میانوالی کے نیازی
حدِ ادب
انوار حسین حقی
میانوالی کے نیازی
________________________
’’بمبینو سینماء‘‘ کی اونر شپ سے آگے بڑھنے کی خواہش اگر پوری ہو جائے تو پھر پارٹی کی ’’پروپرائٹری ‘‘ اور ’’بھٹوز ‘‘ کے ورثہ پر قبضہ برقرار رکھنا بقاء سے مشروط ہو جاتا ہے ۔ جناب آصف علی زرداری اپنی اسی جد و جہد کو ’’ برداشت اور رواداری کی سیاست ‘‘ قرار دیتے چلے آئے ہیں ۔ اچھے کاروباری پارٹنرز کی طرح پاکستانی قوم کے مقدر سے باری باری کھیلنے کے طے شدہ’’این آراو‘‘ پر سختی سے عملدرآمد جاری ہے۔ تین سے زائد عشروں سے اقتدار پر قابض دو بڑی جماعتوں کو متبادل کے طور پر ایک طاقتور فیکٹر کبھی قبول نہیں رہا ۔ لیکن عمران خان اِن دونوں اور ماضی کی حد تک بڑی جماعتوں کے مدِ مقابل ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر حقیقت کا روپ دھار چُکے ہیں ۔ اِس کی تصدیق حکمرانوں کے بودے اظہارئیے اور بلاول بھٹو اور خورشید شاہ کے بیانات کرتے نظر آتے ہیں ۔
رواداری اور برداشت کی سیاست کے علمبردار آصف علی زرداری اور ان کی جماعت کے بعض لیڈر سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت ہتھیار ڈا لنے والے پاکستانی فوج کی مشرقی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کے حوالے سے عمران خان کو نیازی کہتے ہیں۔ گذشتہ روز ان کی پارٹی کے ایک سینٹر سعید غنی نے بھی نیازیوں کے حوالے سے کچھ ایسا ہی موقف اختیار کیا ہے
۔سانحہ مشرقی پاکستان مِلت پاکستان کے جسد پر لگا ایک ایسا زخم ہے جس سے ہمیشہ خون رستا رہے گا اور قوم درد سے کُرلاتی رہے گی ۔ اس میں ملوث لیڈروں کا انجام ایک سبق کے طور پر ہمارے سامنے رہے گا ۔امریکہ میں مقیم بنگلہ دیشی سلطان رضا کی کتاب میں درج اقتباس جو محترم ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں نقل کیا تھا ملاحظہ فرمائیں ’’ پندرہ اگست 1975 ء کو ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کو قتل کر دیا گیا ۔ چار اپریل 1979 ء کو ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھا دےئے گئے ۔تیرہ اکتوبر 1984 ء کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے محافظوں نے گولیوں سے بھون ڈالا ۔ یحییٰ خان ذِلت و رُسوائی کے ساتھ خوفزدہ قیدی کی زندگی گذار کر مر گیا اور قیامت تک نفرت کی علامت بنا رہے گا ‘‘سلطان رضا سے اختلاف کا حق حاصل ہے لیکن سانحہ میں ملوث کرداروں کی مماثلت میں ایک سبق موجود ہے ۔ جنرل نیازی نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالے وہ ہماری قومی تاریخ کے ایک نا پسندیدہ کردار کے طور پر زندہ رہے گا۔ آصف علی زرداری اور پارٹی میں ان کے موقف کا حامی دھڑا نیازی قبیلے کو صرف جنرل نیازی کے حوالے سے جانتے ہیں۔تاریخ ہمارے اس سابق صدرِ مملکت اور ان کے مصاحبوں کی دلچسپی کا کبھی موضوع نہیں رہا ۔شاید یہ لوگ تاریخ کو بھی غیر منافع بخش سمجھتے ہیں۔ انہیں تو مرحوم حاکم علی زردار ی کے حضرت قائد اعظم ؒ کے بارے میں وہ ریمارکس بھی یاد نہیں ہوں گے جو انہوں نے ایک ٹی وی چینل پر دےئے تھے اور جو سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں ۔ ممتاز براڈ کاسٹر ظفر خان نیازی اپنی ایک تازہ تحریر میں لکھتے ہیں کہ ’’ جب بھٹو مرحوم میانوالی جیل میں تھے اور زرداری کے ابا جی بھٹو کے مخالف اور قائدِ اعظم کے حوالے سے نا زیبا گفتگو کرنے والے نیشنل عوامی پارٹی کے تیسرے درجے کے سیاستدان تھے تو محترمہ نصرت بھٹو ایک دو مرتبہ میانوالی تشریف لائی تھیں اور وہ عمران خان کے چچا امان اللہ خان نیازی ایڈوکیٹ کے ہاں ٹہری تھیں ۔ بھٹو مرحوم کی انتہائی خواہش کے باوجود اس گھرانے نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اخیتار نہیں کی ۔‘‘
