کالم

پانچ جولائی کے خوشہ چیں

حدِ ادب
انوار حسین حقی


پانچ جولائی 1977 ء ہماری جمہوری اور سیاسی تاریخ کا ایک المناک اور سیاہ ترین دن ہے۔ اس روز ایک جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر جنرل محمد ضیاء الحق نے ملک میں مارشلاء نافذ کر دیا تھا۔ اُن کا یہ غیر جمہوری دور گیارہ سال ایک ماہ اور بارہ دنوں یعنی سترہ اگست 1988 تک قائم رہا ۔ان سارے دنوں کو سیاہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی اس دور کی وہ معلوم تاریخ ہے جو ہر سال پانچ جولائی کے موقع پر دوہرائی جاتی ہے۔ بِلا شُبہ کسی بھی جمہوری ملک میں مارشلاء کے نفاذ کو کسی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں ماضی کی طرح ایک پانچ جولائی اور گذر گیا ۔ الیکشن کی گہما گہمی میں ماضی کی نسبت اس دن کو ا س مرتبہ بہت کم صلواتیں سُنائی گئیں ۔ ’’ ثنا خوانِ جمہوریت ‘‘ اس دن کو پورے اہتمام سے منانے کا بوجھ اُٹھانے سے گریزاں نظر آئے ۔ شاید ایک بڑی وجہ یہ ہے پانچ جولائی 1977 ء کے اقدام کی سب سے زیادہ متائژہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اب اُس ورثے سے محروم نظر آتی ہے جو ان قربانیوں کا امانتدار تھا جو جنرل ضیاء الحق مرحوم کے گیارہ سال دورِ حکومت میں اس جماعت کی جانب سے دی گئی تھیں۔ یہ اُسی محرومی کا سبب ہے کہ اب کراچی کے لیاری میں بھٹو مرحوم کے نواسے پر بھی انڈوں اور ٹماٹروں کی بارش ہو نے لگی ہے۔’’ نانا شہید ‘‘ گھاس کھاکر بھی ایٹم بم بنانے اور روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا کرتے تھے جبکہ نواسہ کراچی کا کچرا اُٹھانے کے نصب العین کو سامنے رکھے ہوئے ہے۔ یہ نظریات اور اہداف کی تبدیلی ہے جو پیپلز پارٹی میں آ نہیں رہی بلکہ آگئی ہے ۔
ا س مرتبہ کے پانچ جولائی کے موقع پر قومی منظر نامے پر نظر دوڑائی توہر شعبے کی طرح سیاست میں بھی ایسے لوگوں کی بھیڑ دکھائی دی جو جنرل ضیاء الحق مرحوم کے گیارہ سالہ دورِ حکومت میں ثمر بار ہوئے ۔ جنرل ضیاء الحق کے طرز حُکمرانی سے اختلاف کی راہیں بہت کشادہ ہیں لیکن ان کے دور حکومت میں خارجہ اور داخلہ محاذوں پر کامیابیوں کا تسلسل ان کے بعد کی کوئی بھی حکومت جاری نہیں رکھ پائی ۔ یہ موضوع ایک طویل بحث کا متقاضی ہے جس کا احاطہ ایک کالم میں نہیں کیا جا سکتا ۔ آج کے کالم کو ایسی سیاسی شخصیات کے ذکر تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی جنہوں نے ’’ ضیائی دورِ حکومت ‘‘ میں رفعتوں کا سفر شروع کیا ۔
چار اور پانچ جولائی1977 ء کو جب لیفیٹننٹ جنرل فیض علی چشتی کی سربراہی میں ’’ آپریشن فیئر پلے ‘‘ مکمل ہوا تو اگلے دن ملک کے طول و عرض میں اطمینان کی ایک لہر دوڑتی دکھائی دی تھی ۔ پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں خوشی منائی گئی ۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد مرحوم کی زبانی سُنیئے ۔۔ ’’ جہاں تک مُلک میں مارشلاء کے نفاذ اور جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کی حکومت کے باگ ڈور سنبھالنے کا تعلق ہے تو سای قوم اس امر کی گواہ ہے کہ یہ قدم جنرل ضیاء الحق نے اس وقت اُٹھایا جب ملک کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 1977 ء میں اپنے آپ کو قوم کے سر پر بدستور مسلط رکھنے کی کوشش میں انتخاباتِ عام میں اس قدر کھُلی اور وسیع پیمانے پر دھاندلی کی کہ تقریباً ساری قوم سرپراہ احتجاج بن کر ان کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی اور بھٹو صاحب نے اسے دبانے کے لیئے بلا تفریقِ مردو زن اور بچوں کے لاٹھی اور گولی کا نشانہ بنایا اور ہزاروں کی تعدار میں حوالہ زنداں کرنا شروع کر دیا ۔ مسجدوں تک میں علماء اور عوام کا خون بے دریغ بہاجانے لگا اور عوام ہی نہیں ان کے لیڈر بھی بھٹو صاحب کی ایف ایس ایف اور ان کے مسلح کارکنوں سے بچاؤ کے لیئے فوج کو دُہائی دے رہے تھے۔ اور سارا ملک اس نعرے سے گونج رہا تھا ’’ ربا ساڈی اِک دعا ۔۔ بھُٹو ساڈے مگروں لاہ( اے اللہ ہماری ایک ہی دعا ہے کہ ہمیں بھٹو سے نجات عطاء فرما ) ۔اور سارے مُلک میں عام تائژ یہی تھا کہ پانچ جولائی اپوزیشن اور خصوصاً اُس کے نمایاں لوگوں کے قتل عام کا دن ہوگا ۔ چنانچہ جب پانچ جولائی کی صُبح کو قوم نے یہ سُنا کہ ملک کو فوج نے سنبھال لیا ہے اور بھٹو حکومت سے نجات مل گئی ہے تو پورے مُلک میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور ہر طرف جشن کا سماں شروع ہوگیا ۔ دیگیں پکنے لگیں اور ہزاروں دیگیں حلوے اور نیاز کی لوگوں نے پکائیں ، کھائیں اور غریبوں کو کھلائیں ، خیرات اور حلوے کی تقسیم کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ ملک میں شور مچ گیا کہ سوجی ختم اور چینی کی قلت پیدا ہو گئی ہے چُنانچہ مولانا مفتی محمود صدر قومی اتحاد کو لوگوں سے اپیل کرنا پڑی کہ وہ دیگیں پکانا بند کردیں ۔۔ ‘‘ یہ ایک طویل تحریر کا اقتباس ہے جو جنرل ضیاء الحق مرحوم کی پہلی برسی کے موقع پر ایک قومی جریدے میں شائع ہوا تھا ۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں اُن کے سب سے زیادہ قریب جماعت اسلامی کے امیر میاں محمد طفیل ہی تھے۔ بعض لوگ تو اس قرابت کو رشتہ داری بھی سمجھا کرتے تھے۔ جہاد افغانستان میں بھی جماعت اسلامی نے اپنا کردار ادا کیا ۔ کشمیر کی جدوجہد کے حوالے سے بھی اس دور میں یہ جماعت خاصی سر گرم رہی بعد کے ایک دو انتخابات میں اس جماعت نے کشمیری مجاہد صلاح الدین اور میجرمست گُل کا کارڈ بھی استعمال کیا ۔ افغان جہاد میں گلبدین حکمت یار جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ تھے ۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کی پہلی مارشلائی کابینہ میں پاکستان قومی اتحاد نے باقاعدہ وزارتیں حاصل کی تھی ۔ موجودہ مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کے تقریباً تمام موجودہ قائدین جنرل ضیاء الحق دور کی پیداوار ہیں ۔ شریف فیملی اپنے کاروباری پارٹنر لیفٹینٹ جنرل غلام جیلانی خان گورنر پنجاب کی وساطت سے جنرل ضیاء الحق کے قریب ہوئی تھی اور بعد ازاں ان کی وفات کے بعد میاں نواز شریف ان کے سیاسی وارث قرار پائے تھے ۔ گجرات کے چوہدری ظہور الہی جنرل ضیاء الحق کے منظورِ نظر رہے ان کے بعد یہ بُلند مرتبہ چوہدری شجاعت حُسین اور چوہدری پرویز الہی کو ملا ۔ موجودہ سیاست کے ’’ مُلا راکٹی ‘‘ شیخ رشید احمد، جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار بھی اسی دور میں پارلیمان کے قریب ہوئے، پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئر مین مخدوم شاہ محمود قریشی کے والد مرحوم مخدوم سجاد حُسین قریشی ایک طویل عرصہ تک جنرل ضیاء الحق کے دور میں پنجاب کے گورنر رہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضاء گیلانی جنرل ضیاء الحق کے نامز کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور حکومت میں وفاقی کابینہ میں ریلوے کے وفاقی وزیر مملکت کے طور پر شامل رہے۔ سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کے والد اُس دور میں بلوچستان کے وزیر اعلی وہ خود بھی جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ بنائے گئے تھے۔ میاں منظور احمد وٹو، سید فخر امام ، حامد ناصر چٹھہ، سید غوث علی شاہ ، سندھ کی تالپور فیملی ، الہی بخش سومرو، بہاولپور کانواب عباسی خاندان ، صوبہ سرحد کی اسلم خٹک مرحوم کی فیملی سیف اللہ برادران سب ضیائی سیاسی بندوبست کا حصہ تھے ۔ حُروں کے روحانی پیشواء اور سندھ میں سیاسی طاقت کے اہم مرکز سید مردان علی شاہ پیر صاحب تو خود کو ’’ جی ایچ کیو ‘‘ کا آدمی کہا کرتے تھے۔ جنرل ضیاء کو وزارت عظمیٰ کے لیئے انہوں نے اپنا مرید محمد خان جونیجو مستعار دیا تھا ۔ ماضی قریب میں میمو گیٹ اسکینڈل سے شہرت پانے والے معروف سفارتکار حُسین حقانی کو اس قوم نے پاکستان ٹیلی وژن پر جنرل ضیاء الحق مرحوم کی نمازِ جنازہ اور تدفین کی لائیو کوریج کے دوران باقاعدہ روتے سُنا تھا ۔
ان سب کے علاوہ بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں سینکڑوں نام ہیں جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں عروج کا سفر شروع کیا ۔ صحافت کے میدان کی تو بات ہی نرالی ہے بڑے اور نامور صحافیوں کاایک ایسا گروپ وجود میں آگیا تھا جو اینٹی بھٹو اور پرو ضیاء الحق کہلایا اور ان سب نے پھر خوب راج کیا ۔۔
آج کل جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور کا ذکر کرنے والے اس دور کی سیاہی کا تو ذکر کرتے ہیں لیکن جنر ل ضیاء کی باقیات کی فہرست کو محدود کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ ایسے لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں جن کے بارے میں بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے نابغہ روزگار کو کہنا پڑا تھا کہ
کتنے بے درد ہیں صر صر کو صباء کہتے ہیں
کتنے ظالم ہیں ظُلمت کو ضیاء کہتے ہیں

Back to top button