(غرور و تکبر اور ہمارا معاشرہ)
تحریر ۔ محمد توصیف
اعزازیل سے ابلیس تک کا سفر ایک لفظ پر محیط ہے اور وہ ہے غرور و تکبر، جناب واصف علی واصف صاحب کا قول ہے کہ اگر کسی چیز کو چھوٹا دیکھنا چاہتے ہو تو اس کو دور سے دیکھو یا غرور سے دیکھو، بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہر چیز کو انہی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور اس سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ انسان کو بھی ایک چیز سمجھا جاتا ہے۔ فی الوقت ہمارے آج کے معاشرے میں غرور اور تکبر کا عنصر اتنا نمایاں ہو چکا ہے کہ ہم چاہ کر بھی اس سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے اور یہ سب ہمارے اپنے اعمال کی ہی سزا ہے۔ آج ہم خود کو دوسروں سے برتر ثابت کرنے کے لئے ہر حد پار کر جاتے ہیں اور برتری کی اس دوڑ میں ہم اپنا کیا کچھ پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اس کا اندازہ ہمیں اسی وقت ہوتا ہے جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔
آج ہمارے معاشرے میں غرور اور تکبر کی بیماری عام ہو گئی ہے ہر سماج میں یہ ناسور بن گیا ہے اور اسی وجہ سے آپس کے اتفاق و اتحاد پربہت گہرا اثر پڑ رہا ہے، اس کی وجہ سے آپس کے اختلاف بڑھ رہے ہیں۔ یہ بہت ہی نا پسندیدہ شے ہے اس سے بچنا بہت ضروری ہے اور ساتھ ہی لوگوں کو بھی اس سے با خبر کرنا چاہیے۔
بہت سی وجوہات ہیں جو انسان کو غرور و تکبر میں مبتلا کر دیتی ہیں سب سے بڑی وجہ تو ہماری عبادت بن جاتی ہے، ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے، نماز پڑھتے ہیں، قرآن شریف پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے مگر کبھی کبھی ہمارے دل میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ ہم ان مسلمانوں سے بہتر ہیں جو نماز نہیں پڑھتے عبادت نہیں کرتے ،یہ بات انسان کو تکبر میں مبتلا کر دیتی ہے اس کے علاوہ جب ہمارے دل میں دوسروں کی زبان سے اپنے لئے تعریف سننے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم میں بہت سی خوبیاں ہیں تب ہی لوگ ہماری تعریف کرتے ہیں تو یہ بات بھی ہم میں غرور پیدا کرتی ہے اور پھر ہم اپنے سامنے والے شخص کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور یہی بات ہماری بربادی کا باعث بنتی ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان عالیشان ہے ’’تو تکبر کی وجہ سے لوگوں سے بے رخی اختیار نہ کراور نہ زمین پر اکڑ کر چل(کیونکہ)اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتاجو اترانے والے اور ڈینگیں مارنے والے ہوں‘‘۔ (لقمان ۱۸)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا’’ اور زمین پہ اکڑ کر نہ چل کیونکہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتااور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکے گا‘‘۔ (بنی اسرایئل ۔۳۷)
ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے یا دیکھتے ہیں جن کو اس بات کا غرور ہوتا ہے کہ وہ بہت ذہین ہیں، لائق ہیں یا خوبصورت ہیں کیا ان باتوں پہ غرور کرنا ضروری ہے؟ ایک شخص نے حضرت علی سے پوچھا ’’انسان برا کب بنتا ہے‘‘ تو آپ نے فرمایا’’ جب وہ خود کو اچھا سمجھنا شروع کر دیتا ہے‘‘
بیشک آپ خاص ہوں گے اپنے گھر والوں کے لئے مگر کیا آپ خاص ہیں اپنے خدا کے لئے؟ کیا ہم اس کی مخلوق کے ساتھ پیار سے پیش آتے ہیں؟ ابھی بھی وقت ہے ہم اس معاشرے کو ایک ایسا معاشرہ بنا سکتے ہیں جس کی مثال دنیا دیا کرے گی صرف اور صرف خود میں سے ’میں‘ کو ختم کر کے، یہ یاد رکھیں کہ خدا اپنے حقوق معاف کر سکتا ہے مگر اپنے بندوں کے حقوق معاف نہیں کرے گا، اپنے آپ میں سے غرور اور تکبر کو نکال کر دیکھئے اور اپنے ارد گرد خوشیاں اور مسکراہٹیں پھیلانے کا سبب بنیں۔ آپ سامنے والے کو دیکھ کر مسکرائیں جواب میں آپ کو بھی مسکراہٹ ہی ملے گی ۔
تکبر کبیرہ گناہ ہے۔ اس سے بچنے کی سخت تاکید ہے۔ تکبر اللہ کی صفت ہے انسان تو کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ اسے بڑا بول بولنا زیب نہیں دیتا۔ آدمی کو اگر کوئی خوبی ملی ہے تو وہ خالق کی عطا کردہ ہے اس پر بھی وہ تکبر کرتا ہے تووہ اتنا بڑا مجرم ہے کہاس کی یہ صفت اس کو جنت میں جانے سے روک دے گی۔یہ ایسی اخلاقی بیماری ہے جو دوسری نیکیوں کو برباد اور ضائع کر دیتی ہے
غرور اور تکبر کو ختم کرنے کا بہترین علاج یہ ہے کہ سلام کو عام کرو، ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ سلام میں پہل کرو اور ایسا کرنے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے ، فرمان حبیب پروردگارﷺ ہے ’’سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے دور ہو جاتا ہے‘‘ تکبر شیطانی صفت ہے اگر تم اپنے تکبر کو توڑنا چاہتے ہو تو ہر غریب اور مفلس کو سلام کیا کرو۔
پس میرے عزیز قارئین اپنے آپ کو سراپا عاجزی بنا لو اور اس کبیرہ گناہ کو اپنے سے دور کر لو، میرے خدا کو عاجزی پسند ہے اور وہ شخص بہت ہی قسمت والا ہے جو خدا کی پسند کو اپنی پسند بنا لیتا ہے۔