حدِ ادب
انوار حسین حقی
تعلیمی ادارہ یا جہانِ حیرت
_________________
میانوالی جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی منفرد تاریخ اور حوالہ رکھتا ہے وہاں تعلیمی اداروں اور اساتذہ کے حوالے سے بھی یہاں کی تاریخ میں ایک پورا دبستان اپنی ضو فشانیاں بکھیرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ نسلِِ نو کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں زندہ، درخشندہ اور تابندہ ناموں کی کہکشاں میں جہاں پروفیسر سید محمد عالم مرحوم ،سید انتصار مہدی مرحوم ، چوہدر محمد رضی مرحوم ، ہیڈ ماسٹر سرفراز احمدخان مرحوم اور پروفیسر منور علی ملک ،پروفیسر سرور خان نیازی اور ان جیسی بہت سی نابغہ روزگار شخصیات کا اُجلا کردار ہمیشہ روشن رہے گا وہاں اس سرزمیں کی دو صاحبِ علم بیٹیاں مرحومہ ’’مس نیازی ‘‘زوجہ حبیب اللہ خان نیازی مرحوم اور مرحومہ زینب فیض نیازی دختر فیض حمید خان مرحوم ( سابق ڈپٹی کمشنر ) کانام بھی تابندگی کا استعارہ بنا رہے گا ان دونوں نے قبائلی طرز معاشرت رکھنے والے میانوالی شہر کی بیٹیوں کو تعلیم کی جانب راغب کرنے میں ایک یاد گار کردار ادا کیا ۔
آج کا میانوالی علم و تعلیم کے میدان میں ترقی پذیری سے نکل کر ترقی یافتہ شہروں کی فہرست میں شامل ہونے کو ہے ۔ نمل شہر علم نے اس علاقے کو عالمی پہچان عطاء کی ہے ۔ جبکہ یونیورسٹی آف سرگودھا کے میانوالی کیمپس نے طلباء خصوصاً طالبات کے لیئے جدید تعلیم کے مواقع پیدا کیئے ہیں ۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے بھی یہاں اپنا جال بچھا لیا ہے ۔ شارع فضائیہ اور نواحی علاقے تعلیمی اداروں کا ’’ ٹاؤن ‘‘ بن چُکے ہیں ۔ تعلیم کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی تجارت بھی خو ب فروغ پارہی ہے ۔ ضلع بھر کے طالب علموں کو جہاں اپنی ہی دہلیز پر جدید تعلیمی اداروں کی برانچز میسر آئی ہیں وہاں وہ بہت سے مسائل کا شکار بھی ہوئے ہیں بعض تعلیمی ساہوکاروں نے تعلیم کو اپنے لیئے منافع بخش کاروبار اور اپنے اداروں کے سٹوڈنٹس کے لیئے تکلیف دہ بنایا ہوا ہے ۔ مجھے گذشتہ کئی سالوں سے ایک تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کی ڈگریوں کے حصول میں درپیش سنجیدہ نوعیت کی مشکلات سے آگاہی مل رہی ہے ۔ اس ادارے سے کامیاب ہونے والے طلبہ طالبات کو ملازمتوں کے حصول کے وقت اصل ڈگری نہ پیش کرنے کی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔سٹوڈنٹس تعلیم مکمل کرنے کے باوجود ڈگری حاصل نہیں کرپاتے ان کے ادارے ڈگری کے نام پر ان سے بھاری رقوم تو وصول کر لیتے ہیں لیکن ان کی فرنچائز ہر سال اپنے ادارے کی مقروض ہوتی ہیں جس کی وجہ سے طلبہ کو امتحان میں کامیابی کے باوجود ڈگری کے حصول کے لیئے انتظار کے انتہائی تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پرتا ہے۔جس کی کہانی انشاء اللہ کسی دوسرے کالم میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
اس مرتبہ تعلیمی سال کے آخر میں مجھے بہت سے تعلیمی اداروں میں منعقدہ تقریبات میں شرکت کا موقع ملا ۔ والدین اورفکیلٹی سے ملاقاتیں اور تعلیمی نتائج نے میرے علم میں بہت زیادہ اضافہ کیا ۔ اسٹی سکول سسٹم کے میانوالی کیمپس کی کارکردگی اورنتائج نے مجھے سب سے زیادہ متائثر کیا ۔ اس سکول کے دورے کے دوران جب میں ہر قسم کے تعصب سے الگ ہو کر علمی اور تربیتی کارکردگی کی طرف متوجہ ہوا ۔ تو میرے ذہن میں موجود بہت سی اُلجھنوں کو سلجھاؤ نصیب ہوا ۔۔۔ ہادی برحق ﷺ نے علم کے حصول کے لیئے چین تک جانے کا حکم فرمایا ہے ۔ اس حدیث کے معانی ومفہوم اور تشریح سوچوں کی عالمگیر اور آفاقی راہوں کو منور کرتی ہے ۔۔۔۔
