بیگم میکے ………… زندگی گلزار تحریر عمیر محمود
بیگم اپنے میکے گئی ہیں اور زندگی گلزار ہے۔ ایک دن دفتری ساتھی پوچھنے لگیں، کب لا رہے ہیں بھابھی کو؟ واضح رہے کہ ہم لاہور میں قیام پذیر ہیں اور سسرال اسلام آباد میں ہے۔ درمیان میں تقریباً چار سو کلومیٹر حائل ہیں، جنہیں پاٹنے میں دو ہزار پانچ سو روپے کا پیٹرول اور پانچ سو روپے کا ٹال ٹیکس بھی لگتا ہے۔ گویا بیگم کو لینے جانا اور واپس آنا بندے کو دس گھنٹے کے سفر اور چھ سے سات ہزار روپے میں پڑتا ہے۔ پیسہ تو یوں بھی ہاتھ کا میل ہے، بیگم کو چھوڑنے جا رہے ہوں توچبھتا بھی نہیں، لیکن کیا ضروری ہے کہ بیگم کی واپسی کے لیے بھی اسی معاشی دہشت گردی کا ارتکاب کیا جائے؟ اور پھر عاجز کو اپنی تھکاوٹ کا بھی احساس رہتا ہے۔
بیگم کی واپسی سے متعلق پوچھنے والی کو جواب دیا، “لینے تھوڑی جائیں گے، خود آئیں گی وہ”۔ خاتون سنتے ہی آگ بگولا ہو گئیں۔ کہا کس قدر بے لحاظ انسان ہیں ہم، بیگم کی پروا ہی نہیں۔ انہیں اکیلا آنے میں کتنی مشکل ہو گی۔
ہم نے سمجھانے کی کوشش کی ۔۔۔ انہوں نے کون سا پیدل آنا ہے۔ اے سی والی بس میں بیٹھیں گی، ٹھنڈے ٹھنڈے سفر کے بعد لاہور پہنچ جائیں گی، خرچہ بھی پندرہ سو کے قریب آئے گا، اڈے سے ہم وصول کر لیں گے۔
تاہم وہ اپنے موقف پر قائم رہیں۔ کہنے لگیں بیگم کو خود جا کر لانا ہماری ذمہ داری ہے اور ایسا نہ کر کے ہم شدید قسم کی فرض ناشناسی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ہم نے کہا آپ کو ان کا احساس ہے، ہمارا کیوں نہیں، جس نے چوبیس گھنٹے میں سے دس گھنٹے ڈرائیونگ کرتے ہوئے گزارنے ہیں۔ لیکن ان کی سوئی اسی ایک بات پر اٹکی رہی کہ بیگم کو میکے سے لے کر آنا شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
طرفہ تماشا یہ کہ بحث سننے والی دیگر خواتین بھی اُنہی کی ہم نوا ہوتی گئیں اور ہمارے دلائل کا وزن بیگم کی طرف داروں کے سامنے ہلکا پڑ گیا۔ توجہ غیر منطقی طرز عمل کی جانب دلائیں گے تو متعصب ہونے کا طعنہ ملے گا۔ پوچھا گیا، اگر دفتری امور میں کوئی ساتھی مدد طلب کرے تو آپ کریں گے۔ ہم نے کہا ضرور کریں گے۔ کہنے لگیں کیوں؟ یہ آپ کی ذمہ داری تو نہیں! جب دفتری زندگی میں آپ ذمہ داری سے ہٹ کر بھی امور سرانجام دے سکتے ہیں تو گھریلو زندگی میں کیوں نہیں؟
کیا واقعی یہ ہماری ذمہ داری ہے؟ اب دیکھیے کبھی انہیں بازار جانا ہے تو ہمی لے کر جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر ڈیڑھ سالہ منے سے پوچھا جاتا ہے، آپ تو ابا کے پاس ہی رہو گے نا؟ منا بول تھوڑی سکتا ہے، اس سے سوال کر کے دراصل ہمیں بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ سنبھالیے۔ ہم نیم دلی سے مسکراتے ہوئے ہاتھ بڑھاتے ہیں، منے کا بھلا ہو، ماں سے ہی چمٹ جاتا ہے اور ہمیں اٹھانا نہیں پڑتا۔ اب گھر سے بازار تک کی ڈرائیوری تو ہمیں وارے میں ہے، لیکن لاہور سے اسلام آباد اور پھر واپسی۔۔۔ اف توبہ۔
بیگم کی غیر موجودگی میں جو زندگی گلزار لگتی ہے، یہ جو روز روز بلاگ سوجھتے ہیں، یہ جو سرمستی سی چھائی رہتی ہے۔۔۔ تو فراق کی طوالت میں بھلا حرج ہی کیا ہے؟ اگر ہماری غیر ذمہ داری اس میں حائل ہے تو ہونے دیجیے نا۔ کسی کو خوش کیوں نہیں دیکھ سکتے؟