ڈیرہ اسماعیل خان کے معروف صحافی عثمان غنی اسراء کا محاصرہ
محاصرہ
کنونشن
محمد عثمان غنی اسراء
ایک خبر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہونے والے نمائندوں سے کہا ہے کہ آپ لوگوں کو عوام نے خدمت کیلئے منتخب کیا ہے، ذاتی مفاد کے لئے گندی سیاست نہ کی جائے۔پشاور میں عمران خان بلدیاتی نمائندوں کے کنونشن سے خطاب کر رہے تھے کہ منتخب نمائندوں نے احتجاج شروع کر دیا جس پر عمران خان اُن پر برَس پڑے اور کہا کہ بلدیاتی نظام تحریک انصاف کے لئے نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کی عوام کے لئے ہے، جو سمجھتے ہیں کہ احتجاج کے ذریعے مجھ پر دبا ڈال سکتے ہیں وہ اپنی غلط فہمی دور کرلیں، حکومت کی تعریف کے بجائے دو تین سو لوگ مجھے پلے کارڈ دکھا رہے ہیں، ذاتی مفادات کے لئے آپ عوامی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ بلدیاتی نمائندے عوام کی خدمت کے لئے آئے ہیں یا اپنی جیبیں بھرنے کے لئے، آپ کو عوام کی بے لوث خدمت کا موقع ملا ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں، صوبے میں نیا نظام ہے اس لئے اس میں مسئلے بھی پیدا ہوں گے لیکن وقت کے ساتھ ان پر قابو پا لیں گے، بلدیاتی نمائندوں کو جن مسائل کا سامنا ہو گا حل کریں گے۔ عمران خان کے اس بیان کا جائزہ اگر ہم خودُ ان کے اَپنے انتخابی نعروں کے تناظر میں لیں تو شاید عمران خان کے تضادات سمجھنے میں آسانی ہو اس بارے میں یہ کہ تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں اقتدار میں آنے کے بعد90روز کے اندر بلدیاتی انتخابات کروانے اور ان کو مکمل طور پر با اختیار بنانے کی بات تھی اب ایک تو یہ انتخابات قطعاً نوے روز کے اندر وقوع پزیر نہیں ہوئے اور جب ہوئے تو بھی پہلے مرحلے میں ان کو اپنے نوٹیفکیشن کے اجراء اس کے بعد ان کو اختیارات لینے میں ایک طویل عرصہ بیت گیا اب ان کو اپنے اخراجات مانگنے کیلئے ایک بھر پور جنگ کرنا باقی ہے اس ضمن میں پاکستان تحریک انصاف کے اس کنونشن کہ جس میں منتخب عوامی نمائندے کہ جن کو عمران خان اپنے انتخابی منشور میں جمہوریت کی اساس قرار دیتے تھے اب خود ان کے ساتھ جس لہجے میں بات کر رہے ہیں اور جو ان کی توقیر کی جا رہی ہے یہ ان کی جانب سے ایک تناظر میں خود عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہی قرار دی جا سکتی ہے ۔مقام حیف تو یہ کہ ماضی میں منتخب بلدیاتی نمائندوں کے پاس کم از کم ڈومیسائل تصدیق کرنے اور مجسٹریٹ کی سطح کی عدالتوں میں ضمانت نامے تصدیق کرنے شناختی کارڈ کے حصول کے لئے درخواست فارم تصدیق کرنے کے اختیارات اور تھانہ کی سطح پر بنائی جانے والی مصالحاتی کمیٹیوں میں نمائندگی رکھنے کی سہولیات حاصل تھیں اب یہ اختیارات بھی ان کے بس سے باہر ہیں اور جب یہ منتخب نمائندے یعنی بنیادی جمہوریت کی اکائی اپنے حقوق مانگنے کیلئے صداء بلند کرتی ہے تو عمران خان صاحب ان سے رعونت بھرے لہجے میں مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ ،، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ بلدیاتی نمائندے عوام کی خدمت کے لئے آئے ہیں یا اپنی جیبیں بھرنے کے لئے؟