(شــاعــری* ) نوآموز شعراء وشاعرات کے کیے ایک معلوماتی مضمون)
*شــاعــری*
( نوآموز شعراء وشاعرات کے کیے ایک معلوماتی مضمون)
تحریر ……….. عائشہ قاسم عاشی
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر” ہے اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں، جذبات اور احساسات کے طابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نےکوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ( موزوں الفاظ میں حقائق کی تصویر کشی کو شاعری کہتے ہیں۔) شعر تعبیر ہے تخیل ہے اسی لیے لاکھوں موزوں کلام ایسے ہیں جو شعر نہیں… شعر کا پہلا عنصر وزن ہے اور دوسرا عنصر خیال حقیقت کو وزن اور خیال کے سانچے میں ڈھالنا کمال سخنوری ہے
تفصیل :
شاعری کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام ہے کوئی بھی انسان ہو وہ ہر وقت کسی نہ کسی چیز یعنی قدرت کی تخلیق کردہ اشیاء کے مشاہدے میں یا اپنی ایجادات اور تخلیقات میں مصروف رہتا ہے اور سوچ میں گم رہتا ہے ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگ کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے کچھ لوگ اس کو عام باتوں کی طرح سے یعنی گفتگو سے ظاہر کرتے ہیں کچھ لوگ اس کو لکھ کر یعنی نثر کی صورت میں بیان کرتے ہیں جن کو مضمون، ناول نگاری، افسانوں اور کہانیوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے اور کچھ لوگ مختلف فنون جیسے مجسمہ سازی، سنگ تراشی، نقش نگاری اور فنِ مصوری کے ذریعے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ شاعری ہوتا ہے۔ شاعری بہت سی زبانوں میں کی جاتی ہے ہر زبان کے اپنے اصول ہیں لیکن لفظ شاعری صرف اُردو زبان کے لیے مخصوص ہے شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہ ہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے اس طرح تخلیق کار کو اطمینان ملتا ہے صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں آج بھی تاریخی عمارات و مقامات پہ بنے نقش و نگار آثار قدیمہ سے ملنے والی اشیاء سے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے جس سے موجودہ زمانے کے لوگ بخوبی اندازا لگا سکتے ہیں کہ اُس دور میں لوگوں کے حالات زندگی اور اُن کا رہن سہن کیسا تھا یہی وجہ ہےکہ ہر دور کے شعراء کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے۔ شاعری کی بہت سی اقسام ہیں۔ صنفِ غزل قدیم اصنافِ سخن میں سے ایک ہے اور یہ ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو شاعری کے ساتھ منسوب ہے جس کے اصولوں پہ فارسی اور پنجابی زبانوں میں شاعری لکھی جاتی ہے لیکن لفظ غزل صرف اردو شاعری کے مخصوص ہے شاعری کی مشہور اصناف میں حمد، نعت، مثنوی، مسدس، نظم، پابند نظم، آزاد نظم، قصیدہ، رباعی، سلام اور گیت سرِ فہرست ہیں اُردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر تاریخ میں برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں جن میں میر تقی میر، اسد اللہ غالب، داغ دہلوی اور بہادر شاہ ظفر کے نام سرِفہرست ملتے ہیں تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے مشہور شعراء کا تذکرہ ملتا ہے جن میں برصغیر پاک و ہند کے شعراء شامل ہیں ان شعراء میں سب سے مشہور علامہ محمد اقبال، فیض احمد فیض، حسرت موہانی، ابنِ انشا، حبیب جالب، شکیب جلالی، ناصر کاظمی، محسن نقوی،احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، قتیل شفائی کے نام ملتے ہیں۔
اجزائے شاعری :
شاعری میں مندرجہ ذیل اجزاء/تراکیب ہو سکتی ہیں۔
شعر :
شعر غزل کے ایک حصے کو کہتے ہیں ۔ شعر کی سطر کو مصرع کہا جاتا ہے، اشعار پہ مشتمل مجموعہ کو غزل کہتے ہیں ایک شعر میں دو مصرعے ہوتے ہیں۔ پہلے مصرعے کو مصرع اولیٰ اور دوسرے کو مصرع ثانی کہتے ہیں غزل میں موجود اشعار کے مختلف نام ہیں پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے جس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف استمال ہوتا ہے غزل کے آخری شعر کو مقطع کہا جاتا ہے جس کے پہلے مصرع میں اکثر شاعر اپنا تخلص استعمال کرتےہیں اور دوسرے مصرع میں قافیہ کے ساتھ ردیف کا استمال کیا جاتا ہے مطلع اور مقطع کے درمیان موجود غزل کے تمام اشعار (ہرایک شعر کو) کو بیت کہتے ہیں.
