سماجیاتمتفرقات

29 ۔ فروری کم یاب امراض (Rare Disease ) کے عالمی دن کے طور پر منایا جا رہا ہے ۔

29 ۔ فروری کم یاب امراض (Rare Disease ) کے عالمی دن کے طور پر منایا جا رہا ہے ۔
دنیا میں ہر سال فروری کے آکری روز کم یاب امرض (Rare Disease ) کا عالمی دنا منایا جاتا ہے ۔ اس سال فروری لیپ کے سال کے طور پر آ رہا ہے اس لیئے یہ ان اب 29 فروری کو دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں Patient Voice تھیم کے ساتھ منایا جا رہا ہے ۔ کم یاب امراض عام نہیں ہوتے اس لیئے اس دن کے مقاصد بی محدود ہیں ۔ اس دن کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ خدا نخواستہ کو ئی ایسے کم یاب مرض میں مبتلا ہو جائے تو بروقت تشخیص اور علاج ممکن ہو سکے ۔ یورپین آرگنائیزیشن فار ریئر ڈیزیز European Orgnaization for Rare Diseases نے اپنی ایک حالیہ سروے رپورٹ میں بتایا ہے کہ سات ہزار کے لگ بھگ ایسے غیر معمولی عوارض ہیں جو 3 کروڑ یورپی باشندون کو متائثر کر رہے ہیں ۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ان امراض کے حوالے سے بہت کم آگہی موجود ہے ۔ آغا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر میتھالوجی اینڈ لیبارٹری میڈیسن کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے والی ڈاکٹر لینا جعفری کہتی ہیں کہ ’’ طبی اصطلاح میں کم یاب امراض ان عوارض کو کہا جاتا ہے جو عام نہیں ہوتے صرف چند فی صد افراد ہی اس کا شکار ہوتے ہیں ۔ یہ عوارض زیادی طور پر جنیاتی ہوتے ہیں اس لیئے اس لیئے ان کی علامات بھی ابتدائی چند برسوں میں ہی ظاہر ہونے لگتی ہیں ۔ لیکن درست تشخیص نہ ہونے کے سبب اکثر بچے پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان میں خاندان میں شادیاں کرنے کا تناسب زیادہ ہونے کی وجہ سے ان جینیاتی بیماریوں کا تناسب بھی دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔ ان جینیاتی بیماریوں کا ایک بڑا حصہ وارثت میں ملنے والے میٹا بولک امراض (Metabolic Disease ) پر مشتمل ہے ۔ اور ان بیماریوں کا سب سے زیادہ تناسب اُن خاندانوں میں پایا جاتا ہے جہاں خاندان سے باہر شادی کرنے کا رواج باالکل نہیں ہے ۔ جینیاتی امراض میں جسم کھانے کو مکمل طور جذب ( پروسس ) نہیں کر پاتا اور اس طرح مختلف قسم کی ریئر ڈیزیز لاحق ہو جاتی ہیں ۔ ڈاکٹر لینا جعفری کا مزید کہنا ہے کہ ’’ اگرچہ پاکستان میں ان بیماریوں کے سرکاری طور پر کوئی اعداد و شمار سامنے نہیںآئے لیکن ایک نجی لیبارٹری کی تحقیق کے مطابق 4.7 فی صد بچوں میں آر گینک ایسڈ یوریا Organic aciduria اور امائینیو ایسڈ اوپیتھیس جیسے تکلیف دہ امراض پائے جاتے ہیں ۔ ان امراض کا شکار بچے زندگی کی دوڑ میں دوسرے بچوں سے خاصے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ اس لئے ایسے امراض کی بر وقت تشخیص اور علاج بہت ضروری ہے تاکہ ان بیماریوں کا شکار بچے بھی دوسرے عام بچوں کی طرح نشوونما پا سکیں ۔
بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ان امراض کی تشخیص کے لیئے مختلف ٹیسٹوں کی سہولتیں موجود ہیں ۔ ان میں میتھائل میلونک ایسڈ یوریا (MMA-Methyle malonic aciduria )، فینائل کیٹون یوریا (Phenyl Keton Uria ) ، میپل سیرپ یورین ڈیزیز(MSUD:Maple syrup urune disease ) اور یوریا سائیکل (Urea cycle ) جیسے امراض شامل ہیں ۔ یہ تمام امراض بچوں میں نشونما میں تاخیر ، سُستی ، جسمانی و دماغی کمزوری، قوتِ مدافعت میں کمی ، پیشاب میں بدبو، آر گینو میگیلی) Organo Megally ) اور بے ہوشی جیسی علامات کے ساتھ ظاہر ہو سکتے ہیں ۔ یاد رکھیں تاخیر یا علاج میں تاخیر ذہنی اور جسمانی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ موت کا سبب بھی بن سکتی ہے ۔ اگر کوئی بچہ معمولاتِ زندگی میں اس طرح کا مظاہرہ نہیں کرتا جیسا کہ دوسرے عام بچے کرتے ہیں یا اُس میں کوئی ایسی علامات ظاہر ہو رہی ہیں جو دیگر بچوں میں نہیں ہیں تو فوری طور پر طبی ماہرین سے رجوع کیا جانا چاہئے ۔ ایسے مریضوں کا باقاعدہ اندارج بھی کیا جانا ضروری ہے تاکہ درست تناسب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے علاج امراض کی تشخیص اور علاج کے لیئے مراکز بھی قائم کیئے جائیں تاکہ ان میٹا بولک امراض کے ماہرین بھی تعینات کیئے جا سکیں ۔
دنیا کے کئی ممالک میں ہر نومولود بچے کا ان امراض کے حوالے سے ٹیسٹ کیا جاتا ہے ۔ لہذا اس حوالے سے ہمارے ہاں بھی صحت کی پالیسی مرتب کرنے والے اداروں اور حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا وہاں معالجین کو بھی کم یاب امراض کے حوالے سے عام افراد کے لیئے آگاہی پروگرام تشکیل دینے چاہیءں ہم سب کو مل کر ان امراض پر قابو پانا ہوگا ۔۔۔

Back to top button