کالم

عنایت عادل کا کالم ” باالحق” چین کی بنسی

باالحق
عنایت عادل
چین کی بنسی
کہنے لگے، آپ کا لہجہ تلخ اور الفاظ کھردرے بہت ہوتے ہیں۔ تھوڑا سا نرم لکھا کیجئے۔۔عرض کیا جناب ، کیا آپ اس شہر میں شروع ہی سے رہتے ہیں؟ بولے، یہ میرا وطن ہے اورمیں توکیا، میرے ماں باپ، حتیٰ کہ ان کے ماں باپ نے اسی دھرتی پر جنم لیا ہے۔ میں نے عرض کیا، پھر تو آپ کو اس مٹی سے محبت بھی ضرور ہو گی؟ کہنے لگے، اپنی مٹی سے کسے محبت نہیں ہوگی؟ ۔۔۔شاید تلخ ہی رہی ہو، مسکراہٹ کے ساتھ میں نے ان صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔اسکی آنکھوں میں دیکھا۔۔وہ صاحب کچھ گھبرا گئے۔۔ میں نے مسکراہٹ سے تلخی کم کرنے کی ’’کوشش‘‘ کرتے ہوئے کہا۔۔مجھے اس شہر میں کوئی ایسی بات بتا سکتے ہیں کہ میں اس شہر کے حالات لکھتے ہوئے ، کسی شیرینی کا تڑکہ لگا سکوں؟؟؟میرے اس سوال کا جواب جو موصوف نے دیا، اسے سن کر میں کوشش کے با وجود بھی چہرے پر آنے والی تلخی کو نہ روک سکا۔ ان صاحب کا نام مجھے معلوم نہیں، نقشہ کھینچے دیتا ہوں، قد کاٹھ اور جسامت کم و بیش میری ہیئت کے برابر رہی ہوگی۔عمر شاید بالوں میں آنے والی سفیدی سے کم ہی تھی۔ اور یہی حال آنکھوں پر لگے نظر کے چشموں کا تھا۔گھسا ہوا، کہیں کہیں سے ٹانکے دکھاتا، ملیشیا کا جوڑا شاید این آر او اور میثاق جمہوریت کی کوکھ سے جنم لینے والے دونوں ادوار کا مزہ چکھ چکا تھا اور سرمئی سے سفیدی کی جانب گامزن تھا۔ پاؤں میں چپل بھی محتاط اندازے کے مطابق، موچی کے مستقل گاہک تھے۔ سائیکل کی حالت بھی کچھ اسی قسم کی کہانی سنا رہی تھی جس کے ہینڈل سے لٹکے تھیلے میں شاید کچھ سبزی وغیرہ تھی جو اپنی مقدار کی بدولت، اس تھیلے کو خالی قرار دینے کی جستجو کر رہی تھی۔ سائیکل کے بستر بند پر ایک چار پانچ سال کا بچہ تھا جو کہ شاید سیدھا بستر سے اٹھ کر ان صاحب کی پدرانہ شفقت کی بدولت بازار چلا آیا تھا۔ اس بچے کی ادھ ننگی ٹانگ پر عین گھٹنے کے قریب ایک واضح زخم تھا جس پر شاید تیل یا کچھ اسی قسم کی گھریلو فرسٹ ایڈ لگا کر ، علاج کو محض مکھیوں سے بچانے تک محدود کر دیا گیا تھا۔ اس بچے کے جسم پر لٹکے کپڑے، شاید اس کے بڑے بھائی یا کسی اور غم خوار کی امداد کی مرہون منت تھے، جو ہفتوں کی میل اپنے اند ر سموئے، اس بچے کو اپنی سائز کے مطابق بڑا ہونے کی شہہ دے رہے تھے۔ہاتھ میں ادھ چھلے کینو کو چباتا یہ بچہ، قدرت کی طرف سے دی گئی اپنی تمام تر خوبصورتی اور طفلانہ معصومیت کو اس کینو کے رس اور اس پر بیٹھنے والی مکھیوں سے آلودہ ہونے سے بالکل بے پرواہ تھا۔