میانوالی کا شٹل کاک برقعہ
میانوالی کا شٹل کاک برقعہ
ڈهک کی پہاڑی سے پار
تحریر :. ظفر خان نیازی
ایک دلچسپ تضاد میں نے اپنے شہر کے کلچر میں اس وقت بھی دیکھا تھا ۔ شہر میانوالی میں تو یہ شٹل کاک برقعہ تھا اور اتنی پابندی تھی کہ۔گھر سے کوئی خاتون اس برقعے کے بغیر نہیں نکلتی تھی ، دوسری طرف اسی قبیلے کی خواتین اپنے آبائ دیہاتوں میں بغیر کسی برقعے کے ہوتی تھی ۔ نسبتا” غریب خواتین کھیتوں میں بھی جاتی تھیں ، گھاس اور ایندھن وغیرہ لاتی تھیں بلکہ یہ شعبہ سرے سے خواتین کا ہی تھا ۔ شہر میانوالی آکر امیر ہو چاہے غریب ، وہ سخت برقعہ کرتی تھیں اور لاہور جا کر برقعہ پھر اتر جاتا تھا ۔ اسلام آباد میں ایک دفعہ بہت دلچسپ سین ہوا۔ میں ڈاکٹر جی ایم ملک کے پاس بیٹھا تھا جو کہ اس وقت پمز ہاسپیٹل میں ہڈیوں کے امراض کےماہر تھے ۔ ڈاکٹر صاحب بہت خوش مزاج ، ہنس مکھ اور متواضع مزاج کے بہت پیارے انسان ہیں ۔ بات بات پر لطیفہ چٹکلہ ان کا معمول تھا ، وہ نمل کے ہیں اور نمل سڑک کنارے ایک بلڈنگ ہسپتال کیلۓ تعیر کر رکھی تھی لیکن ان کے بچے غالبا” باہر شفٹ ہو گۓ ہیں ۔ ان کے روم میں میانوالی کے ایک سرکردہ سیاسی روکھڑی خاندان کے ایک فرد اپنے بیوی بچوں سمیت آئے اور ان کے فورا” بعد ہی ان کے مخالف گروپ کے عیسےخیل کے انتہائ سرکردہ صاحب جو کبهی وزیر بهی رہ چکے تهے ، اپنے بیوی بچوں سمیت آگۓ ۔ دونوں پارٹیوں میں سے کسی بھی خاتون یا لڑکی کا برقعہ یا حجاب نہیں تھا ۔ ان دونوں گروپوں نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا ۔ بعد میں کیا ھوا ، مجھے معلوم نہیں کیونکہ اسی دوران میں اپنی روایت کے مطابق میں کسی کو سلام کۓ بغیر کھسک کر باہر آگیا تھا –
میرا مطلب آپ کو یہ بتانا ہے کہ میانوالی کا کلچر وکھری ٹائپ کا ہے ۔ ایک بات بلکہ پرانی قابل فخر روایت یہ تھی کہ لڑائ کے دوران چاہے سخت فائرنگ ہو رہی ہوتی اگر کوئ خاتون درمیان میں آ جاتی تو فائرنگ فورا” رک جاتی ۔ اس کے علاوہ کوئ مخالف ، جانی دشمن اگر خواتین کے ساتھ جا رہا ہوتا تو اس پرحملہ کرنا یا اس کا راستہ روکنا انتہائ کمینہ پن سمجھا جاتا تھا –
پروفیسر منور علی ملک جن کا بنیادی تعلق میرے دادا کے شہر داود خیل سے ھے ، کہہ رھے ہیں :–
” بھائ ظفر خان ، ھمارے دیہات میں یہ کلچر عام تھا کہ خواتین برقعہ یا نقاب کے بغیر بڑے اعتماد سے گلیوں میں چلتی پھرتی نظر آتی تھیں- اس کی دو وجوھات تھیں- ایک تو خواتین کا کردار بہت مضبوط تھا، دوسرے مردوں کی آنکھ میں حیا تھی- خواتین کا احترام اتنا تھا کہ اگر خواتین صلح کے لیے کسی کے گھر چلی جاتیں ، تو اس گھر کے بزرگ قتل تک یہ کہہ کر معاف کر دیتے تھے کہ “ کال سریاں نوں خالی ہتھ ناں ولا سگدے“ ان خواتین کی سفارش قبول کر کے انہیں دوپٹے بھی دے کر بڑے احترام سے رخصت کیا جاتا تھا- آہ !!! کیا خوبصورت کلچر تھا وہ !”
