اسلامی ثقافت سے دوری ،نوجوان نسل کی تباہی کاباعث
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی میں نے تودل جلاکے سرِعام رکھ دیا
انسان کودنیامیں جتنی بھی نعمتیں ملی ہیں ان میں سب سے مقدم اورقیمتی نعمت ایمان ہے کیونکہ جسے ایمان کی نعمت مل جائے گویااُسے ساری کائنات کی نعمتیں مل گئیں ۔خالق کائنات مالکِ ارض وسماوات نے انسان کواشرف المخلوقات کے شرف سے نوازاہے ۔یعنی ساری مخلوق پربرتری وفضیلت عطاکی ہے ۔اس لئے انسان کوبھی اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اللہ رب العالمین کی صفات کامظہرہوناچاہیے ۔ ہروقت اللہ پاک کاشکراداکرناچاہیے کہ اُس نے ہم پربڑااحسان کیاکہ اپناپیارالجپال محبوبؐہم کوعطاکیا۔(حالانکہ محبوب عطاکرناتوبعدکی بات محبوب دکھائے بھی نہیں جاتے )خالق کائنات نے ہم پراحسان عظیم فرمایااپنامحبوب عطاکرکے ہم کواس کاامتی ہونے کاشرف بھی عطاکیا۔جس نبی کریمؐ کی شان ،عظمت ورفعت سن کرانبیاء کرام علہیم السّلام نے بارگاہ ربوبیت میں عرض کی تھی کہ مولا!اتنی شان والاتیرا محبوب ہے اس لئے ہم کونبوت کے منصب کی جگہ اس نبی ؐ کاامتی بنادے ۔ہمارانبی سارے انبیاء ومرسلین کاسردار،امت محمدیہ ؐ تمام امتوں کی سردار،ہمارے نبی کریمؐ پرنازل ہونے والی کتاب قرآن مجیدفرقان حمیدساری آسمانی کتابوں کی سرداراورتصدیق کرنیوالی الغرض اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوبؐ کی امت پراتنے احسان عظیم فرمائے جوپہلے کسی نبی کی امت کوعطانہ کیے۔صاحبِ ایمان کوچاہیے تویہی تھاکہ اللہ اوراس کے رسول ؐؐکے احکامات کے مطابق زندگی بسرکرتا۔پَرمسلمان دینِ اسلام کی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے جگہ جگہ آزمائش اوررنج وغم میں مبتلاہیں ۔
اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے ۔جس نے زندگی کے ہرشعبے میں ہماری راہنمائی فرمائی ہے ۔آج مسلم معاشرہ میں ایسی خرابیاں دیکھنے کوملتی ہیں جنہیں دیکھ کرمجبوراًکہناپڑجاتاہے کہ یہ انسانی زندگی تونہیں بلکہ شیطانی زندگی ہے ۔کیونکہ آج نوجوان نسل دن بدن تباہی کے دہانے پرچلی جارہی ہے ۔مسلم معاشرہ میں ہم نے مغرب کی گندی ثقافت کوفروغ دے رکھاہے ۔دورِجدیدمیں الیکڑانک اور پرنٹ میڈیانے جہاں پراخلاقی اقدارکواُجاگرکرنے کی کوشش کی وہ توقابل دیدہے لیکن کچھ ایسی خامیاں اورکوتاہیاں دیکھنے کوملتی ہیں جنہیں مسلم معاشرہ میں نظرنہیں آناچاہیے تھا۔کیونکہ مغربی ثقافت کودیکھ کرہماری ماؤں بہنوں ،بیٹیوں اوربھائیوں نے یہ سوچانہیں کہ ہم کیا کررہے ہیں کیاہمارادین ہمیں اسکی اجازت دیتاہے ؟بغیرسوچے سمجھے ہم نے مغربی ثقافت کواپنے اوپرمسلط کردیا۔جس سے ہمارامعاشرہ تباہی کی طرف جارہاہے ۔آج الیکڑانک میڈیاپرایسے پروگرام دیکھنے کوملتے ہیں جن میں عورتوں کالباس غیراسلامی اور سرپردوپٹہ تک نہیں ہوتا۔پرنٹ میڈیاایسی تصاویرکومزیدمیک اَپ کرکے چارچاندلگاکرپرنٹ کررہاہے ۔جنہیں دیکھ کرہماری مائیں،بہنیں ،بیٹیاں ایسا غیراسلامی لباس پہنناشروع کردیتی ہیں ۔جب ایک ماں غیراسلامی لباس خودپہنناشروع کردیتی ہے ۔وہ اپنی اولادکے لئے بھی ایسا غیراسلامی لباس پسندکرتی ہے ۔دورِجدیدمیں ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں خرابیاں بھی زیادہ پھیلتی جارہی ہیں ۔کیونکہ ساراسارادن ناول،ڈائجسٹ،میگزین ،اخبارات،رسائل وغیرہ کامطالعہ توہم بڑے شوق سے کرتے ہیں ۔تلاوت قرآن مجید،احادیث مبارکہ،سیرت امہات المومنین اورسیرت اصحاب کامطالعہ ہم نے چھوڑدیاہے۔ڈرامہ ،کرکٹ،فلمیں ،دوستوں کے ساتھ چیٹنگ وغیرہ کرنے کے لئے ہمارے پاس وقت اورپیسہ دونوں ہیں۔لیکن جب نمازکے لئے مسجدسے پانچ مرتبہ حی علی الصلوۃ کی صدابلندہوتی ہے کہ آؤنمازکی طرف،آؤفلاح کی طرف توا س کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ۔حالانکہ فلاح بھی ہماری اسی میں ہے کہ ہم اللہ اوراس کے رسولؐکے احکامات کی طرف دوڑے جاتے ۔
