سیاسی میچ : بلاول 12واں کھلاڑی ہے کیا؟
نظرَ قلم ………..
نعیم مسعود
سیاسی میچ : بلاول 12واں کھلاڑی ہے کیا؟
عصرحاضر میں نہ تو شہد اور دودھ کی نہروں نے بہنے کا آغاز کیا ہے اور نہ ایسی ہی کوئی خرابی ہے کہ ہم ’’ناکام، ناکام ، ناکام‘‘ کا راگ الاپنے بیٹھ جائیں۔گویا شادیانے بجانا بھی سیاست کاری ہے اور بلاوجہ و بلاضرورت نوحہ گری بھی کلاکاری ہے!! بہرحال عصرحاضر میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اکیسویں صدی والی جمہوریت ہے‘ جدتوں کی علمبردار حکومت ہے اور دیدہ ور اپوزیشن ہے؟ پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں آمریت اور جمہوریت کے مقام اعراف والوں کا کردار درست تھا یا آمرپسندی راہ راست پر رہی اور کیا لوٹوں ہی نے کوئی ادل بدل سے انقلاب پربا کردیا یا سیاست کے مستند راجہ گدھوں نے ریاست کو امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کردیا۔
نہ! نہیں میں بلاول کا موازنہ کسی دوسرے بڑے لیڈر سے کرنے کا رسک نہیں لے رہا۔ ماضی میں ایک دفعہ ’’بلاول زرداری سے سراج الحق تک!‘‘ (نوائے وقت : 7اپریل 2014ء) کالم لکھا تو جماعت اسلامی کے دوستوں نے میرے عنوان کا مذاق بنادیا تھا کہ کہاں سراج الحق ’’صاحب‘‘ اور کہاں بلاول۔ اسی طرح پچھلے دنوں مظفرآباد (آزادکشمیر) کی ایک محفل میں، میں نے بلاول بھٹو اور عمران خان کی بات کو بیک وقت شروع کیا ہی تھا کہ تحریک انصاف کے دوست سراپا احتجاج بن گئے اور کہنے لگے کہاں خان ’’صاحب‘‘ اور کہاں بلاول؟ پس میں نے زبان پر تالہ لگالیا کہ بس یہاں سب پارٹیاں اور سبھی لیڈران آزادی رائے مانگنے میں ماہرہیں‘ لیکن دینے میں بہت بخیل ہیں۔ ان تجربات کے بعد میں بلاول اور میاں نواز شریف کا ذکرخیرکبھی اکٹھا نہ کرسکا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میاں نوازشریف بچپن ہی سے سکالر اور رہبر و رہنما تھے‘ وہ توکبھی کونسلرکا الیکشن بھی ’’نہیں‘‘ ہارے اور کسی نہ ہی کسی ضیائی تالیف ہی نے ان کی کاروباری توانائی کو سیاسی توانائی میں بدلا۔ اسی طرح عمران خان بھی 47 سال سے حکومتی کھلاڑی رہے ہیں۔ گویا ان کی سیاست صوبہ سرحد سے لے کر خیبر پختون خوا تک محیط ہے۔ اسی طرح سراج الحق صاحب کبھی جمعیت کے نوجوان سیاستدان نہیں رہے۔ براہ راست آفاق سے اترے پھرقومی امیر اور ایوان بالا کے ممبر بن گئے ۔مان لیں اب بلاول بھٹوزرداری بھی لیڈربن چکا۔ اس کو جب تجربہ کار مشورے دیتے ہیں، تو ان میں سے چناؤ کرنا ہی بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ سیاست میں کسی بلاول کو بارہواں کھلاڑی نہ سمجھیں۔ ہم نے بارہویں کھلاڑیوں کو اپنی آنکھوں سے کامیاب وکامران کپتان بنتے بھی دیکھا ہے ۔ کھلاڑی کھلاڑی ہوتا ہے 12واں یا 17واں۔
مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی خان کے ساتھ ڈاکٹر فاروق ستارکو بھی اگرچار اُن بڑے لیڈران کے سنگ شمارکرلیں جو آج کل ملک کے کوچہ و بازار میں جوش خطابت اور شیریں بیانیوں کا رنگ جمائے ہوئے ہیں یعنی (1) میاں نوازشریف وزیراعظم پاکستان‘ (2) عمران خان‘ (3) بلاول بھٹو زرداری اور( 4)سراج الحق صاحب۔ عمران خان کے 2014ء کے دھرنے سے، جلسہ اڈا سٹاپ رائے ونڈ اور دھرنا پلس 2نومبر (جسے کچھ من چلے 2 نومبرکے بجائے 2 "نمبر” بھی کہتے ہیں۔ تاہم راقم اس سے متفق نہیں۔) پھر بلاول زرداری کی کشمیر الیکشن کمپین سے جلسہ ڈہرکی تک میاں نواز شریف محترم کے جلسہ کوہاٹ سے جلسۂ پھول نگر تک اور اسی طرح سراج الحق صاحب کے پی کے سے پنجاب تک اجتماع عام و اجتماع خاص تک…سبھی لیڈران نے پاپولر باتوں، سیاسی حربوں پر مشتمل معروف جملوں اور طرز تکلم کے علاوہ کیا کیا؟ ہم تو حیران تھے کہ ایم کیو ایم پرویز خٹک پر آرٹیکل 6کے اطلاق کی باتیں کرنے لگی ہے۔واہ، دیکھے کون کیا کہہ رہا ہے!!! کون سے فارمولے انہوں نے یا سبھی صف اول کے سیاسی قائدین نے قوم کے آگے رکھے؟