ان صاحب ، جو کہ بقول ان کے اردو میں ماسٹرز کی سند رکھتے تھے اور اخبارات و رسائل کے رسیا ہونے کے ساتھ ساتھ، اس عاجز کے مضامین کے بھی مستقل قاری تھے، نے بتایا کہ سائیکل پر ان کا ہمسفر بچہ ، انکی تین بیٹیوں اور تین ہی بیٹوں میں سے ایک اولاد تھا۔ آٹھ افراد پر مشتمل یہ کنبہ، ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک مضافاتی بستی میں واحد کمرے پر مشتمل ، چار مرلے کے مکان میں رہائش پذیر تھا۔پوچھنے پر ملنے والی ان معلومات میں یہ بھی بتایا گیا کہ رشوت اور سیاسی سفارش کی بنیاد پر حاصل کردہ سرکاری نوکری چھوٹ جانے کے بعد، ان تمام اہل خانہ کی گزربسر گھر کے ساتھ ہی چارپائی پر سجائی جانے والی اس دکان پر تھی کہ جس پر گھریلو استعمال کی چھوٹی بڑی اشیاء کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے گولیاں ٹافیاں اور ابلے آلوؤں کے جراثیم زدہ چٹخارے فروخت کئے جاتے تھے۔
کہنے لگے، حالات اتنے بھی خراب نہیں ہیں عادل بھائی۔۔۔چہرے پرمسلسل پڑتی میری خالی نظریں اور میرے چہرے پر آتی تلخی پر وہ صاحب کچھ سٹپٹا گئے۔ میرا دل کچوکے کھانے لگا جبکہ کنپٹیوں میں انگارے سے بھرتے محسوس ہوئے۔ ضبظ پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے میں نے کہا، میرے بھائی، میری تحریوں میں ملک کی مجموعی صورتحال اور خاص کر اپنے شہر پر جبری مسلط کی جانے والی پسماندگی ہی کا ذکر ہوتا ہے۔ کسی شخصیت کی حالت زار پر شاید ہی میں نے کچھ لکھا ہو۔ لیکن آپ کی اپنی کہانی بھی میرے شہر کے گلیوں بازاروں کی طرح ہی ادھڑی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔الحمدُ للہ، صد الحمدُ للہ، میری زندگی، فطری بشری پریشانیوں کے باوجود آپ کی نسبت کہیں زیادہ پرسکون ، اور میرا رہن سہن کافی حد تک بہتر ہے۔ جس پر میں اپنے رب کا جس قدر بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ تاہم، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کو خداوند قدوس نے جس قسم کی نعمتوں اور مواقع سے نوازا ہے، انکو کرنے والے اگر صحیح نیتوں کے ساتھ استعمال کرتے تو میرا شہر لندن پیرس نہ سہی، کم از کم پسماندگی کے طوق سے ضرور آزاد ہوتا۔ اور اسی پسماندگی، کہ جو جان بوجھ کر ہمارے سیاسی زعما ء نے میرے شہر پر محض ، اس شہر کے باسیوں کو غلام اور باجگزار رکھنے اور اس کے نتیجے میں اپنی دھونس قائم رکھتے ہوئے ووٹ اینٹھنے کی غرض سے تھوپ رکھی ہے، اسی پر کڑھتے ہوئے میری تحریروں میں تلخی آپ کو محسوس ہوتی ہے۔میرا دکھ یہ ہے کہ میرے شہر کے باسی، ہر قسم کا ہنر، قابلیت، تعلیم اور اہلیت رکھتے ہوئے بھی ان مواقع سے محروم رکھے جا رہے ہیں، اور مسلسل رکھے جا رہے ہیں، کہ جنکی بدولت نا صرف اس شہر کے لوگ خوشحال زندگی بسر کر سکتے تھے، بلکہ اس شہر میں ہونے والی ترقی، پورے ملک کی ترقی میں اپنا بیش بہا حصہ ڈال سکتی تھی۔