بیت الغزل :
غزل کے سب سے بہترین شعر کو بیت الغزل کہتے یہں۔ مثلاً:
مجروح سلطان پوری کا ایک شعرملاحظہ کریں:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
غزل :
غزل کا لفظ غزال سے نکلا ہے اور غزال ہرن کو کہتے ہیں غزل "ہرن کے گلے سے نکلنے والی اُس آواز کو کہا جاتا ہے جب وہ شیر کے خوف سے بھاگ رہی ہوتی ہے غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عشق و محبت کا ذکر کرنا بھی بتایا گیا ہے۔
اشعار پہ مشتمل مجموعہ غزل کہلاتا ہے اک غزل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے پہلے حصلے کو مطلع کہا جاتا ہے جس میں دو مصرعے ہوتے ہیں پہلے مصرع کو مصرع اولیٰ اور دوسرے مصرع کو مصرع ثانی کہتے ہیں مطلع کے دونوں مصروں میں قافیہ اور ردیف استمال ہوتا ہے لیکن کسی غزل میں ردیف لازی جز نہیں ہے قافیہ کے بعد اگر ردیف نہ بھی لکھا جائے تو کوئی قید نہیں غزل کے دوسرے حصے کو مقطع کہا جاتا ہے جس کے پہلے مصرعے یعنی مصرع اولیٰ میں اکثر شاعر اپنا تخلص استمال کرتا ہے اور دوسرے مصرعے یعنی مصرع ثانی میں قافیہ اور ردیف استعمال ہوتا ہےغزل کے تیسرے حصے کو اشعار کہا جاتا ہے یعنی مطلع اور مقطع کے درمیاں والے مصرعوں کو اشعار کہتے ہیں
غزل کے کم از کم اشعار کی تعداد پانچ ہوتی ہے اس سے زیادہ اشعار لکھنے کی کوئی قید نہیں لیکن 11 اشعار موزوں جانے جاتے هیں.
حمد :
حمد ایک عربی لفظ ہے،جس کے معنی ’’تعریف‘‘ کے ہیں۔ اللہ کی تعریف میں کہی جانے والی نظم کو حمد کہتے ہیں۔
ہجو :
ایسا کلام یا ایسی نظم، خواہ کسی بھی ہیئت میں ہو، جس میں کسی کی مخالفت میں اس پر طنز کیا جائے یا اس کا مذاق اڑایا جائے۔
مصرع:
شعر کی ایک سطر کو مصرع کہتے ہیں۔
مطلع:
کسی بھی غزل کا (شاعری) میں پہلے شعر کو مطلع یا حسن مطلع کہتے ہیں جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔
مقطع:
مقطع کے معنی قطع کرنے کے ہیں چونکہ شاعر اپنی شاعری کا اختتامی شعر میں اپنا تخلص استعمال کرتا ہے، اسی آخری شعر کو اسے مقطع کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر نجؔف شیرازی کا مقطع دیکھیں جب سے دیکھا تجھے حال یہ ہے مرا مجھ کو کہتا ہے پاگل زمانہ نجؔف
مدح:
مدح کے معنی تعریف و توصیف کے ہیں اور یہ عموماً قصیدہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ قصیدے کا سب سے ضروری جز مدح سرائی ہے ۔ اور اسی پر قصیدے کی بنیا د ہوتی ہے۔ عربی قصائد میں مدح حقیقت اور واقعیت سے بھر پور ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک عرب شاعر کو کسی نے اپنی مدح پر مجبور کیا تو اس نے جواب دیا کہ ” تم کچھ کرکے دکھاؤ تو میں تمہاری مدح کروں۔“
منقبت :
اشعار کے ذریعے کسی کی تعریف کرنے کو منقبت کہتے ہیں لیکن یہ لفظ سیدنا حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کی تعریف میں لکھے ہوئے اشعار کو کہا جاتا ہے۔
مثنوی :
مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبےاور طویل قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے لیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اس کی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔
مناجات :