– اس کلچر میں اب کتنی تبدیلی آئ ہے یہ میں نہیں جانتا، اب برقعہ کا کیا عالم ہے یہ بهی میں زیادہ نہیں جانتا ، اتنا ضرور ہے کہ اب بھی میانوالی جانا ہو تو میری بیوی سب سے پہلے برقعہ ڈھونڈ رہی ہوتی ہے , جسے وہ میانوالی کی حدود میں ڈھک کی پہاڑیوں کے بعد ہی کہیں استعمال کرتی ہے –
میرے لڑکپن کے دوست صلاح الدین سنبل کہہ رہے ہیں :-
بآلکل درست ہمآری خوآتین کو بھی ڈھک یآ وآں بچھرآں کے بعد ہی برقعے یآد آتےتھے —
اپنی ایک پرانی پوسٹ سے یہ بات دہرانا ضروری سمجهتا ہوں :-
"میرے لئے یہ پشتون سٹائل برقعہ بہت جذباتی کشش اور نفسیاتی طور پر تحفظ کا احساس رکھتا ہے ۔ میں 4/5 سال کی عمر میں والد کے ساۓ سے محروم ہو گیا تھا سو جب میری اماں کہیں جاتیں تو میں اس برقعے کو پکڑ کر ساتھ چلتا جاتا اور زیادہ گرمی ھوتی تو میں اس خیمہ نما برقعے میں آجاتا – اس میں جو حبس اور گرمی ھوتی اس کا مجھے بخوبی اندازہ ھے ، اس طرح کے برقعے میں ان خواتین پر کیا گزرتی هوگی جو میانوالی کے 120 درجہ کی گرمی میں سفر کر رہی ہوتی ہیں ، مجھے اس کرب اور دکھ کا علم ہے سو کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آۓ کہ میں نے اس پوسٹ کے ذریعے اس برقعے کا مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے ” –
میں نے بین السطور جو بات کہنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ وہاں ( میانوالی ) خواتین بے شک اس روایتی برقعے میں ہیں لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ خاندانی نظام کا اندرونی میکنزم یا اسٹیبلشمنٹ خواتین کے ہاتھ میں ہے – رشتوں جیسے نازک معاملات میں اماں جی کا حکم چلتا ہے – خاص طور پر جب اولاد جوان ہو جائے ، تو ابا جان گھر کا صدر ممنون حسین بن کر رہ جاتا ہے – یہ بات صرف ہمارے شہر تک محدود نہیں – میں نے بابائے بلوچستان غوث بخش بزنجو مرحوم کا ایک انٹرویو پڑھا تها جس میں انہوں نے بلوچ معاشرت کے حوالے سے یہ کہا تها کہ ان کے ہاں بھی چاردیواری کے اندر خواتین گهر کی مالک ہوتی ہیں اور اہم فیصلے کرتی ہیں –
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ پردہ کا مطلب ہمارے کلچر میں عورت اپنی معاشرت میں غیر فعال ہرگز نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجها جاتا ہے – اور ماں کا کردار مرکزی اور فیصلہ کن ہوتا ہے –
میں نے پہلے کسی پوسٹ کے حوالے سے عرض کیا ہے کہ یہ برقعہ پٹھانی اور روایتی ہے ، اسلام میں خواتین کے پردے کی خاص اہمیت ہے اور اس کے اصول بہت واضح ہیں اور یہ برقعہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہے ۔
مختلف جگہوں پر پردے کے مختلف مظاہر اور مختلف انداز یہ ثابت کرتے ہیں کہ ھمارے بزرگ پردے کی حقیقی روح کو سمجھتے ہوئے لوکل کلچر کو ساتھ لے کر چلنے کے عادی تھے – زندگی کا بیشتر حصہ گزار کر میں اس نتیجے پر پہنچا هوں کہ اگر کسی خاتون میں فطری حجاب اور نسوانیت کا ذاتی احترام نہیں جو پردہ کی اصل روح هے تو سات پردوں میں بھی گل کھلانے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا –
لکی مروت کے بصراللہ جان مروت کہہ رہے ہیں :-
پڑوسی ضلع ھونے کے ناطے ھمارے لکی مروت کا بھی یھی حال ھے- لیکن آج سے چالیس سال پھلے اور اب میں بڑا فرق دیکھ رھاھوں گوکه رفتار سست ھے- جھاں تک ٹوپی والے برقعے کا تعلق ھے، اس کے کچھ فواید بھی ھیں- جس معاشرے میں انسان کی عزت اور اسکا خون سستا ھو وھاں عزت کو چھپا کے رکھنا زیاده بھتر ھوگا- میں اپنے ماحول میں ایسی مثالیں دیکھتا ھوں جھاں دس آدمی اب تک لو میرج کی بھینٹ چڑھ چکے ھیں – تو میرا خیال ھے که پردے میں رھنے دو ، یه عمل بھتر رھے گا-
جی ہاں مروت صاحب ؛ ہم ایک قبائلی طرز معاشرت کے اثرات میں ہیں اور تاریخ کا پہیہ ہماری طرف بہت سست رفتاری سے گھوما ہے
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ نواب آف کالا باغ کے زمانے میں ان کے گھر کی خواتین کے شہر سے گزرنے پر کالا باغ کے بازار یوں معطل ہو جاتے کہ سب لوگ دیواروں کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ نواب صاحب تاریخ کے پہیۓ کو کب تک روک سکتے تھے ، اب صورت حال مختلف ہے ۔ اب ان کی پوتیاں مردانہ وار الیکشن لڑتی پھرتی ہیں —-
یاسر خان نیازی بتا رہے ہیں :—
کئی دیگر روایات روایات کی طرح جدت کا جن اس ٹوپی برقع کلچر کو بھی تقریبا نگل چکا ہے۔۔۔ لیکن میانوالی کے کئی علاقوں بشمول کمر مشانی میں آج بھی سختی سے رائج ہے —
اظہار الحسن کہہ رہے ہیں :-
وہ اچھا دور تھا، گزر گیا، اگر کوئی خاتون اکیلی گاڑی میں سوار ہوتی تو ساتھ والی سیٹیں خالی پڑی رہتی تھیں تا وقتکہ کوئی اور عورت آ کر بیٹھے، مجھے یاد ہے چند جوانوں نے ریل گاڑی کو داودخیل سٹیشن پر اس لئے روک لیا تھا کہ عورتوں کے ڈبے میں مرد کیوں سوار ہیں، جبکہ ان جوانوں کے ساتھ نہ تو خواتین تھیں اور نہ وہ مسافر، آج کل ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔
میری یہ پوسٹ 29 جون 2014 کی ھے – پردے کے موضوع پر میری دو تین پوسٹیں اور بھی تهیں اور میرا ارادہ تھا کہ ان سب کو ملا کر ایک مربوط مفصل آرٹیکل لکهوں – آج اس پرانی پوسٹ پر خوبصورت اور پیارے لوگوں کے تاثرات موصول ھوئے اور میانوالی کی معاشرت کا ایک نایاب فیچر ایک بار پھر آپ کی نظر انتخاب میں آیا – مجھے اس پر خوشی ھے – ان سبھی تاثرات میں تقریبا” میرے مشاہدے کی تصدیق کی گئی ھے – اور زیادہ تر یہ ان احباب کے تاثرات ہیں جو بوجوہ شہر میانوالی سے کوچ کر آئے ہیں – اس میں کوئی شک نہیں کہ میانوالی کے کلچر کا یہ حسیں پہلو ھم لوگ باہر جا کر کبھی بھول نہیں پائے – وقت کی رفتار آئندہ کیا خد و خال مرتب کرتی ھے یہ تو مستقبل ھی بتائے گا لیکن ان تاثرات سے نئی نسل کو یہ اندازہ ھوا ھوگا کہ بظاہر سخت ماحول لیکن حقیقت میں خواتین کا احترام میانوالی کی پہچان تھی جو معاشرت کے کسی بھی انداز اور روپ بھی ختم نہیں ھونا چاہیئے – تاریخ کا پہیہ کتنا ہی گھوم جائے ، ان کال سریوں کی عزت و احترام میں کمی نہیں آنی چاہیئے —