ہے۔ جیسے ہی وہ گوشت لے کر آتا ہے، وحشی اس کا سارا گوشت لپک لیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہڑپ کر جاتے ہیں۔۔۔ قصاب کے اوسان گم ہیں لیکن اس کی اتنی ہمت نہیں کہ وہ گوشت لانا بند کر دے۔ ہم لوگ بہر حال اس کی مشکل کو سمجھتے ہیں اور اس کے لئے کام چلانے بھر روپے کا بندو بست کر دیتے ہیں۔ اگر ان وحشیوں کو گوشت نہ ملے تو وہ کیا سوچیں۔ یوں بھی جب ان کو روزانہ گوشت مل رہا ہے معلوم نہیں وہ کیا سوچتے ہوں۔“
کافکا کی کہانی کے یہ کردار حالات کے جبر کو تقدیر کا لکھا مان کے زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہیں جو آگے بڑھ کر حالات کا مقابلہ کرنے کو بھی تیار نہیں۔ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہم بھی کافکا کی اسی کہانی کے کردار ہیں۔ ہمارے ارد گرد ملکی سیاسی، معاشی اور معاشرت حالات اس قدر دگر گوں ہو چکے ہیں کہ ہم منجمد احساسات کے ساتھ ایک خبر سے دوسری خبر تک کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ ہماری سماجی اقدار، رواداری اور انسانیت مہذب بننے کی دوڑ میں دور کہیں گم ہو چکی ہیں۔ ہم محض تماشبین بن کے رہ گئے ہیں۔
کسی بھی ملک کے سماجی اور سیاسی نظام کی نشوونما اور سالمیت، اس کی اپنی وضع کردہ بنیادی معاشرتی اقدار میں مضمر ہوتی ہیں۔ اگریہ اقدار جب ٹوٹ پھوٹ جائیں تو سماج اور سیاسی نظام زوال پذیر ہوجاتے ہیں۔ ہمارا سماجی بحران اس کا ایک ٹھوس ثبوت ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو اپنے ارد گرد دیکھئے۔ ہم آج عدم برداشت، غیر انسانی سلوک اور فرقہ واریت کے بد ترین دورسے گزر رہے ہیں۔ قتل و غارت، جنھیں ہم بسا اوقات فخر سے اپنی غیرت گردانتے ہیں، خودکش بم دھماکے جو ہم مذہب کے لبادوں میں چھپ کے کرتے ہیں، پیلٹ گن کے استعمال سے مسخ شدہ چہرے جو ہمارے بے حس رویوں کو اپنے زخموں سے ادھیڑتے رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ آئے دن کے خود ساختہ حادثات کے سبب سسکتے، بلکتے اور سینہ کوبی کرنے والے چہرے اور اس پہ مستزاد اپنی ریٹنگ بلند کرنے کے اور سنسنی پیدا کرنے کے چکر میں پیش پیش میڈیا اور ٹی وی چینلز، کیا یہ سب ہمیں تماشبین بنانے پہ مصر نہیں۔ کیسی کیسی سفاک حقیقتیں ہیں جو ہمارے ارد گرد سانس لے رہی ہیں اور ہم ہیں کہ دم سادھے ہر آن بس یہی ایک بات سوچتے ہیں کہ جانے اگلا تماشا کیا ہو۔
در حقیقت جمہوری اور غیر جمہوری طاقتوں کے درمیان جو عدم توازن پایا جاتا ہے اس کی تہہ میں کارفرما یہ سماجی اقدار ہی ہوتی ہیں جو جمہوریت کا پلڑا ہمیشہ بالاتر رکھتی ہیں۔ رواداری، برابری اور انصاف یہ تین ہماری بنیادی سیاسی اورسماجی اقدار ہیں جو براہِ راست عوام اور حکمران دونوں سے مشروط ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تین بنیادی اقدار ہماری زندگیوں میں آخر کس حد موجود ہیں؟ لیکن جب اس سوال کا جواب جاننے کیلئے جب ہم اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو ہمیں سوائے اندھیرے کے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ بد قسمتی سے ہم منافقت کے اس درجے پہ فائز ہیں جہاں ہم ان بنیادی اقدار کی تشہیر تو اپنے بلند آہنگ نعروں اور دعووںسے خوب کرتے ہیں لیکن اپنے انفرادی اور اجتماعی رویے میں انھیں شامل کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور جب کبھی کوئی ہماری توجہ ہمارے اس کمزور اور پژ مردہ رویے کی جانب مبذول کراتا ہے تو ہم اسے عدم برداشت اور اپنی بات کو حتمی ماننے کے زعم میں سوائے غیظ، غضب اوربدسلوکی کے اور کچھ نہیں دیتے۔ یوں ہماری بنیادی، معاشی و سماجی اقدار ہمارے انفرادی و اجتماعی جنون کی زد میں آکر سب سے پہلے تلف ہو جاتی ہیں۔
آخرکیا وجہ ہے کہ ہم دو انتہاﺅں پہ اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں ایک طرف تو ہم ریاست کے سبھی تکلیف دہ معاملات، حادثات اور حالات سے خود کو بے بس اور لاتعلق ظاہر کرکے ایک طرف ہو جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہم عدم برداشت کے اس کنارے پہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں جہاں ہمیں ہمارے نظریے سے اختلاف رکھنے والے لوگ حقیر اور پست قامت نظر آتے ہیں۔ ہم اختلاف رائے تو کجا صحت مند مکالمے کو بھی جگہ دینے کو تیار نہیں۔ ہاں اپنی رائے اور نظریات ہم دوسروں پہ مسلط کرنا اپنا اولین فرض اور ذمہ داری خیال کرتے ہیں اور اس پر پوری طرح کاربند بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان حالات کو یہاں تک پہنچانے کا ذمہ دار محض ہمارا غیر سنجیدہ رویہ اور اخلاقی و سماجی اقدار سے روگردانی نہیں بلکہ ان نامساعد حالات کی ذمہ داری اور بھی چند عناصر پہ لاگو ہوتی ہے۔ صفِ اول میں ہمارے وہ سطحی دانشور حضرات ہیں جو جراحی، بخیہ گری اور رفوسازی سے بدرجہا واقفیت رکھتے ہیں۔ جنھیں پینترے بھی گرگٹ کے رنگ بدلنے کی طرح آتے ہیں۔ میڈیا، ٹی وی چینلز اور اخبارات محض اپنی مقبولیت اور ریٹنگ بڑھانے کے لئے ان دانش ور حضرات کا سہارا لیتے ہیں اور ان چرب زبان دانشوروں کے ذریعے عوام کے درمیان نازک اور متنازعہ امور پہ اختلافی مباحث کو خود جنم دیتے ہیں اور پھرخود ہی انھیں ہوا دے کر صورتحال کو سنگین بنا دیتے ہیں۔ دوم مذہبی سطح پہ فرقہ واریت اور اس کے نتیجے میں فروغ پانے والا تشدد بھی حالات کو بدترین بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم بھلے ہی اپنی زندگی میں مذہب کا ٹھیک سے مفہوم نہ جانتے ہوں لیکن دوسروں کی زندگی مذہب کی افادیت اور اس کے نفاذ سے بھلا ہم کیسے چوک سکتے ہیں۔ مذہب سے وابستہ نام نہاد عالم، فاضل طبقہ ذاتی عناد اورتعصب کی بین بجا کر اشتعال انگیزی اور تشدد کو فروغ دیتا ہے اور عوام جو مذہب کی بنیاد پر پہلے ہی کئی دھڑوں میں منقسم ہے محض عقیدت اور فرقے کی بنیاد پر بلا سوچے سمجھے نفرت کی اس آگ میں کود پڑتی ہے۔ سوم اقتدار پہ فائز ڈولتی حکومتیں اور اندرونِ ملک مداخلت اور چہ مگوئیاں کرنے والی بیرونی طاقتیں بھی اس سب سے مستثنیٰ نہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ کسی بھی معاشرے میں امن کا نفاذ جمہوریت سے مشروط ہے۔ لیکن یہاں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جمہوریت کے اس وقت تک کوئی معنی نہیں ہوں گے جب تک کہ اسے رواداری، برابری اور انصاف سے نہ جوڑا جائے۔ جبکہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عدم مساوات کی مثالیں طبقاتی تفاوت کی صورت میں ہمارے چاروں اور بکھری ہوئی ہیں۔ پاکستان کو درپیش بیشتر مسائل کی جڑیں بھی آپ کو یہیں جا کر ملیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج جمہوریت محض دل کو تسلی دینے والے ایک کھوکھلے نعرے یا امید کی ایک ڈولتی کرن سوا کچھ نہیں۔ ہم جمہوریت سے پیوستہ ان بنیادی اقدار کو شاید کہیں بہت پیچھے تیاگ آئے ہیں۔
ہمارے سماجی مسائل کو حل کرنے کے لئے سب سے زیادہ جس چیز کے لئے شور مچایا جاتا ہے وہ سرمایہ ہے لیکن اس واویلے میں ہم اکثربھول جاتے ہیں کہ روپے سے بھی زیادہ ہمیں جو چیز درکار ہے وہ فرض شناسی ہے۔ ایک ایسا جذبہ جو آہستہ آہستہ عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری قومی سلامتی، امن و امان اور معاشرے کا سدھار ہمارے اجتماعی شعور کے ساتھ ساتھ ہماری انفرادی کاوشوں کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ ہم دوسروں کی اصلاح تو چاہتے ہیں لیکن اپنی نہیں۔ ہم محض ایک انگلی اٹھاتے ہیںاور چن چن کراپنے نشانے پہ رکھے مسائل کو کوستے ہوئے اپنے معاشرے کو ہولناک، تباہ کن، بدبو دار اورجانے کیا کیا کچھ کہہ دیتے ہیں۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم صرف تماشبین ہی بنے رہنا چاہتے ہیں؟ کیا سماج کے ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہم پہ سماجی اصلاح کا کوئی فرض عائد نہیں ہوتا؟ اگر ہاں تو پھر پہلا قدم ہمیں اپنی ذات کی طرف بڑھانا ہوگا۔ ہماری شخصی ذمہ داری ہی ہمیں اجتماعی اصلاح کی طرف گامزن کرے گی۔ ہمیں ہماری سماجی اقدار رواداری، برداشت اور حسنِ سلوک کواپنانا ہوگا۔ ہمیں انصاف اور برابری کے لئے لڑنا ہوگا۔ ہمیں نفرت کے ان دانش کدوں اور ریاکاری کے مذہبی طلسم کدوں سے نکلنا ہوگا۔ ہمیں سوال کرنے والوں کے مقفل ہونٹ کھولنا ہوں گے کہ بلا شبہ یہی جمہوریت ہے۔
یوں اگر جمہوریت اور سماجی اقدار کی جڑیں صحیح معنوں میں معاشرے میں پیوست ہو جائیں تو یہ نہ صرف ہمارے سماج کے دیرنہ امراض کے علاج کی جانب پہلا قدم ہو گا بلکہ ہماری بقاء سالمیت، سماجی رواداری اور امن کا بھی خوش آئند پیغام ہوگا۔ نہیں تو ہم بھی کافکا کی کہانی کے اسی اختتام میں قید ہو کررہ جائیں گے۔
”آخر ہونا کیا ہے‘۔ ہم سب خود سے پوچھتے ہیں۔ ’ہم کب تک یہ بوجھ اور اذیت اُٹھا سکتے ہیں؟ پھاٹک بند پڑا ہے۔ فوجی محافظ جو ہمیشہ اوپچی پہن کر باہر نکلا کرتے تھے، اب سلاخ دار کھڑکیوں کے پیچھے رہتے ہیں۔ ملک کی حفاظت ہم کاریگروں اور بیوپاریوں پر چھوڑ دی گئی ہے۔ لیکن یہ کام ہمارے بس کا نہیں ہے، نہ ہم نے کبھی اس کی اہلیت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ کوئی نہ کوئی غلط فہمی ہے اور یہی ہم کو تباہ کر کے رہے گی۔ “