تاریخی حوالوں سے میانوالی کا ’’ نیازی قبیلہ ‘‘ جرائت اور ناموری کا دبستان نظر آتا ہے ۔نیازی قبائل میں بلو خیل قبیلہ کو ممتاز مقام حاصل ہے ۔اس قبیلہ کے مورثِ اعلیٰ بلو خان ( Baloo Khan ) کا شجرہ نسب سرہنگ نیازی سے جا ملتا ہے ۔ تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے دو اُمراء کو 1748 ء میں گکھڑوں کے مضبوط قلعے پر یلغار کے وقت بلوخیل قبیلے کی مدد حاصل تھی ۔ اس جنگجو قبیلے کے ماضی کے دلیرانہ معرکوں کی شہادت مقامی لوگوں کے گیتوں میں آج بھی ملتی ہے ۔عمران خان کا شیر مانخیل قبیلہ اسی بلو خیل قبیلہ کی ذیلی شاخ ہے ۔
پاکستان کے جس فوجی ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل ایوب خان کو ہماری جمہوریت کے چیمپین اور جنابِ آصف علی زرداری کے سُسر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم’’ ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے اور جس کی مارشلائی کابینہ کے بھٹو مرحوم کئی سال تک وزیر رہے ۔ اس کے خلاف جدوجہد کرنے اور مادرِ ملت فاطمہ جناح ؒ کا ساتھ دینے والوں میں مولانا عبد الستار خان نیازی ؒ سب سے آگے تھے ۔ مولانا نیازی ؒ ایوب خان مرحوم کے دبنگ گورنر نواب امیر محمد خان آف کالاباغ کے سامنے ہمیشہ چٹان کی طرح ڈٹے رہے ۔ جرائت اور بہادی کے اس پیکر سے 30 دسمبر 1964 ء کو مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ نے فرمایا تھا’’ مسٹر نیازی تمہاری جرائت اور بہادری سے خائف ہو کر نواب آف کالاباغ نے تم پر قاتلانہ حملہ کروایا ہے ‘‘
مولانا نیازی ؒ ساری زندگی عمران خان کے خاندان سے جُڑے رہے ان کا زیادہ وقت عمران خان کے والد اکرام اللہ خان نیازی ، اور چچاؤں امان اللہ خان نیازی ایڈوکیٹ اور ظفر اللہ خان نیازی کے گھرانوں کے ساتھ گذرا ۔ مولانا نیازی ؒ کی ہدایت پر ہی عمران خان نے علامہ اقبال ؒ کے کلام کا مطالعہ کیا جس کے بعد ان کی شخصیت پر اقبالیات کے اثرات نمایاں ہوئے ۔ دسمبر 1936 ء میں طلباء کے ایک وفد کی لاہور میں علامہ اقبالؒ سے ملاقات میں نوجوان طالب علم عبد الستار خان نیازی ( مولانا نیازی ؒ ) کی تجویز پر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی گئی ۔ مولانا نیازی ؒ کی تجویز سننے کے بعد علامہ اقبال ؒ نے اپنا دایاں ہاتھ فضاء میں بلند کرتے ہوئے فرمایا تھا کہI agree with Mr. Niazi ’’ میں مسٹر نیازی سے اتفاق کر تا ہوں ‘‘ 23 مارچ1940 کو منٹو پارک کے تاریخی جلسہ عام میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی پہلی بار مولانا نیازیؒ نے لگایا تھا ۔ 1941 ء کو لاہور میں ایم ایس ایف کی ایک تقریب کے دوران مولانا نیازی ؒ کی تقریر پر قائد اعظم ؒ نے فرمایا تھاکہ ’’ اگر یہ نوجوان میرے ساتھ ہوں تو مجھے یقین ہے کہ ہم پاکستان بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے ‘‘۔مولانا نیازی ؒ کو ختم، نبوت کی تحریک کے دوران ملٹری کورٹ سے موت کی سزا بھی سُنائی گئی تھی ۔