مناجات کا مطلب ہے دعا وغیرہ۔ زبانوں کے اختلاف کو الگ رکھ کر اگر ہم تمام مذاہب کی الہامی کتب کا غور وفکر کے ساتھ مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مذاہبِ عالم میں جو دعائیں اور حمدیں پڑھی جاتی ہیں ان کے معنی اور مفہوم میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، چاہے ہم اسے حمد کہیں، ہندوآرتی، بدھسٹ وندنا، یہودی سالم، پارسی یاسنا یہودی و عیسائی افراد اپنی ہر دعا اور حمد کی ابتداءاور آخر میں ”ہالّےلُو یاہ“ Hallelujah پکارتے ہیں۔ ”ہالّےلُو“ یعنی حمد کرو ”یاہ“ لفظ یہواہ یعنی خدا کا مخفف ہے۔ ہالّےلُو یاہ کے لغوی معنی ہیں خدا کی حمد کرو۔ عربی میں اس کا ترجمہ ”الحمدﷲ“ ہوگا۔ اسی طرح ہندی میں بولا جانے والا لفظ ”ہری اُوم“ یا ”ہرے اوم“ کے لغوی معنی بھی الحمدﷲ کے ہیں۔ سنسکرت زبان کے لفظ اوم ` کے لغوی معنی ایسی ہستی اور نور کے ہیں جو کائنات کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے یہاں کائنات پر محیط اس ہستی سے مراد اﷲ ہی ہے اور ہری یا ہرے حمد و ثنا کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح اہلِ ہنود ہر روز صبح جو آرتی (حمد) پڑھتے ہیں ”اوم جے جگدیش ہرے“ اگر اس کا ترجمہ کیا جائے تو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت آپ کے ذہن میں گونجنے لگے گی ”اوم`“ کے معنی اﷲ کے ہیں ”جے“ کہتے ہیں کسی شے کے مالک، رب اور پروردگار کو ”جگدیش“ کا مآخذ جگ ہے جس کے معنی عالم کے ہیں۔ جگدیش کے معنی عالمین اور کائنات کے ہیں اور ”ہرے“ حمد کےِلیے استعمال ہوتا ہے۔ چناں چہ ”اوم جے جگدیش ہرے“ کا ترجمہ ہوگا اﷲ رب العامین کی حمد کرو یعنی الحمد اﷲ رب العالمین!
مسدس :
مسدس چھ شعروں کے ایک قطعہ پر مشتمل شاعری کو کہتے ہیں۔ سب سے مشہور مسدس مسدس حالی ہے۔
نعت :
پیغمبرِ اسلام نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کے نظمی اندازِ بیاں کو نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہا جاتا ہے۔عربی زبان میں نعت کے لئے لفظ "مدحِ رسول” اور "مدحت رسول” (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ نعتیں لکھنے والے کو نعت گو شاعر جب کہ نعت پڑھنے والے کو نعت خواں یا ثئاء خواں بھی کہا جاتا ہے۔
نظم :
نظم سے مراد ایسا صنف سخن ہے جس میں کسی بھی ایک خیال کو مسلسل بیان کیا جاتا ہے۔ نظم میں موضوع اور ہیئت کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔
پابند نظم :
پابند نظم اس نظم کو کہتے ہیں جس میں ردیف ، قافیہ اور بحر کے مقررہ اوزان کی پابندی کی جاتی ہے۔ پابند نظم میں نہ موضوعات کی قید ہوتی ہے اور نہ اشعار کی تعداد کی۔ شاعر کسی بھی موضوع پر اور کتنی ہی تعداد میں اشعار کہہ سکتا ہے۔ بعض شاعروں نے چار چھ اشعار پر مشتمل پابند نظمیں بھی کہی ہیں۔ اردو شاعری کا پڑا حصہ پابند نظموں پر مشتمل ہے۔
ثلاثی :
ثلاثی کو مثلث اور تثلیث بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تین مصرعوں پر مشتمل صنف سخن ہے جس کے تینوں مصرعے برابر ہوتے ہیں ۔ البتہ کبھی پہلا اور دوسرا، کبھی پہلا اور تیسرا اور کبھی تینوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور یہ تینوں مصرعے مل کر ایک اکائی بنتے اور مثلث کہلاتے ہیں۔ یہ اکائی ایک مکمل معنوی نظام کی حامل ہوتی ہے اور کئی تین مصرعوں کی اکائیاں مل کر بھی مثلث کہلاتی ہیں۔ اردومیں ثلاثی ایک باقاعدہ فنی ہیہت کی حیثیت سے مقبول رہی ہے۔
