کالم

عنایت عادل کا کالم ” بالحق "

جن پہ تکیہ تھا
ایک غزل کا مطلع ہے کہ:
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے
یہ محض شاعر کا تخیل ہی نہیں ہے بلکہ روزمرہ کا تجربہ بھی ہے کہ ہمیں چیزوں سے لے کر انسانوں تک کی قدر اس وقت ہوتی ہے کہ جب وہ ہماری دسترس میں نہیں ہوتے اور یا پھر ہم سے بہت دور ہوتے ہیں۔ یقین کیجئے، کچھ اسی قسم کے جذبات ان دنوں میرے دل میں مولانا فضل الرحمان کے حوالے موجزن ہیں۔ قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ مولانا فضل لرحمان ایک بین الاقوامی سطح کے لیڈر کہلائے جاتے ہیں تاہم انتہائی لازم ہے کہ قارئین کو یاددہانی کروادی جائے کہ وہ جملہ عالم اسلام کی قیادت کے دعووں، مدارس کے تحفظ کی کاوشوں اور فاٹا کے عوام کے غم میں ہر لمحہ گھلنے کے ساتھ ساتھ، ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کے منتخب رکن بھی ہیں۔وہ ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کہ جو گزشتہ کچھ دنوں سے نہ جانے کیوں مولانا صاحب کو حدف تنقید بنائے ہوئے ہیں، مولانا کی قدر و منزلت سے واقف ہی نہیں،اللہ پاک عوام کو حکمران بنادے تو پھر پتہ چلے کہ مولانا کی اہمیت کتنی ہے مگر عوام میں وہ بے نظیری، زرداروی، مشرفی، اور شریفی بصیرت کہاں کہ وہ مولانا کا قد کاٹھ ناپ سکیں۔خود سوچئے کہ بجلی کا بحران صرف ڈیرہ اسماعیل خان میں تھوڑی ہے؟۔ باقی سارے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا عفریت بھی تو اسی طرح دیکھا جا سکتا ہے تو پھر کسی کا گناہ کسی اور کے سر ڈالنے سے کیا مطلب ہے بھلا؟۔ مخالفین بھی بس موقع دیکھتے ہیں بات سے بتنگڑ بنانے کا۔ایک صاحب تو اپنی ببانگ دہل دعا میں خدا کو فرشتہ صفت مولانا کی ہدایت اور یا پھر اپنی زندگی کے خاتمے کے دو آپشن دیتے سنائی دئیے۔یہی نہیں، کسی نے کہا کہ مولانا صاحب اس پائے کہ لیڈر ہیں کہ ان کا سکہ ہر دو صورت میں چلتا ہے کہ اقتدار میں ہوں تو ان سے حلقے کے عوام کی فلاح کی امید نہیں رکھی جا سکتی اور اگر اقتدار میں نہ ہوں تومخالف صاحب اقتدار اس حلقے کی فلاح کی سوچ سے باز رہے۔ توبہ استغفار، گز گز کی زبانیں، کھلنے سے پہلے سوچتی ہی نہیں کہ کھل کس کے خلاف رہی ہیں۔ بھلاکوئی ایسا گمان بھی کر سکتا ہے مولانا کے بارے میں۔لیکن پھر ان صاحبان کے ان تلخ خیالات کو بھی تو بدگمانی کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔ میرا یہ خیال ہے کہ یہ تلخی، دراصل اس عاشق کے اضطراب کی مانند ہے کہ جس سے اس کا محبوب ایک لمبے عرصے سے دور چلا گیا ہو۔ہاں یہی بات درست ہے، یہ محبت ہی ہو گی کہ جو مولانا کے عاشقوں کے دل میں طوفان اٹھا کر لبوں پر شکوے لانے کا سبب بنی ہو گی۔لہٰذا یہ طے ہوا کہ لوڈ شیڈنگ یا واپڈا سے متعلق دیگر شکایات کو مولانا کی ذات سے ملانا، انکے ساتھ سرا سر زیادتی ہے۔ مولانا صاحب اپنی گوں نا گوں مصروفیات کی بدولت کئی کئی ماہ تک اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالتے ہیں تو اسکی بڑی مدلل اور روح پرور وجہ بھی تو ہے۔ یہ مولانا فضل الرحمان ہی تو ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے دارلحکومت کو اسلام آباد کہا جاتا ہے۔ مولانا صاحب اگر وہاں پڑاؤ نہ ڈالیں تو نا ہی وہاں کوئی اسلامی ہو اور نا ہی وہ آباد کہلایا جاسکے۔واپڈا کی ناانصافیوں کو مولانا صاحبان کے سر تھوپنے والے اپنے حافظے درست کریں، جب جب موقع آیا، انہی مولانا صاحبان نے ٹرک بھر بھر کر کھمبے ، تاریں اور ٹرانسفامر اس ضلع کے کس کس علاقے میں نہیں پہنچائے؟۔ اور تو اور انہوں نے اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی پابندیوں تک کو گھاس نہیں ڈالی، بھلا کس کے لئے، جناب اسی عوام کے لئے جو آج ’’ذرا‘‘ سی لوڈ شیڈنگ پر مولانا کو قصوروار گرداننے چل نکلے ہیں۔