مسلمانوں نے مسلم معاشرہ میں اسلامی ثقافت کوچھوڑدیاہے حالانکہ ہماری ثقافت دین اسلام کے زیرِاثراوردنیائے اسلام میں اسلامی ثقافت کے نام سے جان اورپہچانی جاتی ہے۔اسلامی ثقافت کواپنااوڑھنا،بچھونابناکرجوبچہ پرورش پاتاہے ۔الگ سے اس کے پاس اپنی ایک خاص پہچان ہوتی ہے۔ جس سے مغربی تہذیب میں پرورش پانے والے بچے ناواقف ہوتے ہیں۔کیونکہ مغربی تہذیب میں پرورش پانے والے بچوں کو زیادہ تراپنے ماں باپ اورخاندان کابھی پتہ نہیں ہوتایہ مادرپدرآزادی دین اسلام اورہماری ثقافت دونوں میں ممنوع ہے ۔دین اسلام کے غالب ہونے سے قبل انسان،انسان کاغلام تھا۔کیونکہ اسوقت معاشرہ میں انسانی غلامی کارواج عام تھا۔قربان جاؤں دین اسلام اور اسلامی ثقافت پرجس نے انسان کوانسانی غلامی سے نجات دلاکریکساں حقوق عطاکرکے معاشرہ میں انسان کوبرابری کامقام دیا۔اسی لئے خطبہ حجۃ الوداع کے مقام پرآقاؐ نے ایک لاکھ چوبیس یا چوالیس ہزارافرادکے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرسے تاریخ سازخطبہ( جسے تاریخ اسلام میں خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے جاناجاتاہے )۔میں اعلان فرمایاکہ’’نہ کسی عربی کوعجمی پرکوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کوعربی پرنہ کالاگورے سے افضل ہے اورنہ گوراکالے سے ہاں بزرگی اورفضیلت کامعیارہے تو تقویٰ ہے‘‘۔قرآن مجیدفرقان حمیدکی سورۃ الاعراف پارہ 9آیت 189میں ارشادباری تعالیٰ ہے۔’’وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیداکیا‘‘۔سورۃ الحجرات آیت 13میں ارشاد فرمایاکہ’’اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیداکیااورتم کومختلف شاخوں اورقبیلوں میں تقسیم کیاتاکہ تم ایک دوسرے کوپہچان سکواللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ متقی عزت والاہے ‘‘۔یعنی کہ سب انسانوں کی اصل حضرت آدم وحواہیں اوران کی اصل مٹی ہے توہم سب کی اصل مٹی ہوئی پھرنسب پرہم اکڑتے اوراتراتے کیوں ہیں۔ہاں اللہ کے بارگاہ میں متقی پرہیزگارلوگ عزت والے ہیں۔
مسلمانوں کی ثقافت دین اسلام کی مرہون منت ہے ۔اسلامی ثفاقت میں اخلاقی،سیاسی،اقتصادی،سماجی،معاشرتی نظام دنیاکے کسی بھی تہذیب سے بے حددرجہ بہترہے ۔کیونکہ اسلامی طرزِ زندگی میں ایسی تمام خصوصیات شامل ہیں جواسلامی ثقافت کومغربی ثقافت سے بلندوبالامقام دیتی ہیں۔اگرہم اسلامی ثقافت میں عورت کامقام ومرتبہ دیکھیں تواسلام نے جنت کوماں کے قدموں تلے رکھ کرعورت کوعزت وتکریم بخشی ہے ۔اس سے پتہ چلتاہے کہ یہ واحداسلامی ثقافت ہے جس نے ہرکسی کواپنامقام ومرتبہ دیاہے۔یادرہے جہاں پر اسلام نے ہم سب کویکساں حقوق عطاکیے ہیں وہاں پرکچھ پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں اس کی جانچ پڑتال کرنے لئے ہم اسلامی ثقافت اورمغربی ثقافت کودیکھیں توہرچیزہمارے سامنے کھل کرآجاتی ہے۔