شخصیات

17اگست! جنرل ضیاء الحق کی وفات کے موقع پر خصوصی تحریر

تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصرؔ

جنرل محمد ضیاء الحق پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف اور چھٹے صدرمملکت تھے۔ آپ برصغیر پاک و ہند کے شہر جالندھر (موجودہ انڈیا) میں 12 ۔اگست 1924ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد اکبر ایک غریب کسان تھے۔ ابتدائی تعلیم جالندھر سے اور اعلیٰ تعلیم دہلی سے حاصل کی۔ 1943ء میں فوج میں نوکری کی اور 1945ء میں فوج میں کمیشن ملا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیاء میں فوجی خدمات ادا کیں ، بعد ازاں اردن کی شاہی افواج میں بھی فوجی خدمات ادا کیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پاکستان میں آگئے۔1960ء میں آپ کو ایک کیولر رجمنٹ کی قیادت سونپی گئی جسے 1968ء تک آپ نے بخوبی نبھایا۔ 1964 ء میں ترقی ہوئی، آپ کو لیفٹیننٹ کرنل بنا دیا گیااور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر کی ذمہ داری سونپی گئی۔ مئی 1969ء میں فرسٹ آرمڈ ڈویژن ملتان کا کرنل سٹاف مقرر کیا گیا اور بعد ازاں برگیڈئیر بنا دیا گیا۔ 1973ء میں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی ہوئی۔ 1975ء میں آپ کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر کور کمانڈر بنا دیا گیا۔ ترقی کا یہ سلسلہ جاری رہا اور یکم مارچ 1976ء کو آپ کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اس وقت ٹکا خان چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ 11اکتوبر 1976 ء کو آپ کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا۔1977 ء کے انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی پر عام دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ اس دھاندلی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذولفقار علی بھٹو کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع کر دیا اور یوں پاکستان کی سیاسی حالت ابتر ہو گئی جو دونوں سیاسی جماعتوں کے مابین کئی مرتبہ ہونے والے مذاکرات سے بھی بہتر نہ ہو سکی۔ بالآخر 4جولائی 1977ء کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اور پاکستان قومی اتحاد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین 17 نشتوں پر دوبارہ انتخابات کروائے جانے کا معاہدہ طے پایا۔ مذاکرات کی کامیابی اور 17 نشتوں پر دوبارہ انتخابات پر متفقہ معاہدہ کی خبر ریڈیو پاکستان کے آخری بلیٹن میں آن ائیر کی گئی۔ 5جولائی کو صبح چھ بجے کے بلیٹن میں بھی ذولفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی خبر نشر کی گئی مگر سات بجے کا بلیٹن آن ائیر ہونے سے قبل ہی فوج کی طرف سے رکوا دیا گیا اور مارشل لاء کی خبر نشر کروائی گئی۔ اس کا ایکشن ری پلے 12 اکتوبر 1999ء کو بھی دیکھنے کو ملا جب ایک فوجی نے اسلام آباد ٹی وی سٹوڈیو میں انگلش نیوز ریڈر شائستہ زید کے سامنے سے بلیٹن کھینچ لیا تھا۔ (جب جنرل پرویز مشرف نے اختیار سنبھالا)۔ذولفقار علی بھٹو کو صبح2 اور 3 کے درمیان گرفتار کر کے مری کے ایک گیسٹ ہاؤس میں پہنچا دیا گیا تاہم جنرل محمد ضیاء الحق کے میڈیا مشیر کرنل سالک کی جانب سے جاری شدہ ہینڈ آؤٹ کے احکامات تھے کہ وزیرِ اعظم کے لئے گرفتار یا معذول کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ ایڈیٹر صاحبان جناب ممتاز حمیدراؤ، جاوید پراچہ اور خالد محمود ربانی سرجوڑے بیٹھے تھے کہ کیا کہا جائے؟ حکم عدولی کی مجال کہاں، خیر جو خبر نشر ہوئی وہ کچھ یوں تھی، ’’فوج نے وزیرِ اعظم ذولفقار علی بھٹو کو اپنی حفاظت میں لے کے حالات کی بہتری تک ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے‘‘۔شام کو لاہور کے ایک کمانڈر نے حکم نامہ جاری کیا کہ رات بارہ بجے کے بعد گھر سے مت نکلیں، کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والے کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی۔ جنرل ضیاء الحق نے آئین کو معطل نہیں کیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کروانا ہے لیکن یہ 90 دن 11سال پر محیط ہو گئے۔ بعد ازاں ذولفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ چلایا گیا جس میں ہائیکورٹ نے انہیں سزائے موت سنائی اور سپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کر دی۔ 4 اپریل 1979 ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، آج بھی ان کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔ بھٹو کو پھانسی دئیے جانے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دور رکھا جائے، اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے بار بار الیکشن کے وعدے ملتوی کئے اور عام انتخابات سے گریز کیا۔ دسمبر 1984 ء میں اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔ فروری 1985 ء میں غیر جماعتی انتخابات کروانے کا اعلان کیا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کی وجہ سے محمد خان جونیجو کے وزیرِ اعظم بننے کی راہیں ہموار ہو گئیں۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر 30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھا لیا گیا ۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں کئی اسلامی قوانین نافذ کئے گئے جن میں سرقہ، ڈکیتی، زنا، ابتیاع شراب، تہمت زنا اور تازیانے کی سزاؤں سے متعلق حدود آرڈینس کا نفاذ سر فہرست ہے۔ زکوٰۃ آرڈینس بھی نافذ کیا گیا۔ وفاقی شرعی عدالتیں اور قاضی عدالتیں قائم کی گئیں۔ حسن مجتبیٰ (سان ڈیاگو، کیلیفورنیا)اپنی تحریر ’’پانچ جولائی محض ایک تاریخ نہیں‘‘ میں ایک واقع بیان کرتے ہیں کہ ’’نیاز سٹیڈیم میں کالے خان کو چینی کی بلیک مارکیٹنگ کے الزام میں سرعام کوڑے لگائے گئے جسے دیکھنے کے لئے ہزاروں لوگ آئے اور انہوں نے یہ مناظر بھی ویسے ہی دیکھے جیسے وہ وہاں کرکٹ کے میچ دیکھا کرتے تھے۔ سٹیڈیم میں ٹنگی ٹکٹکی پر اوندھے منہ شلوار گھٹنوں تک اتری ہوئی، کالے خان کے منہ کے آگے لاؤڈ سپیکر فٹ کئے گئے تھے اور جلاد جب اسے کوڑ ے مارتا تو کالے خان کی چیخیں کسی ذبح ہوتے ہوئے بکرے کی رونگٹے کھڑے کرنے والی آواز کی طرح سارے سٹیڈیم میں پھیل جاتیں۔ لوگ اس پر ’نعرہ تکبیر‘، ’مرد مومن مرد حق، ضیاء الحق‘ اور ’اسلام زندہ باد‘ کے نعرے بلند کرتے۔‘‘ اس دور کے منفی پہلو ؤں میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانا، کوڑے مارنا، جیلوں میں ڈالنا اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاسل کر کے ان کو تشدد کا نشانہ بنانا بھی سر فہرست ہے۔ پی ٹی وی کی نیوز کاسٹر ماہ پارہ صفدر نے اپنی ایک تحریر ’’دیکھتے ہی گولی مارنے کی خبر میں نے پڑھی‘‘ میں اس بارے میں کچھ یوں لکھا ہے کہ ’’اس میں تو شک نہیں کہ صحافیوں کے لئے وہ ایک تاریک دور تھا، کئی ساتھیوں نے جیلیں کاٹیں، کوڑے کھائے، مگر میں یہ ہی کہوں گی کہ آمریت کی نوکِ خنجر کا پہلا شکار پاکستان ٹیلی ویژن کے نیوز ایڈیٹر خالد محمود ربانی تھے‘‘۔ ایڈیٹر خالد محمود ربانی کو جنرل ضیاء الحق کی پریس کانفرنس کی فوٹیج بروقت راولپنڈی نہ پہنچا پانے پر معطل کر دیا گیا تھا بعد ازاں بحال تو ہوئے مگر لاہور سے راولپنڈی ٹرانسفر کر دیا گیا۔1990 ء میں خالد محمود ربانی صاحب اپنے دو کم عمر بچوں اور بیوی کے ساتھ کار میں لاہور جا تے ہوئے ایک حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔
سوویت روس پاکستان فتح کر کے بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا تھا، اس مقصد کے لئے روس نے افغانستان پر جارحیت شروع کر دی ادھر انڈیا سے بھی پاکستان کو خطرہ لاحق تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے افغان مجاہدین کی مدد کر کے دونوں ممالک کو بچا لیا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ضیاء الحق نے دہشت گردی کی فصل بوئی، ان کے بنائے ہوئے مدارس سے نکلنے والے مجاہد دہشت گرد بن گئے۔ یہ تو بالکل ویسی ہی بات ہوئی کہ کسی بادشاہ نے ایک پل بنایا اور اس کی وفات کے کئی سال بعد وہ پل پرانا ہو کر گر گیا اور اس کے گرنے سے کئی لوگوں کی موت واقع ہو ئی اور لوگ کہیں کہ بادشاہ نے پل بنا کر ان لوگوں کی موت کی سازش کی تھی۔آج ان کی وفات کے اتنے سال گزر جانے کے بعد اگر ان مدارس سے کوئی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہوتا ہے تو یہ اس کا اپنا فعل ہے نہ کہ جنرل صاحب نے ایسا چاہا تھا۔ انہوں نے تو افغانسان کی مدد کے لئے مجاہد پیدا کئے، بعد میں آنے والے حالات کا ا ن سے کیا تعلق؟ کشمیر میں جہاد اُن کی شہادت کے وقت ایسے مقام پر پہنچ گیا تھا کہ انڈیا کے لئے کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ سکھوں کی تحریک خالصتان شروع کروائی جو بھارتی پنجاب اور کئی دیگر علاقوں پر مشتمل سکھوں کا ایک الگ ملک بنانے کے لئے تھی، جس کی قیادت ایک سکھ جنرل کے ہاتھ میں دی گئی جو بنگلہ دیش کی علیحدگی کے وقت انڈین فورسز کا کمانڈر تھا۔ یہ تحریک اس حد تک کامیاب ہو چکی تھی کہ انڈین فورسز بے بس ہو چکی تھیں، خالصتان کا جھنڈا، نقشہ اور کرنسی وغیرہ سب کچھ بن چکا تھاکہ آپ پراسرار موت کا شکار ہو گئے۔ خالصتان کو ناکام بنانے میں بے نظیر بھٹو نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام پر امریکی دباؤ کو مسترد کیا اور بھارت میں کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے راجیو گاندھی کو بتایا کہ ہمارے پاس بھی ایٹم ہے، جس سے راجیو گاندھی اور بھارت پر پاکستان کا خوف مزید بڑھ گیا۔
اس مردِ مومن کی موت 17 اگست 1988کو بہاولپور کے قریب سی 130 ہرکولیس طیارے کے ایک پراسرار حادثے میں ہوئی اور نمازِ جنازہ 19 اگست 1988ء کو شاہ فیصل مسجد، اسلام آباد، پاکستان میں پڑھایا گیا۔ موت کے وقت آپ پاکستان کے صدر اور چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز تھے۔ طیارے میں چیئرمین جوائنٹ آف سٹاف کمیٹی جنرل اختر عبدالرحمن سمیت سینئر فوجی افسران سوار تھے۔ امریکی سفیر آنرڈ رافیل اور امریکی جنرل ہربرٹ ویسم بھی ضیاء الحق کے ساتھ طیارے میں موجود تھے۔ پلک جھپکتے ہی تمام راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ ان کی موت سے متعلق تحقیقات ہوئیں مگر آج تک کوئی حقیقت سامنے نہیں آئی۔ واشنگٹن نے امریکی ایئر فورس کے افسران کی ایک ٹیم بھیجی۔ تحقیقات سے دو طرفہ نتائج سامنے آئے۔ امریکی ایئر فورس کے افسران کی ٹیم نے مسز ایلی رافیل اور مسز برگیڈیئر جنرل ویسم کو بتایا کہ حادثے کی وجہ سی 130 کے ساتھ ایک عام میکانکی مسئلہ تھا (دی ٹائمز، لندن)۔ پاکستانی حکام نے 365 صفحات پر مشتمل رپورٹ اور 27 صفحات پر اس رپورٹ کا خلاصہ پیش کیا، جس میں تفتیش کاروں نے طیارے کے میکانکی نظام میں ممکنہ خرابیوں کے شواہد کا اظہار کیا تھا لیکن ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں اس کے سازش ہونے کی کہانیوں کی بھی کمی نہیں رہی۔ کچھ ابلاغ اس شک کا اظہار بھی کرتے رہے کہ امریکی سی آئی اے نے جنرل ضیاء الحق کو ختم کرنے کے لئے آموں کی پیٹیوں میں اعصاب شکن گیس چھوڑ دی تھی۔ کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ سوویت نے افغان مجاہدین کی حمایت کا جنرل سے بدلہ لیا۔ امریکی ’’ورلڈ پالیسی جرنل‘‘نے بھارت میں سابق امریکی سفیر گنتھرڈین کے حوالے سے لکھا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت میں ہاتھ تھا۔ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل حمید گل، جنرل کے قتل کو سی آئی اے کی سازش قرار دیتے تھے۔ضیاء الحق کے بڑے بیٹے اعجاز الحق نے ضیاء مخالف گروپ الذوالفقار پر قتل کا الزام عائد کیاتھا۔ بہرحال کبھی کوئی نتیجہ خیز اور حتمی بات سامنے نہیں آئی۔

Back to top button