اصلی بھٹو جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور ڈاکٹر ظفر خان نیازی دونوں انتہائی گہرے دوست تھے دونوں کے درمیان گہرے مراسم تھے ۔ڈاکٹر ظفر خان نیازی پیشے کے اعتبار سے ڈینٹل سرجن تھے انہوں نے بھٹو مرحوم کے ذاتی معالج اور دوست کی حیثیت سے شہرت حاصل کی ڈاکٹر ظفر خان نیازی کا تعلق بھی میانوالی کے خنکی خیل قبیلے سے تھا اس قبیلے سے عمران خان کی قریبی رشتہ داری ہے ۔ڈاکٹر ظفر خان نیازی مرحوم کے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان سے بہت دوستی تھی ۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ بھٹو مرحوم کا رابطہ کروانے اور ڈاکٹر خان کو پاکستان آنے کے لئے رغبت دلانے میں بھی ڈاکٹر ظفر خان نیازی کا کلیدی کردار ہے ۔ یوں میانوالی کے نیازیوں کا شمار پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانیوں میں کیا جا سکتا ہے ۔
نائن ڈی کے کمانڈر میجر جنرجاوید سلطان نیازی اور میجر جنرل ثناء اللہ خان نیازی کی شہادتوں کی داستان پاک فوج کے سینے پر سجے جسارت کے ایسے تمغے ہیں جن کی ضو فشانیاں ہمیشہ ہماری بہادر اافواج کے لئے انسپائریشن کا باعث بنی رہیں گی ۔ مولانا کوثر نیازی مرحوم سیاست کے ساتھ علم و ادب میں بھی ناموری کا مقام رکھتے ہیں ۔ڈاکٹر اجمل نیازی کی علمی و ادبی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے ۔کرکٹ میں مصباح الحق خان نیازی قومی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کے ساتھ ساتھ کئی عالمی ریکارڈ قائم کر چُکے ہیں ۔ میانوالی کے ایک دوسرے نیازی عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی ہیں جنہوں نے لوک موسیقی کی دنیا میں اپنے لئے لیجنڈ کا مقام بقائے دوام کے طور پر حاصل کیا ہے ۔ڈاکٹر شیر فگن خان نیازی مرحوم کو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے صفحات سے کبھی حذف نہیں کیا جا سکتا۔ غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں میں نیازیوں نے اپنا لوہا منوایا۔
عمران خان کے خاندان کی تین نسلیں پاکستان اور نظریہ پاکستان سے جُڑی ہوئی ہیں ۔ ’’ تحریکِ پاکستان سے تحریک انصاف تک ‘‘ کی داستان پاکستان اور اس کے نظرئے سے اس خاندان کی وابستگی کا ایک اُجلا دبستان ہے ۔ میانوالی کے ڈاکٹر محمد عظیم خان شیر مان خیل کا یہ گھرانہ اپنے علاقے میں تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھا ۔ ڈاکٹر محمد عظیم خان کے بیٹے اور عمران خان کے والد انجینئر اکرام اللہ خان نیازی 23 مارچ 1940 ء کے اُس تاریخی جلسہ عام میں بھی شریک ہوئے تھے جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی ۔ عمران خان کے والد نے 1964 ء کے انتخاب میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کا ساتھ دیا تھا ۔ اور اس وقت کے گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان آف کالاباغ کے دباؤ میں آنے کی بجائے اپنی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ میانوالی میں جلسہ عام کے موقع پر محترمہ فاطمہ جناح ؒ کے میزبان مولانا نیازیؒ کے ساتھ عمران خان کا خاندان ہی تھا ۔جنابِ آصف علی زردار ی اور میاں نواز شریف جس انداز کی سیاست کرتے ہیں عمران خان کی سیاست ان سے مختلف ہے ۔ یہ روایتی اور نئی سیاست کا مقابلہ ہے جو دلیل کے ساتھ ہوناچاہئیے ذاتی حملے کبھی بھی سود مند ثابت نہیں ہو تے ۔۔ ۔۔۔۔