سیاسی ڈگڈگی، اور بین بندر کون؟ سانپ کون؟
مہک فاطمہ
ملک کی موجودہ صورت احوال ماضی کے بہت سے مناظر یاد کرواتی ہے؛ 1977ء کی تحریک ہو یا 2009ء کا لانگ مارچ، اپوزیشن اور حکومت کا حکمتِ عملی ایک جیسا ہی رہا ہے؛ بس وقت اور پارٹی کی پوزیشنیں بدلتی رہی ہیں۔ المیہ یہی ہے کہ ہمارے یہاں اسی قسم کے رویے کو سیاست سمجھا جاتا ہے۔ 2009ء کی لانگ مارچ کے دوران نواز شریف کو نظر بند کرنا، یا شہباز شریف کا پولیس کو چکمہ دے کر، پنڈی پہنچنا؛ اگر دیکھا جائے تو عمران خان اور شیخ رشید کی موجودہ صورتِ احوال جیسا ہی ہے؛ مگر فرق صرف اتنا ہے، کہ تب وہ اپوزیشن میں تھے اور اب یہ اپوزیشن میں ہیں۔
بات اگر جمہوریت کی کی جائے، تو یہ لفظ “جمہوریت” جمہور سے نکلا ہے؛ جس کے معنی اکثر کے ہیں، یعنی اکثریت کی رائے۔ جمہوریت کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ ”لوگوں کی حکمرانی، یعنی عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ government by the people, of the people, for the people اب سوال یہ ہے، کہ اگر پاکستان جمہوری ملک ہے، تو یہاں طاقت کا سرچشمہ عوام کے ہاتھ میں کیوں نہیں ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو پھر کسی جمہوریت کو خطرہ کیسے لاحق ہے؟ جب کہ اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ کیا ایک جمہوری ملک میں عوام کے خلاف ریاستی طاقت کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر کیا جاتا ہے تو آمریت اور جمہوریت میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟
موجودہ سیاسی دنگل کی وجہ پاناما پیپرز ہیں، جو کہ مارچ میں پاناما کی لا فرم کی طرف سے لِیک کیے جانے والے کچھ ایسی دستاویز ہیں، جن سے دُنیا کے امیر ترین شخصیات کی منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے ثبوت ملتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم ان شخصیات میں سے ایک ہیں، جن کے خاندان اور ان کی اولاد کے نام کئی آف شور کمپنیوں کی تفصیلات، ان کاغذات میں موجود تھیں۔ بد قسمتی سے اس واقعے کے کچھ عرصے کہ بعد عوام سے خطاب کرتے ہوئے، وزیرِ اعظم نے خود کو عوام کے آگے جواب دہ ہونے کا کہہ تو دیا، مگر اس پر عمل درامد نہیں کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سیکرٹریٹ میں بل پیش کرنے، اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مسلسل مطالبے کے باوجود، بھی اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی نا ہونے کے باعث اپوزیشن کی طرف سے 2 نومبر کو اسلام آباد لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس معاملے میں کورٹ کا حکم جاری ہوا، جس میں حکومت کو اسلام آباد کو کسی بھی طرح بند نہ کرنے، اور نظامِ زندگی کو مفلوج نہ کرنے کا کہا گیا، اور دوسری طرف تحریک انصاف کو پرامن احتجاج، یعنی بنا لاک ڈاؤن کی اجازت دی گئی۔ مگر اس سے قبل، کہ دو نومبر آتا، 27 اکتوبر کی رات کو پی ٹی آئی کے یوتھ کنونشن پر پولیس نے ہلا بول دیا، اور پی ٹی آئی کے کارکن جن میں عورتیں بھی تھیں ان پر لاٹھی چارج کیا گیا؛ اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو جیل میں ڈال دیا؛ جس کا جواز دفعہ 144 کو بنایا گیا۔ یہ کنوینشن ایک شادی ہال میں منعقد کیا گیا تھا، یعنی چاردیواری میں تھا، اس لیے اس پر دفعہ 144 کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سوال تو یہ ہے کہ یہ ساری ریاستی طاقت تب کہاں ہوتی ہے، جب دہشت گرد کبھی ہمارے اسکولوں میں، کبھی تربیتی اداروں میں گھس کر خون کی ہولی کھیلتے ہیں؟ میری نظر میں یہ وہ پہلا قدم تھا، جو حکومت نے بوکھلاہٹ کے حالات میں اٹھایا، اور یہ مزید کشیدگی کی طرف جاتا ہے۔ 27 اکتوبر کے دن پیش آنے والی ساری صورتِ احوال اسی کا نتیجہ تھی۔ عدلت کے حکم کے خلاف شہر بھر میں کنٹینر لگانا، نہتے لوگوں کے خلاف شیلنگ اور لاٹھی چارج کرنا شہری نظام اور زندگی کو مفلوج کرنا، حکومت کے بوکھلا جانے اور نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسے کہتے ہیں کل کے مرتے، آج مرجانا۔
اس سب میں ایک اور پہلو جو انتہائی اہم ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف ایک سیاسی پارٹی کے جلسے پر شیلنگ اور لاٹھی چارج ہو رہا تھا، وہیں دوسری طرف اہلِ سنت و الجماعت اسلام آباد کے حساس ترین علاقے میں پولیس کی حفاظت میں جلسہ کر رہی تھی۔ کیا دفعہ 144 کا نفاذ، صرف مخصوص مقاصد کے لیے کیا گیا؟ ایسی جماعت جس کا کالعدم تنظیم سے براہ راست تعلق بتایا جاتا ہے، اور ایک ایسا رہنما، جس کا نام فورتھ شیڈول میں 13 نمبر پر موجود ہے، مکمل حفاظت کے ساتھ جلسہ کر سکتا ہے، اور اس کے خلاف نہ کوئی لاٹھی چارج کیا جاتا ہے، نہ کوئی شیلنگ کی جاتی ہے۔ کیوں؟ کیا اپنے خاندان اور اپنا احتساب ملک بھر کی سیاسی کشیدگی اور بگڑتی ہوئی صورتِ احوال سے زیادہ مشکل کام ہے؟ کیا احتساب کا مطالبہ اتنا غیر آئینی ہے؟ کیا آج اس قسم کے ردِ عمل کے بعد جمہوریت بہت مضبوط ہو گئی ہے؟ کیا یہ جنگ محض سیاسی مفادات پر لڑی جا رہی ہے؟ کیا ریاست محض ذاتی اختلافات کے خلاف اہل ہے؟ یہ ڈگڈگی کس کے ہاتھ میں ہے؟ بندر کون ہے؟ یہ خونی بین کون بجا رہا ہے؟ سانپ کون ہیں؟
یہ سوال آپ سے میں نہیں کرتی یہ سوال آپ سے وہ چار دن کی معصوم بچی کرتی ہے، جس کو یہ بھی نہیں معلوم تھا، کہ دُنیا کے اس خطے میں کیوں پیدا ہوئی ہے؟ یہ سوال آپ سے وہ چونسٹھ تعبیریں کر رہی ہیں، جو اپنے خوابوں کو اب بھی تلاش کر رہی ہیں!