قافیہ :
قافیہ کا لفظ ‘قفا’ یا ‘قفو’ سے مشتق ہے اور اسکے لغوی معنی ‘پیچھے آنا والا’ یا ‘پیرو کار’ کے ہیں، چونکہ عربی شاعری میں شعر کا اختتام قافیہ پر ہوتا ہے اسلیے اسے یہ نام دیا گیا، واضح رہے کہ فارسی اور اردو شاعری میں ضروری نہیں کہ شعر کا اختتام قافیے پر ہو، بلکہ زیادہ تر شعر کا اختتام ردیف پر ہوتا ہے جو فارسی شاعروں کی ایجاد ہے اور عربی شاعری میں مستعمل نہیں۔
اصطلاح میں قافیہ حروف اور حرکات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کی تکرار مختلف الفاظ کے ساتھ شعر کے آخر یا ردیف سے پہلے آئے جیسے دمَن، چمَن، زمَن یا دِل، محفِل، قاتِل وغیرہ الفاظ کو ہم قافیہ کہا جائے گا۔
ردیف :
ردیف کے لغوی معنی ہیں "گھڑ سوار کے پیچھے بیٹھنے والا”۔ شعری اصطلاح میں ردیف سے مراد وہ لفظ یا الفاظ کا مجموعہ ہے جو قافیے کے بعد مکرر آئیں اور بالکل یکساں ہوں۔ ردیف کا ہر مصرعے میں ہونا لازمی نہیں ہے۔ عام طور پر یہ غزل کے اشعار میں مصرعۂ ثانی میں دہرائے جاتے ہیں۔
قصیدہ:
لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معنی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں۔
قطعہ :
قطعہ شاعری کی ایک صنف ہے یہ چار مصرعوں پہ مشتمل ہوتا ہے اس کے پہلے مصرعے میں قافیہ یا ردیف کی کوئی قید نہیں ہے لیکن دوسرے مصرعے میں قافیہ لازمی موجود ہوتا ہے اس کے بعد اگر ردیف بھی لگا دیا جائے تو مصنف کی مرضی ہے ورنہ ردیف کے بغیر بھی قطعہ کے اصول مکمل ہو جاتے ہیں لیکن قافیہ ضروری ہے پہلے دو مصرعوں کے بعد تیسرا مصرع آتا ہے اُس میں بھی قافیہ اور ردیف کی کوئی قید نہیں لیکن چوتھے اور آخری مصرعے میں دوسرے مصرعے کا ہم آواز قافیہ ضروری ہوتا ہے اور دوسرے مصرے کے مطابق اگر قافیہ کے ساتھ ردیف ہے تو وہی ریف چوتھے مصرعے میں قافیہ کے بعد اس طرح لکھا جاتا ہے اس کے علاوہ قطعہ اس طرح بھی لکھا جاتا ہے کہ پہلے دونوں مصروں میں قافیہ یا قافیے کے ساتھ ردیف لگایا جائے مگر تیرے مصرعے کو قافیہ اور ردیف سے آزاد رکھا جائے مگر آخری مصرعے میں یعنی چوتھے مصرہ میں پہلے دو مصروں کا ہم آواز قافیہ اور وہی دریف لگایا جاتا ہے
رباعی :
رباعی عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے ، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے۔ تیسرے مصرعے میں اگر قافیہ لایا جائے تو کوئی عیب نہیں۔ اس کے موضوعات مقرر نہیں۔ اردو فارسی کے شعرا نے ہر نوع کے خیال کو اس میں سمویا ہے۔ رباعی کے آخری دو مصرعوں خاص کر چوتھے مصرع پر ساری رباعی کا حسن و اثر اور زور کا انحصار ہے۔ چنانچہ علمائے ادب اور فصحائے سخن نے ان امور کو ضروری قرار دیا ہے۔ بعض نے رباعی کے لیے چند معنوی و لفظی خصوصیات کو بھی لازم گردانا ہے۔ عروض کی مختلف کتابوں میں رباعی کے مختلف نام ہیں۔ رباعی ، ترانہ ، اور دو بیتی بعض نے چہار مصرعی ، جفتی اور خصی بھی لکھا ہے۔
ماہیا :
ماہیا ، پنجابی شاعری کی صنف اور پنجابی تہذیب کا حصہ ہے ۔ ’’ماہیے ‘‘ بھی گائے جاتے ہیں۔ اس کا صحیح عمل دو اوزان پر مشتمل ہے جو یہ ہے
1۔ فعلن فعلن فعلن /فعلن فعلن فع / فعلن فعلن فعلن
2 ۔ مفعول مفاعیلن /فعل مفاعیلن / مفعول مفاعیلن دوسرے مصرعے میں ایک سبب کم ہوتا ہے۔ اگر تینوں مصرعے برابر ہوجائیں تو بھر ثلاثی ہوجائے گا ۔ اردو میں ماہیوں کی روایت ۱۹۳۹ء سے ملتی ہے۔