،،اب عمران خان صاحب سے کوئی پوچھے کہ ان بلدیاتی نمائدوں کہ جن کی فوج تیار ہو گئی ہے اپنے اختیارات کیلئے کس کے سامنے،،بین بجائیں،، اگر عمران خان ان کو جیبیں بھرنے کا طعنہ دیکر مخاطب ہوں کہ جن کی تبدیلی کے نعرے کی گونج ابھی تک اِن منتخب بلدیاتی نمائندوں کے دن کا چین اور رات کا سکون غارت کئے ہوئے ہے ۔عوام کی ان نمائندوں سے توقعات اتنی بڑی ہیں کہ چونکہ ان کی تعداد زیادہ ہے اور ہر نمائندہ اپنے محور میں اپنے آپ کو چھوٹا عمران خان ہی سمجھتا ہے ۔پشاور میں منعقدہ جس کنونشن میں عمران خان کے سٹیج پر آنے کے بعد منتخب بلدیاتی نمائندوں نے احتجاج شروع کر دیا وہ بھی تھوڑے جلد باز واقع ہوئے ہیں ورنہ اگر وہ عمران خان کی نئی طفل تسلیاں سن لیتے تو شاید کہ ان کو اس احتجاج کی نوبت بھی نہ آتی لیکن اِن بلدیاتی نمائندوں کے صبر کا پیمانہ قبل از وقت لبریز ہو گیا ۔اس احتجاج میں یوتھ کونسلرز ،خواتین کونسلرز کسان کونسلرز نے اختیارات کے حصول کیلئے تو نیبر ہڈ کونسل اورویلج کونسل کے سیکریٹریزنے بھی اگلے گریڈوں میں ترقی کیلئے صدا ءِ احتجاج بلند کی مگران کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی اس تمام تر صورتحال میں عمران خان کے بلدیاتی نظام کہ جس کے بارے میں ان کے وزیر اعلی ٰنے اعلان کیا کہ یہ نظام انہوں نے خود بنایا ہے اور چونکہ وہ خود ماضی میں ضلع ناظم رہے ہیں اس صورتحال میں ان سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو کس طرح کا نظام چاہیے اور کس قسم کے اختیارات چاہیں وزیر اعلیٰ کا اعلان یہ بھی تھا کہ رولز آف بزنس تو انہوں نے خصوصی طور ر انی نگرانی میں وضع کئے ہیں اب صوبے کے وزیر اعلی اور تحریک انصاف کی قیادت میں وزارت اعلیٰ کے عہدے کے استحقاق کے حامل لائق فائق شخص کے عالی دماغ سے نمویافتہ نظام میں اگر منتخب بلدیاتی نمائندوں کی ایک غالب اکثریت اگر اس کے باوجود بے اختیاری محسوس کرے تو کون ان کو تسلی دے سکتا ہے۔نہ جانے کیوں بلدیاتی نمائندے ہر دن نئی نئی الجھن کا شکار نظر آتے ہیں یہاں ایک سوال اور بھی بڑا اہم ہے کہ صوبائی حکومت نے ان منتخب عوامی نمائندوں کیلئے ،،اعزازئیے،، کا بھی اعلان کیا ہے اور یہ اعلان اس کنونشن سے ایک روز بیشتر ہی کرلیا گیاہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ خود تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اس اعلان کا کریڈٹ بھی عمران خان کو نہیں دینا چاہتی تھی ۔لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ عمران خان جو تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئے ہیں ان کی ٹیم کیا ،،مشاہرہ،، عوامی خزانے میں جمع کروا کرحقیقی تبدیلی کا عنوا ن بن سکیں گے یا ان کی ساری جدوجہد کا محور یہی،،،مشاہرہ،،ہی تھا۔۔؟