دی سٹی سکول کے میانوالی کیمپس نے اپنی کامرانیوں کے تسلسل سے اپنے لیئے بہت جلد والدین کا اعتماد حاصل کر لیا ہے ۔ ابتداء میں اس جدید ترین تعلیمی ادارے کی طرف والدین کی رغبت سطحی رہی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضلع بھر سے والدین کی اُس بڑی تعداد نے جو اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے خواب دیکھتی ہے انہوں نے اپنے بچوں کو اس ادارے کے حوالے کر دیا ۔ ہر آنے والا نیا سال اس ادارے کے لیئے کامیابی و کامرانی کا ایک نیا سورج طلوع کرتا ہے ۔ یوں تو اس سکول میں سارا سال مختلف تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایسے پروگراموں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو طالب علموں کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے اور جدید طرز تعلیم و تربیت سے روشناسی کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ لیکن اوپن ڈے کی سرگرمیاں اس تعلیمی ادارے کی مجموعی کارکردگی کی عکاس ہوتی ہیں ۔
سٹی سکول اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہ فرنچائز نہیں بلکہ اپنے ادارے کا میانوالی کیمپس ہے اس لیئے اس ادارے اور اسلام آبادسمیت دیگر بڑے شہروں میں قائم سٹی سکولوں میں کسی قسم کا کوئی واضح فرق نہیں ہے ۔ کیمپس کی موجودہ پرنسپل محترمہ مریم افشاں کی قائدانہ صلاحیتوں اور جدوجہد نے اسے مضبوط بنیادیں فراہم کی ہیں ۔
29 مارچ 2017 ء کو منعقد ہونے والے ’’ اوپن ڈے ‘‘ کے موقع پر ضلع بھر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد نے سٹی سکول کے میانوالی کیمپس کا دورہ کرکے سکول کی تعلیمی کارکردگی اور طلبہ و طالبات کی مختلف ایکٹیوٹیز کا جائزہ لیا تو سب نے اس ادارے کو ایک ’’ جہانِ حیرت ‘‘ قرار دیا ۔کیمپس کی پرنسپل جو اسی سرزمین کی بیٹی ہیں انہوں نے اپنے گھر کے علمی و ادبی ماحول سے جو خواب پالے ہیں ان کے لیئے اپنے ادارے میں وہ تدبیریں تراشنے اور تعبیریں ڈھونڈنے میں مگن دکھائی دیتی ہیں ۔
اقبال کا کہنا ہے کہ
عہدِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
سٹی سکول جیسے ادارے کو میانوالی کے ماحول میں کامیابی سے چلانا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔۔۔ لیکن محنت جدوجہد اور بہتر تعلیمی نتائج اور بچوں کی کردار سازی میں کامیابی نے اس سب کچھ کو ممکن بنادیا ۔۔۔۔ ادارے میں سٹوڈنٹس سیاستدانوں ، وکلاء ، صحافیوں ، اساتذہ ، تاجروں ، سوشل ورکروں ، علمی و ادبی شخصیات اور سول سوسائٹی کے نمائندے پرنسپل صاحبہ اور فکیلٹی کی تعلیمی خدمات کا اعتراف لیئے بغیر نہیں رہ سکے ۔سٹی سکول میانوالی کیمپس کا دورہ کرنے والوں نے اس ادارے کو میانوالی جیسے ترقی پذیر علاقے کی تعلیمی ترقی کے لیئے ایک روشن سنگ میل قرار دیا ہے ۔ سابق ایم پی علی حید نور خان نیازی ، اسسٹنٹ کمشنر میانوالی رانا محمد حسین ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینئر ایڈو کیٹ عبد المجید خان یاروخیل ( ایڈو کیٹ ) ، صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میانوالی اعجاز گوہر خان ایڈو کیٹ ، سید محمد ناصر نقوی ایڈو کیٹ ، شاہد حمید خان ایڈو کیٹ اور بہت سے زعماء اس ادارے کے تعلیمی معیار کو مثالی اور منفرد قرار دیتے ہوئے روشن اور کامیاب مستقبل کے لیئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے نظر آئے ۔ دعا ہے کہ اس ادارے میں زیر تعلیم طلباء و طالبات آئندہ زندگی میں اپنے کردار کی روشنی سے اُجالے اخذ کرکے زیست کے اندھے سفر کو پُر نور کریں ۔۔۔