جلیبیاں”مزاحیہ شاعری پر ایک منفرد کتاب تحریر: سہیل احمد اعظمی
جلیبیاں”مزاحیہ شاعری پر ایک منفرد کتاب تحریر: سہیل احمد اعظمی
ڈیرہ اسماعیل خان کی سرزمین ادبی لحاظ سے بڑی زرخیر ہے۔ یہاں پر فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہورہاہے۔ ان کی کتب، مجموعے شائع ہورہے ہیں ۔ ملکی اور مقامی مجالس میں ہمارے شعراء، ادیب ایک مقام رکھتے ہیں۔ کئی ادیب شاعر حکومت کے پی کے کی اس فہرست میں شامل ہیں جنہیں سرکارکی طرف سے ماہانہ ان کی ادبی سرگرمیوں اور کاوشوں کے باعث اعزاز یہ ملتا ہے حالانکہ مقامی طورپرہمارے اہل قلم کو وہ پزیرائی مقامی انتظامیہ کی عدم دلچسپی کے باعث نہیں ملی جسکے وہ حقدار ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب سید مظہر علی شاہ ڈیرہ کے کمشنر تھے تو انہوں نے ڈیرہ کے تمام فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کئے رکھا۔ انہوں نے دامان آرٹس کونسل کی سرپرستی کی ۔ کئی سعراء کے شعری مجموعی شائع کئے۔ ڈیرہ کی تاریخ مرتب کرنے کیلئے کمیٹی بنائی۔ لیکن ان کے جانے کے بعد ڈیرہ کی تاریخ پر مبنی کتاب کا بیڑہ غرق ہوگیااو رادبی سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئیں۔ شعراء او رصحافیوں ، ادیبوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی کتب کی اشاعت جاری رکھی۔ جن میں راقم کی کالموں پر مبنی کتاب صریر خامہ، حفیظ اللہ شاہ گیلانی کی کتاب اپنا ڈیرہ تاریخ کے آئینے میں، جمشید ناصر کی ناد، ارشاد حسین کی دل پشوری، خورشیدربانی کی پھول کھلا ہے کھڑکی میں، عبداللطیف اعوان کی مٹھرے سخن، محمد قلندر کی ترشنہ ، منیر احمد کی فردوسی کی زندگی چہرہ مانگتی ہے، حمزہ حسن شیخ کی کاغذ، سعید اختر سیال کی وساق، طاہر شیرازی کی جاترا، عباس سیال کی گلی کملی کے دیس میں، الطاف شاہ کی بولتے پھول ، شہاب صفدر کی تکلم، غفار بابر کی چاند چنبیلی، زیبا محسود کی پارس، ڈاکٹر شاہد محسود کی پاکستانی معاشرہ، غلام عباس کی جو ہم پہ گزری اور کافر کوٹ سے قلعہ ڈراول تک، عصمت کومل کی تیڈے کم آسوں، عبداللہ یزدانی کی البتہ، منیر فردوس کی زندگی چہرہ مانگتی ہے، ثناء اللہ شمیم کی کلاچی سے کراچی تک، ملک علی آصف کی حکم ہے خدارا، غلام فرید کی فیضان فکر، کاشف رحمن کاشف کی سمٹی سمٹی دھوپ، خورشید ربانی کی کف ملال، کاظم شاہ نازک کی امڑی، عذرہ بخاری کی اداسی ساتھ رہتی ہے، خاور احمد کی منظر، محمد علی شاہ بخاری کی سانولی شام، خورشید بانی کی خیال تازہ، طارق ہاشمی کی اردو غزل نئی تشکیل، موسی کلیم کی ادب او رمعاشرہ، جعفر حسین راہت کی فانوس، طارق ہاشمی کی دل دسواں سیارہ ہے، جاوید دانش کی جھیل کنارے، جاوید بخاری کی بچھڑنا بھی قیامت ہے، الطاف صفدر کی اداسی کے رنگ، قیس مسیح کی سرائیکی تاریخ، کاظم شاہ نازک کی ہتھ کیو جوڑوں و دیگر کتب شامل ہیں سب کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ حال ہی میں رحمت اللہ عامر جو میرے کلاس فیلو اور بچپن کے دوست عبدالرحمن کشمیری کے بہنوئی ہیں، کی مزاحیہ شاعری پر مبنی کتاب (جلیبیاں) منظر عام پر آئی انہوں نے اپنے ادبی تعلق کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی خوبصورت کتاب کا تحفہ میری نظر کیا۔ کتاب کا سرورق پاکستان کے نامور مصور عجب خان (جنکا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے جن کی پینٹنگ کی کئی ملکی اور غیر ملکی نمائش منعقد ہوچکی ہیں جو کمال کے مصور ہیں جنکا میں خود بہت دلدادہ ہوں) نے ترتیب دیا ہے۔ کتاب اپنی پہلی نظرمیں اپنی عمدہ کتابت، پرنٹنگ، سرورق کے باعث جسطرح قاری کا دل موہ لیتی ہے اس سے زیادہ کشش اور جاذبیت رحمت اللہ عامر کی مزاحیہ شاعری میں ہے جو اس کتاب کا حصہ ہے۔ رحمت اللہ عامر کی شاعری ان قطعات کا میں گذشتہ عشرے سے دلدادہ ہوں اور جب بھی ان کاکوئی قطع اخبارات اور فیس بک کی زینت بنتا ہے تو میں کیا اکثر قاری بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ فیس بک میں انکا ہر قطع Shareکرتاہیوں جو کافی دلچسپ ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزاحیہ انداز میں معاشرے کے ہر پہلو ،برائی اور اچھائی کا ذکر اپنے قطعات کے ذریعے کیا ہے۔ جن میں سانحہ پشاور، چاند کا رولہ، منڈی نامہ وغیرہ قطعات کے علاوہ جبکہ قطعات میں یادرفتہ، میٹرک فیل، خدا کا قہر، پاپ سنگر، ہیر رانجھا، نو عمر چنگ چی ڈرائیور، لکھاری ، ٹرک ڈرائیور، اووریڈنگ، واپڈا ہاؤس ، کرپشن کی اجازت، آٹا، زنانی، ایکسرے، گھر والیاں، شاعر کی بیوی، بچے پالنا، بیمار کی دعا، ملاوٹ، ڈیرہ جیل پر حملہ، وکیل ، میگا پراجیکٹ، مکھڑے پہ سہرا ، اڈوں کے حلوہ جات، حکمران، بجلی کی چوری، کرایہ دار، جہیز زرد صحافت، خوابوں کی دنیا، محکمہ فؤڈ کا چھاپہ، سیاسی لیڈر، مشکوک گوشت ، آئی ایم ایف کا قرضہ، میرٹ، نوکری ، پیر صاحب کا تعویذ، بیوی کے رشتہ دار، شادی شدہ کی عید، انتخابی نشان (لوٹا)، ڈالر و دینار، بے حسی، ریلی، نیم حکیم، میڈان چائنہ، اوپر کی کمائی، ون ویلنگ، حاجی، ڈرون حملہ، دعوت ولیمہ، لوڈشیڈنگ، حماقت، سود خوروں سے کنارہ، دوائیوں میں کمیشن، ملاوٹ، ڈبل سواری، نور اکشتی، مقروض، نجکاری، مقامی اخبارات، بلدیاتی نمائدے، بیگم، رن مریدی، ماں کی نصیحت، مک مکا، توبہ، پشاور کے چوہے، غرض ان قطعات میں موجود ہر قطعہ اپنے اندر مزاح کے عنصر کے علاوہ تمام تر تصویر چار لائنو ں میں بیان کردیتاہے مثلا لوڈشیڈنگ کے عذاب مسلسل کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔
کتنا راضی ہے وہ اپنی خلقت پہ نعمتوں میں کمی نہیں کرتا
تیرے رزق ہوا پانی کی لودشیڈنگ کبھی نہیں کرتا
آجکل کی اولاد جو دینی تعلیم نہ ہونے کے باعث والدین کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے۔ والدین کی نافرمانی عروج پر ہے۔ اسمیں ہم بھی قصور وار ہیں کیونکہ ہم نے انہیں دینی تعلیم کی طرف مائل نہیں کیا۔ ان کے بارے میں خوبصورت قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔
سمجھتے تھے کولہو کا بیل مجھ کو گرا میں نہ جب تک تو تب تک نہ چھوڑا
پس مرگ بھی میرے بچوں نے مل کر مرے کارڈ سے کتنا راشن بٹورا
ڈاکٹروں کی بھاری فیسوں کے علاوہ ادویات پر کمیشن کے باعث بغیر ضرورت کے ادویات تجویز کرنا مسیحاؤں نے وطیرہ بنالیاہے۔ جن کے بارے میں رحمت اللہ عامر کہتے ہیں
مریضوں کو ایسی دوا لکھ رہے ہیں کمیشن ہو جس سے عطا لکھ رہے ہیں
یہ ذاتی کلینک تو ہیں مذبحہ خانے مگر ان پہ دارالشفاء لکھ رہے ہیں
ہماری حکومتیں جموریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتیں۔ شاعر نے جمہوریت کی ڈگڈگی کے نام سے لکھاہے۔
بدیسی قرضہ لایا جارہاہے بنام قوم کھایا جارہاہے
بجاکر ڈگڈگی جمہوریت کی ہمیں کب سے نچایاجارہاہے
معاشرے میں بجلی چوری کے بارے میں قطعہ یہاں ہورہی ہے وہاں ہو رہی ہے بین ہے چوری جہاں ہورہی ہے
جو لیتے ہیں بھتے مہینے مہینے وہی کہہ رہے ہیں کہاں ہورہی ہے
اہل سیاست کے جھوٹے وعدوں اور فریب کے بارے میں قطعہ بیٹھے ہوئے اداس تھے حضرت ابلیس میں نے کہا کس لئے تیور بدل گئے
کہنے لگے کہ اہل سیاست کی خیر ہو ہم سے جھوٹ و فریب میں آگے نکل گئے
رحمت اللہ عامر نے تقریبا ہر اس موضوع کو اپنے قطعات میں چھوا ہے جسکا ایک صحافی اپنے کالموں، تحریروں میں ذکر کرتاہے۔ لیکن انکا یہ کمال ہے کہ وہ اپنا مقصد چار لائنوں میں بیان کردیتے ہیں جبکہ ہمیں پورا کالم چاہئے۔ آجکل کے دور میں جب لوگوں کے پاس پڑھنے پڑھانے کا وقت کم ہے رحمت اللہ عامر کے قطعات کو پڑھنے او ران کے مقصد کو سمجھنے کیلئے چند سیکنڈ چاہئیں۔ یہ انکا کمال اور قابلیت ہے کہ وہ چند سطور میں اپنا مدعا بیان کردیتے ہیں ان کی کتاب مواد کے علاوہ ہر لحاظ سے ایک عمدہ کاوش ہے۔ میں انکا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اپنی خوبصورت کتاب تحفہ میں دے کر میری عزت افزائی کی۔ ڈیرہ بلکہ پورے ملک میں شعری مجموعے ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوچکے ہیں یا ہورہے ہیں لیکن مزاحیہ شاعری کرنے والو ں کی تعداد بہت کم ہے۔ Tension کے اس دور میں مزاحیہ انداز میں اپنی آواز، مقصد، پیغام، ارباب اختیار ، عوام تک پہنچانا انتہائی مشکل کام ہے۔ لیکن موصوف کیلئے نہیں انہوں نے اپنی سلیس اردو سے اسے بہت آسان اور قابل فہم سمجھ بنادیاہے۔ شاعروں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنا کلام سنانے کی تاڑ میں رہتے ہیں لیکن قطعات پر مبنی رحمت اللہ عامر کے کلام کی تاڑ میں ہم رہتے ہیں کہ وہ کب شائع ہواور ہم اسے پڑھیں انکا کالم عوام کی تفریح کا باعث بھی ہوتاہے جسکی انہیں سخت ضرورت ہے۔ ہم آخر میں انکی عمدہ کاوش او راہل کتاب کے گروپ میں شامل ہونے پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ہمارے دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کے زور و قلم میں مزید اضافہ کرے۔ آمین