مجھے معلوم ہے مجھ سے ناچیز کو پڑھنے کے بعد کئی سیاستدان اور سبھی اکابرین اور احباب کہیں گے کہ ’’لوسن لو، اس بندے کوکوئی بھی لیڈر پسند نہیں!‘‘ جی! ایسا نہ کہئے گا ، میں بھی پاکستانی مخلوق ہوں، مجھے یہ سبھی پسند ہیں، اور یہ سبھی لیڈران میرے لئے قابل احترام ہیں۔ میں بس یہ پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ سبھی سیاستدان حال کو ’’بے حال اور بدحال‘‘ چھوڑ کر 2018ء کے الیکشن کی فکر میں پڑ گئے ہیں۔ کیوں؟ ابھی تک تو آدھی سے زیادہ اسمبلی کو 18ویں ترمیم کی سمجھ نہیں آئی۔ قانون ساز جب اکیڈمک مشقت‘ سنجیدہ گفت وشنید آئینی اصلاحات اور اصطلاحات ہی کی جان کاری سے دور رہیں گے تو پھر انہیں قانون ساز اسمبلی کے باسی ہوتے ہوئے بھی آرمی اور عدلیہ سے ’’سیکھنا اور سمجھنا‘‘ پڑے گا اور یہ المیہ ہے۔ ٹی اوآرز نہیں بن سکے تھے۔ یہ المیہ تھا اور المیہ ہے چلیں‘ اگرپانامہ لیکس سچ اورجھوٹ کا ففٹی ففٹی ہے تو اپوزیشن ایک صفحہ پر نہیں آسکی، یہ المیہ ہے۔ بلاول بھٹو اگر ’’چاچاعمران‘‘ کہتا ہے تو یہ بھی المیہ ہے۔ وہی عمران خان نوجوانوں کا راگ الاپتے رہتے ہیں‘ لیکن جب اکیڈمک سیاسی گھرانے کے 27سالہ بلاول بھٹو کی بات کرتے ہیں تو اسے بھی بچہ کہہ دیتے ہیں۔ بلاول اٹھتا ہے تو چاچا ماما کہتا ہے۔ ادھر سراج الحق بھی کرپشن فری پاکستان چاہتے ہیں۔ اگر واقعی سبھی سنجیدہ ہیں تو مولانا و عمران و میاں و بلاول و سراج الحق میں سے کون کسی فورم پر کھڑے ہوکر بھارت اور پاکستان کو بتاتا ہے کہ ایٹم بم کا کیا فائدہ ہے اور کیا نقصان ہے؟ بارڈر سکیورٹی کے ساتھ انسانی سکیورٹی، قانون سکیورٹی‘ آئینی سکیورٹی‘ ٹریفک سکیورٹی‘ سول ایوی ایشن سکیورٹی‘ اکنامک سکیورٹی اور نفسیاتی و سماجی سکیورٹی بھی کتنی اہم ہے۔ ان سبھی سکیورٹیزکی کوآرڈینیشن اور سنکرونائزیشن کے بغیر ہم جدید اورگلوبل دنیا میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتے۔ بلاول اورعمران خان کی آکسفورڈ کی تعلیم‘ مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سراج الحق کی اسلامی تعلیمات نے پریکٹیکل سیاست کو کیا دیا؟؟ کرپشن پانامہ اقربا پروری، رشوت خوری‘ بیوروکریٹک ہٹ دھرمیوں کے خلاف روزانہ میڈیا بھی سقراطیت اور بقراطیت جھاڑتا ہے۔ لیڈران نے کیا عملی فارمولا اور پریکٹیکل کلیہ قوم کو فراہم کردیا؟ مذکورہ لیڈران میں سے کسی ایک نے دلیل کی طاقت سے سی پیک‘ قحط الرجال اور خارجی و داخلی نقائص پر گھسے پٹے جملوں کو بالائے طاق رکھ کرکسی جلسہ‘ کسی دھرنا‘ کسی میڈیا یا کسی تحریر میں چالیس منٹ تک کا مواد قوم کودیا؟ چاروں بڑے بلکہ اسفندر یار ولی خان کے علاوہ سبھی بڑے لیڈر حکومتوں میں ہیں۔ کسی ایک نے اعلیٰ تعلیم و تحقیق اور صحت کے حوالے سے اہتمام اور احترام کیا؟ ترکی کو دوست اور چائنہ کو محبت رکھنے والوں نے کبھی دیکھا کہ وہاں محقق اور صاحب علم کی عزت، سیاست دانوں سے بھی کتنی زیادہ ہے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔ معذرت کے ساتھ سیاسی عاقبت نااندیشوں کے سبب اسٹیبلشمنٹ پوری طمطراقی اور طنطنے سے گزشتہ کئی عشروں سے اپنا ایجنڈا دیتی ہے جس کے خصوصیت کو لیڈر بھی نہیں بدل سکتا بلکہ ایسے لیڈرکی پہلے سلیکشن‘ پھرالیکشن ہوتا ہے کہ عملی جامہ پہنائے۔ تقریروں کے شور اور سوتنوں والے طعنے نہیں! دلیل کی قوت اورسکیموں کی شفافیت اس جدید دور میں بھی نہ آئی توامریکی شہد کی نہروں کے بعد اب چینی‘ دودھ کی نہروں کے بہنے سے دو چمچ شہد یا دوگھونٹ تک دودھ نہیں ملے گا‘ بلکہ ہم بہہ جائیں گے۔