ایک منافق اور بچہ خور قوم کا قصہ ………… تحریر : فرح خان لودھی
ایک منافق اور بچہ خور قوم کا قصہ ………… تحریر : فرح خان لودھی
لاہور شہر سے 250 بچے اغوا۔۔۔
بڑی عام سی خبر ہے۔ ہمیں کسی کی بد حالی سے کوئی سروکار نہیں جب تک ہمارے اپنے بچے محفوظ ہیں۔ مگر ایک منٹ۔۔۔ کیا ہمارے بچے واقعی محفوظ ہیں؟
کیا ہم نے کبھی ان کو بٹھا کر پوچھا کہ ان کے اسکول ٹیچر، مدرسے کے قاری صاحب، وین والے انکل، کینٹین والا لڑکا، گلی کے نکڑ والے تنہا انکل یا کوئی کزن کبھی ان کی مرضی کے خلاف زبردستی انکو چھوتے تو نہیں؟ انکا ہاتھ زور سے تو نہیں پکڑتے؟ کبھی کوئی پڑوسی انہیں “کیوٹ بے بی” کہہ کر ان کا بوسہ لینے کے لئے زبردستی تو نہیں کرتا؟ یا پھر کبھی چاکلیٹ یا ویڈیو گیم کے بہانے کسی نے انہیں تنہائی میں ملنے کو کہا؟
کراچی کا ایک اسکول ٹیچر بچیوں کو ایکسٹرا کلاس کے بہانے اسکول کے اوقات کے علاوہ تنہائی میں بلا کر نازیبا حرکات کرتا رہا۔ اس کیس کا کیا بنا؟ ہم میں سے کئی ایسے لوگ ہیں جو ایسے واقعات سے واقف ہیں کہ مدرسے کے مولوی یا گھر آئے قاری صاحب کا بار بار پیٹھ پر ہاتھ پھیرنا یا بچوں کے ہاتھ کو اپنی مٹھی میں گھنٹوں مضبوطی سے دبائے رکھنا اور ایسے ہی فرسٹریٹڈ لمحات کا عذاب۔ اور تو اور بس کے کنڈیکٹر اور کینٹین والے بھائی صاحب بھی پیسوں کی لین دین کے وقت اپنا ہاتھ بچیوں کے ہاتھ سے مسلنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ لیکن کسی بھی گھر میں بچوں کو یہ شعور نہیں دیا جاتا کیونکہ “بچوں سے ایسی باتیں نہیں کی جاتیں۔”
ہماری قوم بھی بڑی منافق ہے۔ انٹرنیشنل فلائٹ میں سب سے پہلے “مشروب مغرب” نوش فرمائے گی مگر کھانا حلال چاہئیے۔ رات بھر موبائل پر میا خلیفہ اور صبح اٹھتے ہی فیس بک پر “خلافت زندہ باد” اور “اردوگان مرد مجاہد” لکھنا نہیں بھولتے۔ آفس میں رشوت کے بغیر کام نہیں کرتے اور گھر پر ہر جمعہ “یا سلام’” کا ختم دلواتے ہیں۔ ماں بیٹی کو فون پر شوہر کو قابو رکھنے کے سبق دیتی ہے اور اپنی بہو کو بیٹا قابو کرنے پر کوسنے دیتی ہے۔
منافقت کے ساتھ ساتھ اپنی قوم نسیان کے مرض کا بھی شکار ہے۔ ہم بہت جلد ہی بھول جاتے ہیں۔ جیسے کہ قصور کے 270 بچے، لاہور کی سنبل، سندھ میں جھلسائی گئی ماریہ، مدرسے کی چھت سے لٹکتی ایک بچے کی برہنہ لاش، لاہور کے جلسے میں خوف سے چیختی وہ لڑکیاں اور سیالکوٹ میں درندگی کے شکار دو بھائی۔ قوم تبصرہ کر کے بھول جاتی ہے اور حکمران نوٹس لے کر۔
ہم وہ لوگ ہیں جو گندگی کو چھپاتے ہیں اور جب بدبو آنے لگتی ہے تو معصومیت سے پوچھتے ہیں “ارے یہ بو کہاں سے آ رہی ہے؟” ہم بہت جلد لاہور کے بچوں کو بھی بھول جائیں گے کیونکہ ان بچوں کے مجرم بھی ہم میں سے ہی ہیں اور کوئی نہیں۔ یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کر کے انکی تربیت نہیں کریں گے۔ یہ معاشرہ گناہ پہ پردہ اور گنہگار پر چادر ڈالتا رہے گا۔ نہ ہمارے ملا ہمیں اصل دین سے روشناس ہونے دیں گے اور نہ ہمارے اساتذہ ہمیں آزادئ اظہار دیں گے۔ ہماری قوم گوگل پر سب سے زیادہ فحش مواد دیکھنے والی قوم کا اعزاز برقرار رکھے گی اور ہم ہمیشہ زنا کرنے والے کو ‘بااثر’ اور پسند کی شادی کرنے والی کو ‘مرحومہ، متوفیہ اور نشان عبرت’ بناتے رہیں گے۔ اپنے بچوں کے مجرم بھی ہم ہیں اور گنہگار بھی کیونکہ pokemonکی تلاش زیادہ ضروری ہے۔ بچوں کا کیا ہے؟ انہیں تو بڑے ہو ہی جانا ہے