لیکن، آپ تو خود ، پڑھے لکھے، صاحب ذوق ہونے کے باوجود، سراپا استحصال بن چکے ہیں، اور آپ ہی مجھے مشورہ دے رہے ہیں کہ میں اپنی تحریروں میں شیرینیاں بکھیروں؟؟؟کہنے لگے، عادل بھائی، کیا کیا جا سکتا ہے اس چھوٹے سے شہر میں؟ کون سے مواقع ہیں یہاں؟ مواقع تو بڑے شہروں میں ہوتے ہیں۔میں نے عرض کی جناب، یہ چھوٹا سا شہر، لاکھوں ایکڑ پانی کو ترستی زرخیززمین رکھنے والا شہر ہے۔یہ چھوٹا سا شہر، ٹنوں کے حساب سے گنا ، گندم ، چاول اور کئی دیگر اجناس کے پیدا کرنے والا شہر ہے۔یہ چھوٹا سا شہر، دنیا کی سب سے بہترین کھجور پیدا کرنے والا شہر ہے ۔یہ چھوٹا سا شہر،تجارتی منڈیوں کے بنائے جانے کے قابل شہر ہے۔یہ چھوٹا سا شہر، ملک کے چاروں صوبوں کی آمدورفت کا مرکز ہے۔ یہ چھوٹا سا شہر، مختلف قسم کے پہاڑی سلسلوں سے گھرا شہر ہے۔ یہ چھوٹا سا شہرملک کے سب سے بڑے دریا کا حامل شہر ہے۔ یہ چھوٹا سا شہر، پرائمری سے لے کر، یونیورسٹی تک کی اعلیٰ تعلیم دینے والا شہر ہے۔ ۔ ۔ ۔۔ یہ چھوٹا سا شہر، مختلف تہذیبوں، مختلف زبانوں اور مختلف روایات کا مسکن شہر ہے۔ یہ چھوٹا سا شہر،محنت کش کسانوں، ہنر مند کاریگروں، اور غیرت مند ڈیرہ والوں کا شہر ہے۔ آپ نے کبھی سوچا کہ ان تمام خصوصیات کے باوجود، ہم پسماندہ کیوں ہیں؟ نفی میں سر ہلا کر مجھ ہی سے جواب کے طالب ان ڈگری ہولڈر صاحب کی سادگی پر سلگتے دل کے ساتھ میں نے جواب دیا۔۔نیت۔۔صرف نیت کا فطور ہے۔۔ یہاں پر ووٹ لینے والی کی نیت میں بھی فطور ہے اور ووٹ دینے والے کی نیت بھی فطور سے بھری پڑی ہے۔جس دن ان دونوں طبقوں کی نیت ٹھیک ہو گئی، لالچ، حرص اور وقتی مفاد کے ساتھ ساتھ ، دونوں ہی طرف سے جھوٹ اور مکاری ختم ہو گئی، اس شہر کی پسماندگی خود ہی ختم ہو جائے گی۔ اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں ہے تو دیکھئے، بڑی بڑی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے لالچی ، مفاد پرستوں کی ٹولیاں۔دیکھئے بڑے بڑے محلات کے سامنے لگی ،روٹیاں توڑتی،لکشمی کھینچتی لمبی لمبی قطاریں۔ اور دیکھئے، ان پسماندہ ذہن ، بھکاریوں کو گھنٹوں گھنٹوں انتظار کرواتے ، ، تکبر و غرور میں فرعون کو مات دیتے ابن الوقت سیاستدان۔۔۔ ان دونوں ہی طبقات میں آپ ہی شیرینی ڈھونڈئیے۔ مجھے تو ہر طرف مفاد ات کے پجاری، زہر اگلنے پر ہی مجبور کئے دیتے ہیں۔ ۔۔
یہ سن کر وہ صاحب مجھ سے ہاتھ ملا کر چل دئیے۔۔مجھے معلوم ہے کہ کچھ دور جا کر میری شان میں کون سے قصیدے داغے ہونگے۔ وہی، جو آپ پڑھ کر داغ رہے ہیں۔

Back to top button