مان نہ مان ، میں تیرا مہمان ( محمد جنید خان کا کالم )
مان نہ مان ، میں تیرا مہمان
روس افغانستان جنگ کے دوران دسمبر 1982میں کالاباغ کے نزدیک افغان مہاجرین کیمپ بنایا گیا جو پنجاب کا سب سے بڑا افغان مہاجرین کیمپ تھا۔شروع شروع میں تو یہ افغان مہاجر اس کیمپ تک محدود رہے مگر بعد ازاں پورے ملک میں پھیلتے چلے گئے۔اس وقت بھی تقریبا بیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین پاکستان کے چاروں صوبوں میں آباد ہیں۔یہی افغان مہاجر وطن عزیز میں دہشت گردی کا سبب بنے ہیں اور ملک میں ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر انہی لوگوں کا پیدا کردہ ہے ماضی قریب میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے افغان مہاجرین کو گرفتار کیا ہے جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔پاکستان نے ان کو سر چھپانے کے لئیے جگہ فراہم کی پاکستانیوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور رفتہ رفتہ یہ مہاجرین پاکستان میں رہ کر ٹرانسپورٹ،کاروبار،اور دوسرے کئی غیر قانونی ذرائع آمدن استعمال کر کے کروڑں میں کھیل رہے ہیں جب کہ مقامی آبادی یعنی پاکستانیوں کو انہوں نے اپنے ہاں ملازم رکھا ہوا ہے آپ یقین جانئے کہ جتنا یہ لوگ ناجائز ذرائع سے ایک سال میں کماتے ہیں اتنا ایک عام پاکستانی دس سال میں بھی نہیں کما سکتا بڑے شہروں میں ان افغان مہاجرین کی بہت بڑی بڑی مارکیٹس ہیں اور کاروبار پریہ لوگ چھائے ہوئے ہیں۔ہر دوسرا افغان مہاجر پاکستانی شناختی کارڈ نہ ہونے کے باوجود بھی موبائل فون استعمال کر رہا ہے ۔کیا کبھی حکومت نے سوچا ہے کہ بیس لاکھ کے قریب غیر قانونی سمز تو یہ افغان مہاجر استعمال کر رہے ہیں کیا ان کی روک تھام کے لیے بھی کوئی میکنزم اختیار کیا جا رہا ہے یا نہیں وزارت داخلہ اور پی۔ٹی۔اے کہاں سوئی ہوئی ہے کہاں گیا وہ بایؤ میٹرک نظام۔مگر پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے کئی افغان مہاجر پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوا کے بیرون ملک بھی پہنچے اب بھی افغانی نوجوان یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوانا کوئی مسلہ نہیں۔ان حالات میں جب پاکستان دفاعی اور معاشی محاذ پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ ناں صرف ان لوگوں کو اپنے اپنے کیمپس تک محدود رکھے بلکہ ان لوگوں پر کڑی نظر رکھے یہ ہر پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ اپنے ارد گرد موجود کالی بھیڑوں کا خاتمہ کرنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کرے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ تیس سال سے زائد مہمان نوازی کرنے بعد ان افغان مہاجرین کو با عزت طریقے سے واپس افغانستان بھیجنے کا بندوبست کرے تا کہ یہ لوگ تباہ شدہ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے سکیں۔کیوں کہ پاکستان اب مزید انکی مہمان نوازی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ 1947میں پاکستان کی مخالفت کرنے میں یہی افغانستان پیش پیش تھا ۔خدانخواستہ اگر افغانستان جیسے حالات پاکستان میں ہو جاتے اوریہی افغانستان پیش پیش تھا ۔خدانخواستہ اگر افغانستان جیسے حالات پاکستان میں ہو جاتے اور ہم پاکستانیوں کو ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا تو اول تو افغانستان ہمیں پناہ ہی نہ دیتا اگر دیتا بھی ہم سے وہ سلوک ہوتا جو افغانستان جانے نیٹو کنٹینرز کے پاکستانی ڈرائیورز سے ہوا ہے جنہیں سر عام گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا اور انتہائی نفرت سے پاکستانی کہا جاتا ہے ۔