سلام:
یہ نظم کی ایک قسم ہے جو زیادہ تر شہداء کربلا کے مدح میں لکھی جاتی ہے۔
سہرا :
شادی کے موقع پر دلہا کے لئے گائے جانے والے گیت کو سہرا کا نام دیا جاتا ہے۔
تحت اللفظ :
بغیر ترنم کے شاعری کی ادائیگی کو تحت اللفظ کہا جاتا ہے۔
تخلص:
وہ قلمی مختصر نام جو شاعر یا ادیب اپنے اصل نام کی بجائے رکھ لیتے ہیں۔
واسوخت:
واسوخت محبوب کے بے وفائی یا لاپروائی کے بیان کے لئے لکھی جانے والی شاعری کو کہتے ہیں۔
گیت:
گیت ہندی الاصل صنف شاعری ہے ۔ اردو پر ہندی کے جو اثرات ترتیب پائے ہیں اس کا ایک نتیجہ گیت بھی ہے جس کو اردو میں بغایت مقبولیت حاصل ہوچکی ہے ۔ اردو میں گیت ہندی بحروں ہی میں لکھے جاتے ہیں ۔ نظم کی طرح گیت میں کسی موضوع کی کوئی پابندی نہیں ۔ اس میں ہر نوع کے موضوع پرطبع آزماءی کی جاسکتی ہے ۔ گیت مٰں محبت اور نغمگی کے عناصر کی آمیزش ہوتی ہے اور اس کا مزاج ان عناصر سے تشکیل پاتا ہے جن میں نسائیت ہوتی ہے ۔غنائیت گیت کے لئے لازمی ہے اور ترنم ، جھنکار اور تھاپ اس کی خصوصیات ہیں ۔ اس کا اپنا ایک تہذیبی مزاج ہے۔ گیت سروں کی ایک ایسی لہر ہوتی ہے جس میں انسانی آواز بھی شامل ہو اور وہ گیت کے بول گائے۔ گیت کو گایا جاتا ہے اور انسانی آواز جو سر میں ادا کی جاتی ہے، اس کے ساتھ آلات موسیقی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
قوالی:
قوالی موسیقی کی ایک قسم ہے لیکن موسیقی کی اس قسم کو لوگوں تک پیغام پہنچانے اور اُس کے زیادہ اثر انداز ہونے کا اک منفرد اور انوکھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے قوالی کی زیادہ تر تاریخ برصغیر ہندوستان میں تصوف سے جا ملتی ہے کہا جاتا ہے قوالی کے سب پہلے خالق امیر خسرو تھے جن کا شمار صوفیوں میں ہوتا ہے ان کو آلاتِ موسیقی سے خاصی دلچسپی تھی اور انہوں نے ہی قوالی کی بنیاد رکھی شعرا کے مطابق عام کہی گئی بات کی نسبت شاعری میں کہی گئی بات زیادہ دل پہ اثرانداز ہوتی ہے اور اسی طرح شاعری اگر آلات موسیتی کے ساتھ ملا کر موسیقی کی شکل میں ہو تو اور بھی زیادہ دل پہ اثر کرتی ہے اور لوگ اُسے توجہ سے سنتے ہیں لہذا تصوف کے دور میں قوالی کی بنیاد پڑی جس کا مقصد اشاعتِ اسلام تھا تاکہ لوگ صوفیائے کرام کے کلام کو یعنی انکی شاعری کو دلچسپی کے ساتھ سنیں اور اس کا اثر لیں تاریخ سے ملتا ہے قوالی صوفیائے کرام کے آستانوں پہ ہوا کرتی تھی جسے لوگ شوق سے آ کر سنا کرتے تھے یہی وجہ ہے آج بھی قوالی درباروں کے ساتھ منسوب ہے قوالی پڑھنے والے کو قوال کہا جاتا ہے سب سے زیادہ مشہور قوال برصغیر پاک و ہند میں ملتے ہیں جن میں سب سے مشہور قوالوں کا تعلق پاکستان سے ہے پاکستان کی سر زمین نے بہت سے مشہور قوالوں کو جنم دیا جن میں فتح علی خان، نصرت فتح علی خان، غلام فرید مقبول صابری، بدر میاں داد، عزیز میاں قوال کا نام سرفہرست ملتا ہے۔
تلمیح:
تلمیح کے لغوی معنی ہیں اِشارہ کرنا۔ شعری اصطلاح میں تلمیح سے مراد ہے کہ ایک لفظ یا مجموعہ الفاظ کے ذریعے کسی تاریخی، سیاسی، اخلاقی یا مذہبی واقعہ کی طرف اشارہ کیا جائے۔ تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وُسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ مطالعہ شعر کے بعد پورا واقعہ قاری کے ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے