ڈیرہ اسماعیل خان کے ممتاز صحافی عنایت عادل کا کالم باالحق
بالحق
عنایت عادل
سنی سنائی
سنا تھا کہ ہمارے ملک کے مصور نے ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا تھا؟
سنا تھا کہ اس ملک کے بانی نے ہر شہری، ہر علاقے اور ہر صوبے کو یکساں حقوق فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی؟
سنا تھاکہ کسی زمانے میں ہمارے ملک کا صدر عالمی قوتوں کے سربراہوں کے گالوں پر چپت لگا کر بات کیا کرتا تھا؟
سنا تھا کہ ہم کبھی دنیا کی بڑی بڑی معاشی قوتوں کو قرضہ دیا کرتے تھے؟
سنا تھا عالمی قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہمارے ہی ملک کی معاونت کی بھیک مانگا کرتی تھیں؟
سنا تھا عالمی قوتوں کی طاقت کا ہتھیار ہمارے ہی ملک کی صورت میں سامنے آتا تھا؟
سنا تھا اس ہتھیار کی کئی گنا قیمت بھی لگائی جاتی تھی؟
سنا تھالگائی جانے والی قیمت کو عوامی فلاح کے لئے ناگزیر قرار دیا جاتا تھا؟
سنا تھا قیمتیں وصول بھی ہوتی تھیں؟
سنا تھا فلاح عوام کے بجائے خواص تک محدود رہا کرتی تھی؟
سنا تھا اس ملک کو ہتھیار بنانے والے ، اپنے ہتھیار اسی ملک کو بیچ باچ کر خود سارا الزام اسی ملک پر دھرنے پر اتر آئے تھے؟
سنا تھا آمریت کی پروردہ لسانی ، علاقائی، صوبائی اور فرقہ ورانہ دکانوں کو بڑی سج دھج سے متعارف کروایا گیا تھا؟
سنا تھا احتساب کے نعروں کے ساتھ کسی نے عدالتوں، تو کسی نے جیلوں کا منہ دیکھا تھا؟
سنا تھا حکومتوں کے کرتوتوں کی بدولت بڑھتے قرضوں کو اتارنے کے لئے قومی جذبے کو استعمال کرتے ہوئے قوم کی ماؤں بیٹیوں کے زیور تک ہڑپ کر لئے گئے تھے؟
سنا تھا ایک نے دوسرے اور دوسرے نے پہلے کو ملکی خزانے کو لوٹنے کا اعزاز بخشا تھا؟
سنا تھا پھر ایک این آر او بھی ہوا ۔۔اور ایک میثاق جمہوریت بھی اس قوم کی قسمت میں آیا تھا؟
سنا تھا سوئس بینک کو امیر کرنے کا ٹھیکہ بھی لیا گیا تھا، انگلینڈ دوبئی ، بھارت اور نہ جانے کہاں کہاں ’’پاکستانی‘‘ کاروباروں کے جھنڈے بھی گاڑے گئے تھے؟
سنا تھا اپنی اکثریتی آبادی کو غربت کی لکیر سے نیچے جھیلتی اس قوم کے لیڈر خود ساختہ، جبری یا معاہداتی جلاوطنی کے دور میں بھی شاہانہ زندگیاں گزارتے ہیں ؟
سنا تھا ان جلاوطنیوں کے باوجود بھی اس قوم کے لیڈروں کے بیرون ملک کارخانے اور پلازے تعمیر ہوتے رہے تھے؟
سنا تھا ملک کی تقدیر بدلنے کی دعویدار جماعتوں کے جماعتی اکٹھ دیار غیر میں کئے جاتے تھے؟
سنا تھا قوم کے ساتھ مذاق کرتے لیڈروں سے چھٹکارا پانے کے لئے تبدیلی کا نعرہ بھی لگایا گیا تھا؟
سنا تھا تبدیلی کے نعروں سے کندہ جھنڈے انہی جماعتوں کے سرخیلوں نے تھام رکھے تھے کہ جنہیں لوٹ کھسوٹ کا چیمئن قرار دیا گیا تھا؟
سنا تھا تبدیلی کو روکنے کے لئے درجنوں سیاسی جماعتوں نے ایکا کر لیا تھا؟
سنا تھا مرکز کو تبدیلی کے طوفان سے بچا لیا گیا تھا؟
سنا تھا ایک صوبے میں سیاسی جماعتوں کا اکٹھ تبدیلی کے طوفان سے دور رہا تھا؟
سنا تھا تبدیلی سے بغل گیر صوبے کی قسمت جاگ اٹھے گی؟
سنا ہے تین سال میں تبدیلی کی ہچکیاں سنائی دے رہی ہیں؟
سنا ہے ملکی معیشت تاریخ کی سب سے مضبوط اور مستحکم حالت کے مزے لے رہی ہے؟
سنا ہے اس قوم کو بڑی بڑی سڑکوں، پلوں، ٹرینوں اور بسوں کے ہوشربا منصوبے دے دئیے گئے ہیں؟
سنا ہے ان مہنگے منصوبوں پر حکومت کی جانب سے سبسڈی دے کر اس اقدام کو یورپ اور امریکہ کے ساتھ موازنہ بھی کر رہی ہے؟
سنا ہے یورپ اور امریکہ میں حکمران خود پہلے مثال بن کر عوام کو ٹیکس کی ادائیگی کا پابند بنا دیتے ہیں؟
سنا ہے برطانیہ کے جی ڈی پی کاپاکستان کے جی ڈی پی سے موازنہ بعید از عقل کہا جاتا ہے؟
سنا ہے برطانیہ کا ہر پیدا ہوتا بچہ ، ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض نہیں ہے؟
سنا ہے برطانیہ کے کسی وزیر اعظم، صدر، وزیر مشیر یا سیاسی جماعت کے اکابرین کے کاروباربرطانیہ سے باہر نہیں ہیں؟
سنا ہے یورپ امریکہ میں تعلیم، صحت ، معاش ، روزگار، بیمہ فرد کے بجائے ریاست کے ذمہ ہیں؟
سناہے عالمی جمہوریتوں میں خواص و عوام سے حاصل شدہ ٹیکس، عوام ہی پر خرچ کیا جاتا ہے؟
سنا ہے عالمی جمہوریتوں میں حکمرانوں کو کاروبار کی اجازت نہیں ہوتی؟
سنا ہے عالمی جمہوریتوں میں قومی ادارے ’’برائے فروخت‘‘ نہیں ہوتے؟
سنا ہے عالمی جمہویتوں میں اربوں ، کھربوں کے قومی اثاثوں کی بولی چند کروڑ میں نہیں لگائی جاتی؟
سنا ہے ہمارے ملک میں ایک نجی کارخانے سے جنم لیتے درجنوں کارخانوں کو مالکان کی صلاحیت اور محنت کا ثمر قرار دیا جاتا ہے، لیکن سرکاری کارخانے کو تالے لگا دینے کی نوبت کو قسمت کا ستم کہہ دیا جاتا ہے؟
سنا ہے اپنے ملک میں ٹیکس جبر کے طور پر عوام سے حاصل اور حاصل کردہ ٹیکس خواص کی عیاشیوں پر خرچ کیا جاتا ہے؟
سنا ہے کالے دھن کو سفید کرنے کے قانون کو محض چند ٹگوں کے عوض ٹیکس کے نظام کو مذید ابتر بنانے کا طریقہ خیال کیا جا رہا ہے؟
سنا ہے پٹرول اور بجلی کے نرخ کم کرتے ہوئے عوام سے داد وصول کی جا رہی ہے؟
سنا ہے تین سال میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے قرضے اس قوم کی قسمت میں ڈال دئیے گئے ہیں؟
سنا ہے اربوں کے تازہ ترین ٹیکسوں کے بعد اربوں ہی کے نئے ٹیکس کا استقبال، یہ قوم ایک بار پھر سے تالیوں اور زندہ باد کے نعروں کے ساتھ کرنے پر تیار بیٹھی ہے؟
سنا ہے ان دنوں پاک چائنہ اکنامک ڈور کو ہماری اکھڑی سانسوں کی بحالی کی واحددوا سمجھا جا رہا ہے؟
سنا ہے یہ منصوبہ محض سفری سہولتوں کے لئے سڑکوں، پلوں، ریل کی بوگیوں پٹڑیوں سے کہیں آگے کی سوچ لئے ہوئے ہے؟
سنا ہے چین سے نکلنے والی سڑک جب گوادر کے ساحل پہنچے گی تو اپنے کتنی ہی نئی بستیاں آباد کرتی چلی جائے گی؟
سنا ہے یہ بستیاں اقتصادی و معاشی جنت کی نظیر کے طور پر سامنے آئیں گی؟
سنا ہے ان بستیوں کے بیچوں بیچ قدرتی تیل اور گیس کے کئی کئی انچ کے پائپ اپنی اپنی متعلقہ ضرورتوں کو سیراب کرتے چلے جائیں گے؟
سنا ہے پاکستان کے جس جس علاقے کو یہ منصوبہ چھوتا جائے گا وہاں بجلی کے بحران کا عفریت آناََ فاناََ اپنی موت آپ مرتا چلا جائے گا؟
سنا ہے اس منصوبے کے دائیں بائیں، روزگار کو ترستے اہل وطن اسی طرح روزگار کی پیاس بجھانے کو دوڑے چلے آئیں گے کہ جیسے چیونٹیاں قطار اندر قطار کسی ندی ، کسی دریا یا کسی جھرنے کی جانب پیاس بجھانے چلی آتی ہیں؟
سنا ہے جہاں اس منصوبے کو وطن دوست قوتیں جلد از جلد پروان چھڑتا دیکھنا چاہتی ہیں وہیں پاکستان مخالف نظریں اس منصوبے کی راہ میں کانٹے بچھانے پر بھی آمادہ ہیں؟
سنا ہے وفاقی حکومت اس منصوبے کے تمام تر فوائد ، اپنی سیاست کے مرکزی صوبہ تک محدود کرنا چاہتی ہے؟
سنا ہے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے صوبے اس منصوبے کو اپنی ان ترقیوں کی واحد ضمانت قرار دے رہے ہیں کہ جن کا عشر عشیر بھی وہ اپنی اڑسٹھ سالہ زندگی میں نہیں دیکھ سکے؟
سنا ہے حالیہ حکومت ، سابقہ حکومت اور پھر اس سے سابقہ حکومت کے کرتا دھرتاؤں سے لے کر چوٹی کی سیاسی ، لسانی، علاقائی اور مذہبی جماعتوں کے سرخیل اس منصوبے کو اپنی بصیرت کا ثمر قرار دینے کی کوششوں میں منہمک ہیں؟
سنا ہے اس منصوبے پر تقسیم در تقسیم (کی گئی) اس قوم کو مذید تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
سنا ہے صادق و امین کی شقوں سے مزین، ملکی آئین کی تقدیس کا دم بھرتے وزراء سے لے کر ارکان اسمبلی تک اس منصوبے کے حوالے سے ہر دو جوانب سے عوام تک جھوٹ کے پلندے پہنچانے کو عوامی خدمت کا نام دے رہے ہیں؟
سنا ہے حق وصداقت کا استعارہ سمجھے جانے والے قلمکار بھی اپنے اپنے زمینی خداؤں کو خوش کرنے کے لئے اس منصوبے کے موضوع پر اپنی اپنی قلم کے منہ مانگے دام لگا بیٹھے ہیں؟
سنا ہے انسانی حقوق کا دم بھرتی تنظیمیں بھی اس منصوبے سے محروم کئے جانے والے ’’انسانوں‘‘ کی آہ و پکار پر کسی بڑے سانحے کی منتظر ہیں؟
سنا ہے اس منصوبے کا مرکز و محور گوادر کا ساحل، آتے دنوں میں عالمی تجارت کا مرکز بننے جا رہا ہے؟
سنا ہے نیل سے لے کر تا بخاک کاشغر ، تمام اقتصادی و معاشی سرگرمیوں کا منبع اب اپنے اس پاکستان سے پھوٹنے کو ہے؟
سنا ہے یہ منصوبہ پاکستان سے زیادہ خود سرمایہ کاری کرتے چین کے ملک اور اس کے ان علاقوں کے عوام کی خوشحالی کی منصوبہ بندی ہے کہ جو
چین کی عالمی سطح پر ترقی کے چرچوں کے باوجود اسی قسم کی زبوں حالی کا شکار ہوتے چلے آرہے ہیں کہ جس قسم کا شکوہ ہمارے ہاں کے چھوٹے صوبوں کی ’’قسمت‘‘ کہلایا جاتا ہے؟
سنا ہے چین اپنے اہداف کے حصول کے لئے جلد از جلد اس منصوبے کا آغاذ چاہتا ہے اور اس سلسلے میں اولاََ وہ پاکستان میں پہلے سے موجود شاہراؤں کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟
سنا ہے اربوں ڈالر کے اس منصوبے پر آمادہ ہمسایہ ملک چین، مستقبل میں اس منصوبے کی افادیت کو فاصلاتی رکاوٹوں سے بچانے کے لئے ’’نیا راستہ‘‘ تک بنانے کو تیار بیٹھا ہے؟
سنا ہے قوم کی ’’سابقہ بھابھی‘‘ اپنی ناکام عائلی (یا شایدناکام سیاسی زندگی) کا بدلہ ، اب تک فراموش کردہ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے میدان میں نکلی ہیں؟
سنا ہے مذکورہ خاتون نے ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف علاقوں میں بنیادی سہولیات کے فقدان کا خوب رونا رویا؟
سنا ہے انکی اس کاوش کے ہمنوا برس ہا برس سے ان علاقوں کی فکری ، سیاسی و سرکاری مسندوں پر قابض وہ شرفاء تھے جو چند ہی ماہ قبل اسی خاتون کی شان میں مغلظات کا پرچار کرتے مخالفین کے چیلے کہلائے جاتے ہیں؟
سنا ہے چینل پر ڈیرہ کے سکولوں ،ہسپتالوں، سڑکوں، پینے کے پانی کے فقدان کا مقدمہ لڑتی اس خاتون کی جانب سے کیمرہ بند کرواکر ان علاقوں کے باسیوں کے سامنے اکنامک کوریڈور کے حوالے سے پنجاب کا مقدمہ بھی خوب لڑا گیا ہے؟
سنا ہے عوام نے اقتدار اور اختلاف کی تفریق کے بغیر بلدیاتی نمائندوں کو اپنے مسائل کے حل کے لئے منتخب کیا تھا؟
سنا ہے ضلع کی حزب اختلاف، ماضی میں ’’شفافیت‘‘ کے ریکارڈ توڑنے کا اعزاز رکھتے ہوئے ضلعی بجٹ کو بدعنوانی کی کوشش قرار دے رہی ہے؟
سنا ہے ڈیرہ اسماعیل خان کا ضلعی بجٹ عدالتی جنگ کی نذر کر تے ہوئے عوام کے مسائل کے حل کی ہلکی سی امید پر بھی پانی پھیر نے کی کوشش کر ڈالی تھی؟
سنا ہے بلدیاتی انتخابات کے ایک سال کی تکمیل کے قریب پہنچ جانے کے باوجود ابھی تک عوام ان نمائندوں سے صرف ’’امید‘‘ ہی لگائے بیٹھی ہے؟
سنا ہے ضلع بھر میں کوئی ایسا سورما نہیں ہے جو اس ضلع سے منتخب ہوتے ماضی بعید سے لے کر ماضی قریب تک اور پھر عصر حاضر میں قومی، صوبائی اور ضلعی ارکان کے ادوار میں جاری کردہ فنڈز کی تفصیل حاصل کر سکے؟
سنا ہے ہم چل سو چل کے عادی ہو چکے ہیں؟
سنا ہے ہم سو رہے تھے، ہم سو رہے ہیں اور شاید ہم سوتے ہی رہیں گے، کہ جاگنے والی قومیں کبھی لٹیروں، ڈاکوؤں اور استحصالیوں کے لئے تالیاں نہیں پیٹا کرتیں۔۔۔