اس آرٹیکل کا عنوان ہے let’s agree to disagree
ازقلم ڈاکٹر حمیرا قیصر
خواتین و حضرات گھر کسی بھی معاشرے کا ابتدائی یونٹ ہوتا ہے. اور یہ ابتدائی یونٹ مل کر ایک بڑے یونٹ یعنی کہ معاشرے کی تشکیل کرتا ہے. اگر ہم معاشرے کے بڑے یونٹ کی اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں بنیادی یونٹ میں درستگی لانا ہوں گی. عورت اور مرد جب ساتھ زندگی گزارتے ہیں تو کئی طرح کے تجربات سے دوچار ہوتے ہیں. کبھی ہی نفرت کے شعلوں کو ہوا ملتی ہے. تو کبھی پیار کی بنسری بجنے لگتی ہے. کبھی خوشی ہے تو کبھی ناخوشی. کبھی عزت نفس کی دھجیاں بکھرتی ہیں تو کبھی انا کو تسکین ملتی ہے. کبھی فرائض سے انکار ہے تو کبھی حقوق پر تکرار غرض یہ کہ یہ تمام اونچ نیچ انسان کی شخصیت کی تعمیر کرتی ہے. ان معاملات کو خوش اسلوبی سے سے گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود احتسابی کرتے ہوئے زندگی گزاریں اور اپنے شعور کو زندہ رکھیں.
مزکورہ بالا بات کی مزید وضاحت اس طور کی جا سکتی ہے کہ انڈیا میں میاں بیوی کے درمیان harmony کے موضوع پر ایک سمینار رکھا گیا اور سمینار کے اختتامی جملوں میں منتظمین محفل نے چند الفاظ میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ بحث کا نچوڑ اسی ایک لفظ ہارمنی مطلب ہار ما ن لینے میں ہے ۔یعنی یہ انگریزی کا ہارمنی پنجابی کے "ہار منّی”میں اگر تبدیل کر دیا جائے تو ٹکراؤ سے بچا جا سکتا ہے ۔اسی ہار مانی کے مزاج سے متاثر ہو کر دوسرا فریق بھی اختلاف ترک کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
لیٹس ایگری ٹو ڈس ایگری کا فارمولا استعمال کرتے ہوۓ گھر کا ماحول معتدل رکھا جا سکتا ہے. اس ایک عمل کے ذریعے آپ کا گھر ایک تربیت گاہ بن سکتا ہے. خواتین و حضرات انسان کے درمیان رائے کا اختلاف ہونا ایک فطری بات ہے. تھامس ہیرس نے اپنی نفسیات پر لکھی ہوئی کتاب میں انسان کی انسان سے چار اقسام کے تعلقات کی نشاندہی کی اور وہ چار حالتیں یہ ہیں.
١۔ آئی ایم ناٹ اوکے، یو آر او کے۔
٢۔ آئی ایم ناٹ او کے یو آر ناٹ اوکے۔
۳- آئی ایم او کے یو آر ناٹ او کے.
۴۔ آئی ایم اوکے، یو آر او کے۔
مصنف کی رائے کے مطابق نمبر چار کی حالت زندگی گزارنے کا بہترین فارمولا تھی. مطلب میں بھی ٹھیک ہوں اور آپ بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر وقت کے ساتھ یہ چوتھی حالت غلط ثابت ہوئی کیونکہ اس نظریہ کو اگر درست مان لیا جائے تو انسان اور حیوان کا فرق ختم ہو جاتا ہے. حق اور باطل کی پہچان مٹ جاتی ہے اور یہ انسان کی جبلی خصوصیت کے خلاف ہے کہ وہ سیاہ اور سفید کو درست مانے یا دوسرے لفظوں میں ایک مصنوعی رویہ اختیار کیے رکھے. اصل کامیابی یہ ہے کہ اختلافات کے باوجود ٹکراؤ سے کیسے بچا جائے؟ اور پرسکون زندگی گزاری جائے۔ اس مسئلے کا فارمولا یہ سمجھناھے کہ میں خود کو درست سمجھتا ہوں اور آپ کو غلط مگر میں آپ کا احترام کروں گا. یعنی لیٹس ایگری ٹو دس ایگری اس فارمولے کے تحت نہ صرف آپ ٹکراؤ سے بچ سکتے ہیں بلکہ مصنوعی رویہ اختیار کرنے سے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں. خواتین و حضرات انسان کی نفسیات کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اچھے اور برے جذبات کا سرچشمہ ہیں. پرامن زندگی گزارنے کے لیے یہ یہ ضروری نہیں کہ آپ اچھی اور بری چیز کے فرق کو ہی ذہن سے نکال دیں۔ چیزوں اورمعاملات کے درمیان فرق کو درمیان رکھتے ہوئے ایک پر امن زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ہر شخص اپنی ماں سے محبت کرتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ دوسرے کی ماں سے نفرت کرنا شروع کر دیں۔
خواتین و حضرات اختلاف ایک خامی نہیں بلکہ ایک خوبی ہے۔ اس کے ذریعہ ہم صحیح اور غلط کی پہچان کر تے ہیں اور ذہنوں کو وسعت حاصل ہوتی ہے۔ میں بھی ٹھیک ہوں اور آپ بھی ٹھیک ہیں کا اصول کچھ پروفیشنل لوگوں کے لئے تو صحیح ثابت ہو سکتا ہے مگر وسیع معنوں میں ہرگز مفید ثابت نہیں ہو سکتا۔
خواتین و حضرات معاشرتی ہم آہنگی کے معاملے میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اختلافات کو ختم کیسے کیا جائے بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ اختلافات کے ہوتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کیا جائے۔ کیوں کہ اختلاف فطرت کا لازمی جزو ہے۔ مسئلہ باہمی اعتراض سے زیادہ باہمی احترام کا ہے۔ تو لیٹس ایگری ٹو ڈس ایگری