یہ بھی نہیں سوچتے کہ ابھی حال ہی میں اسی واپڈا کے دفتر میں پولیس کو براجمان کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کروا دی گئی ہے کہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے میں مصروف ڈیرہ کے عوام ، اس گناہ کبیرہ سے بچ سکیں۔جو لیڈر اپنے عوام کی عاقبت تک سنوارنے کی بصیرت رکھتا ہو، ہم تھوڑی سی دنیاوی تکلیف پر ایسے لیڈر کے خلاف سڑکوں پر نکلے چلے جاتے ہیں۔کچھ ہی عرصہ قبل، انہی مولانا صاحب ہی کی جانب سے ڈیرہ کے شہریوں کے لئے بجلی کے ٹرانسفامروں کی مرمت کے لئے ورکشاپ تک کا اقدام سامنے آیا تھا، سرکل آفس کی کھپ سے اپنے عوام کو بچانے کا بھلا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ علامہ اقبال کے خودی کے فلسفے کو عوام تک پہنچانے کے سلسلے میں جو کردار مولانا صاحب نے ادا کیا ہے، ہے کوئی دوسرا جو یہ کر سکے؟۔ اپنی دنیا آپ پیدا کر کو’’ اپنا ٹرانسفر آپ مرمت کروا ‘‘میں تبدیل کر کے اہلیان ڈیرہ کو وسیع القلب، ایثار پسنداور خوددار بنانے کا اس بہتر بھلا کوئی اور طریقہ ہو سکتا تھا؟۔
خود کو فرنگی مکتب سے سیاست میں ڈگری یافتہ کہلواتے، سیاست کی الف ب سے نا بلد عمران خان نے کچھ عرصہ قبل بجلی کے بل جلا کر خود کو انقلابی کہلوانے کی کوشش کی تھی، لیکن پھر کچھ ہی دنوں کے بعد اسی منہ سے بل ادا کرتے ہوئے انقلاب کے ساتھ خود اپنا مذاق بھی اڑوایا ڈالا۔ حقیقی لیڈر تو وہ ہوتا ہے جو خاموش انقلاب پہ یقین رکھے۔ نہ بجلی کے بل جلانے کی ڈرامہ بازی کرے اور ناں ہی بجلی کے بل ادا کر کے عوامی امنگوں سے مکر جائے۔ عمران خان بے چارہ ایک آدھ ماہ میں ہی اپنا بجلی کا میٹر گنوا بیٹھا، لیکن مولانا صاحب دسیوں سال سے اس خاموش انقلاب پر عمل پیرا ہو کر عوام کی امنگوں پر پورا اتر رہے ہیں، لیکن کس کو جرات ہے جو عوامی امنگوں پر پورا اترتے ایسے شیر جوان لیڈر کے بجلی کے میٹر کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے؟۔شیر جوان سے یاد آیا، عابد شیر علی نے بجلی کے کنڈوں اور دوہرے کنکشن کے جرائم کے خلاف ٹیپو سلطان بننے کی کوشش کی تھی اور انکی اس جوانمردی کا محور و مرکز ہمارا صوبہ خیبر پختونخواہ تھا۔ کہاں کہاں چھاپے نہیں پڑے، کس کس پر ایف آئی آر نہیں کٹی، کون کون سلاخوں کے پیچھے نہیں گیا۔ لیکن پورے صوبے میں ایک ہی دہلا لیڈر تھا جو عابد شیر علی جیسے نہلے کا اصل جواب بن کر ڈٹا رہا۔بزدل لیڈردور کے کھمبوں سے کنڈے ڈال کر شیر بنے پھرتے ہیں کہ ذاتی چاردیواری کے اندر سرکاری کھمبوں کی تنصیب خلاف قانون سمجھی جاتی ہے۔ لیکن عابد شیر علی کو اینٹ کا جواب پتھر سے ایسے ہی دیا جا سکتا تھا کہ کھمبے بھی چاردیواری کے اندر ہوں گے اور کنڈے بھی کھلے عام، کسی میں ہمت ہے تو ہاتھ لگا کر دیکھے۔کہتے ہیں لیڈر وہ ہوتا ہے کہ جو مثالوں سے قوم کی راہنمائی کرے۔ پورا ڈیرہ چیخ رہا ہے کہ کہیں دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے تو کہیں سولہ کی، کہیں اٹھارہ کی ہے تو کہیں بیس اور بائیس گھنٹوں کی، لیکن مولانا جیسے لیڈر صرف ایک طوفانی دورہ کرتے ہوئے مثال قائم کیا کرتے ہیں اور اپنی رہائشگاہ کو دو مختلف فیڈروں سے فراہم کی جانے والی بجلی کو اپنے ہاتھ میں کر لیتے ہیں۔بس ایک فون کال اور پھر سی آر بی سی فیڈر کی بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ بارہ گھنٹے اور شیخ یوسف فیڈر کی دس گھنٹے سے بارہ گھنٹے کی سطح پر کر دی جاتی ہے ۔ بس تھوڑی سی فراست اور عوام کے لئے مثال قائم کہ کوشش کی جائے تو کوئی مسکن ، بجلی کے بد ترین بحران کے دوران بھی چوبیس گھنٹے روشن رہ سکتا ہے۔ لیڈر کو تو فالو کیا جاتا ہے، اس پر تنقید نہیں کی جاتی، اہلیان ڈیرہ سے درخواست ہے حسد اور بغض کی کدورتوں کو دلوں سے نکال کر مولانا کا آشیر باد حاصل کریں، ان سے فہم و فراست اور بحرانوں پر قابو پانے کے گُر سیکھیں۔ خالی چیخ چہاڑ سے مسئلے حل نہیں ہو ا کرتے۔

Back to top button