مغربی تہذیب میں والدین اورمعاشرے کے بزرگوں کے لئے علیحدہ سے ہوم بنائے گئے ہیں لیکن اسلامی تہذیب میں جہاں پروالدین کے سامنے اُف تک نہ کہنے کاکہاگیاہے وہاں پرمیرے آقاؐنے ارشادفرمایا’’جوہمارے چھوٹوں پررحم اوربڑوں کی عزت نہیں کرتاوہ ہم میں سے نہیں‘‘اسی لئے مسلم معاشرے میں بچوں کے ساتھ پیارومحبت اورشفقت سے پیش آیاجاتاہے اور بزرگوں کاادب احترام کیاجاتاہے ۔ان کے جائزفیصلوں کوہرطرح سے مقدم سمجھاجاتاہے اوران کی دل آزاری سے حتی الامکان گریزکیاجاتاہے ۔
اسلامی ثقافت انسانی زندگی کے ہرگوشہ عمل کے بارے میں راہنمائی اورہدایت فراہم کرتی ہے ۔اسی لئے ہم کسی بھی طریقے سے مذہب کوثقافت سے الگ نہیں کرسکتے کیونکہ اسلامی ثقافت انسانی زندگی کی تمام ترضروریات اورمطالبات کوپوراکرتی ہے ۔دورِ جدیدمیں ہماری نوجوان نسل موبائل،کیبل ،ڈش انٹینا،انٹرنیٹ وغیرہ کے غلط استعمال سے تباہی کے دہانے پرپہنچ چکی ہے۔معاشرہ میں تقریباًہرشخص اپنی اولادکی وجہ سے پریشان نظرآتاہے ۔جس کی اصل اوربنیادی وجہ مغربی ثقافت ہے جس نے ہمیں کہیں کابھی نہیں چھوڑا۔
نہ خداہی ملانہ وصالِ صنم نہ اِدھرکے رہے نہ اُدھرکے رہے
اللہ اوراس کے محبوبؐ کے احکامات سے دوری کی وجہ سے دنیامیں ذلالت اورآخرت میں عذاب الیم کے مزے چکھیں گے ۔جبکہ مغربی ثقافت پرعمل پیراہونے کی وجہ سے ہم نے معاشرے کابھی سکون تباہ کردیاہے ۔حالانکہ والدین کی یہ اوّلین ذمہ داری تھی کہ اپنے بچوں کی اسلامی طرززندگی کے مطابق پرورش کرتے پَروالدین جب خوداسلامی ثقافت سے دوررہے وہ اولادکی اسلامی ثقافت کے مطابق کیسے پرورش کرتے ؟اولادکی اسلامی طرززندگی پر پرورش نہ کرنے کی وجہ سے آج اولادیں والدین کی نافرمان ہوتی چلی جارہی ہیں ۔کیونکہ مغربی ثقافت میں یہ سب کچھ جائزہے جس سے اسلام ہم کومنع کرتاہے۔آج نوجوان نسل موبائل،کیبل ،ڈش انٹینااورانٹرنیٹ کے غلط استعمال کی وجہ سے اپنے آپ کودین اسلام کی تعلیمات سے دوررکھے ہوئے ہے ۔ساراسارادن فضول خرچیوں اورسوشل میڈیاپرچیٹنگ کرتے کرتے گزرجاتی ہے ۔دن ،رات کی پرواہ تک نہیں ہوتی ۔بس ہروقت یہی فکرلاحق ہوتی ہے کہ ہم نے فلاں دوست کوفون کرناہے ۔ فلاں کے ساتھ چیٹنگ اورڈش انٹیناپرفلم دیکھنی ہے۔جب ہماری نوجوان نسل کے یہی حالات رہے تومعاشرہ میں اورزیادہ بگاڑپیدا ہوتاچلاجائے گا۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی میں نے تودل جلاکے سرِعام رکھ دیا
معاشرے کی اصلاح وترقی اورنسل نوکی تعلیم وتربیت میں عورت اپنامرکزی کرداراداکرسکتی ہے۔اسی لئے ہماری ماؤں،بہنوں،بیٹیوں کوچاہیے کہ اپنے آپ کواسلامی طرززندگی کے سانچے میں ڈھال کرنسلِ نوکی پرورش اورتعلیم وتربیت کریں ۔دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کی طرف ضرورتوجہ دیں ۔کیونکہ یہ واحددینی تعلیم ہے جہاں پرماں ،باپ،اساتذہ کرام،رشتہ داروں اوردوستوں وغیرہ کے ادب وحقوق کادرس دیاجاتاہے۔دنیاوی تعلیم میں اب توایسانصاب دیکھنے کومل رہاہے جسے الفاظ میں بیان کرناممکن نہیں۔اسی لئے دیناوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بہت ضروری ہے ۔کیونکہ دینی تعلیمات پرانسان عمل پیراہوکرخودکوبھی اورمعاشرے کے بگڑے ہوئے حالات کوسنوارسکتاہے ۔اللہ پاک ہماری نوجوان نسل کوہدایت عطافرمائے ۔ملکِ پاکستان میں نظام مصطفیؐ لاگوفرمائے ۔وطن عزیزکوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے ۔آمین بجاہ النبی الامین