دلائل و براہین کو ’’ بحث و نظر ‘‘ کا حصہ بنائیے!
تحریر: منشاء فریدی
کسی بھی معاصرروزنامہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ علاقائی ، قومی اور بین الاقوامی سطح پر جاری ابحث کوغیر جانبدارانہ انداز میں شائع کرے کیونکہ یہی حسن صحافت ہے ورنہ کوئی بھی جریدہ اپنا وقار کھو بیٹھتا ہے۔ خبریں اخبار یا خبریں میں کام کرنے والی ادار تی ٹیم کا بھی راقم الحروف کے ساتھ اسی طرح کا معاندانہ رویہ ہے۔جس کا پرزور احتجاج کرتا ہوں اور یہ بھی مطالبہ اور اپیل کرتا ہوں کہ چیف ایگزیکٹو خبریں گروپ جناب ضیاء شاہد شاہد صاحب میری یہ تحریر من وعن شائع کریں جس میں مذکورہ احتجاجی سطور بھی عمل اشاعت سے ضرور گزریں ۔
’’ خبریں ‘‘ میں جاری ’’ بحث و نظر ‘‘ کی اس وقت نہ جانے کیوں ضرورت پیش آئی کہ ’’صوبہ سرائیکستان ‘‘ کے معاملے کو مدلل و غیر مد لل انداز میں اٹھائیں۔ اس وقت بغور مطالعہ کررہا ہوں کہ اس ضمن میں لکھی گئی تحریر یں اہمیت بھی رکھتی ہیں اور غیر اہم بھی ہیں ۔عاشق بزدار، رانا محبوب اختر، ظہور دھریجہ و دیگر معزز دانشوروں نے قطع نظر اس کے کہ بندہ بھی قوم پرست ہونے کادعویدار ہے۔ پُر معزز اورمدلل انداز میں حصہ لیاجبکہ اس کے برعکس پنجابی اور مرکز پرست لابی کے ٹھیکیداروں اور کرائے کے ٹٹوواں نے شاید نادیدہ قوتوں کے اشاروں پر سرائیکی اور سرائیکیوں کی جس انداز میں ہرزہ سرائی کی ہے وہ بذات خود نا پسندیدہ عمل ہے ۔ بہر کیف ہر ایک کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا حق حاصل ہے مگر اس نداز سے کہ کسی کی دل آزاری اور کسی بھی ثقافت(قومیت) کی اہانت نہ ہو۔
متعدد مرتبہ اپنے کالموں /تحریروں اور بلاگز میں کہہ چکا ہوں کہ قومیت کی بنیاد ثقافت ہے۔ اسی تناظر میں اپنی تفصیل دوبارہ پیش کر رہا ہوں کہ سرائیکی ایک قوم اور زبان ہے۔ سرائیکی ایک جامع تہذیب و تمدن ہے ۔ جس سے انحراف حق و صداقت کی تکذیب ہے ۔ جہاں تک تاریخی حوالے اس حوالے سے دیے جا رہے ہیں وہ اپنی جگہ پُر مغز مگر اینٹی سرائیکی اپنے دلائل و براہین میں منفی پرہ پیگنڈا کر رہے ہیں جس کا مقصد اہل سرائیکی اور سرائیکی قوم پرستوں کی ذہانت چیک کرنا ہے کہ آیا سرائیکی قوم پرست تحریکوں کے سربراہان یا دانشور کہیں جذباتی ہو کر مشتعل تو نہیں ہو جاتے ۔۔۔؟ تو اس مقصد کیلئے اس وقت پنجابی متعصب اسٹیبلشمنٹ پس پردہ عطااللہ بگٹی ،منصور بلوچ ، آصفہ بلوچ ، اشرف قریشی وغیرہ کو فیڈ کرتی نظر آ رہی ہے کیونکہ مذکوران کی ٹیون ہی کچھ ایسی ہے ۔ لیکن یہاں یہ بھی مدِ نظر اور ذہن نشین رہے کہ سرائیکی ہر دور میں پستے رہے۔ حملہ آوروں اور غاصبوں نے انھیں بے دردی سے لوٹا۔ پھر بھی سرائیکی قوم پُر امن رہ کر اپنا دفاع کرتی رہی۔جو تاریخی مثالیں ہیں ۔ جہاں تک آلہ کار کیلئے استعمال ہونے والے مذکورہ بالا عناصر جنھیں انٹی سرائیکی کا نام دے رہا ہوں کے ان الزامات کا تعلق ہے کہ ’’سرائیکستان ‘‘ایک الگ ریاست کا نام ہے۔یا الگ ریاست کیلئے ایک جدو جہد کا نام ہے محض الزام ہے تاحال اس حوالے سے یہ عناصر کوئی ایک دلیل تو پیش کریں۔۔۔۔؟ جب اینٹی سرائیکی یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ اہل سرائیکی نان ٹیلنٹڈ ہیں ۔ خبریں نے ان کے مضامین شائع کر کے انھیں کالم نگار بناکر قومی سطح پر لا کھڑا کیایہ بھی ان کی بودی دلیل ہے۔ سرائیکی اپنی لاز وال قابلیت کی بنیاد پر اس بلند سطح تک پہنچے۔ کیا نذیر لغاری ، شاہد جتوئی ، روؤف کلاسرہ، راقم الحروف جو بین الاقوافی سطح پربلاگز لکھتا ہے۔کے علاوہ دیگر اعلی درجے کے لکھاریوں پرخبریں کا احسان ہے کہ وہ کالم نگار بنے؟ راقم الحروف بار دیگر عرض کرتاہے کہ خدارااس ضمن میں مدلل بحث کو اس بحث ونظر کاحصہ بنائیے ورنہ یہ بحث اپنے مثبت اثرات زائل کر دے گی اور نادیدہ قوتیں اپنے مقاصد حاصل کر لیں گی!