ممتاز کالم نگارہ عالیہ جمشید خاکوانی کا آئینہ ” اے پردہ نشینو "
آئینہ
عالیہ جمشید خاکوانی
اے پردہ نشینو
میں کہیں پڑھ رہی تھی نواز شریف کے دور میں بینکوں سے قرضے لے کر واپس نہ کرنا اور بڑے بڑے ٹیکسوں کی چوری کرنا امیر ہونے کا آسان طریقہ بن گیا تھا 1999میں جب نواز شریف کو برطرف کیا گیا تو تین سو بائیس بڑے بڑے قرض نادہندگان کی فہرست حکومت نے شائع کی جس میں بینکوں کے دیے گئے چار ارب ڈالر میں سے تین ارب ڈالرز ان ہی کے ذمہ واجب الادا تھے نواز شریف اور ان کے اہل خاندان کے زمہ 60ملیئن ڈالر واجب الادا بتائے گئے تھے یہ سب گیارہ سال پہلے کی بات ہے ذرا سوچیئے ان برسوں میں شریفوں اور زرداریوں کی دولت کس طرح دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ہو گی کئی سال پہلے پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف کے آدمیوں نے لاہور کے ڈرائی پورٹ سے کروڑوں روپے مالیت کے آہنی تختوں کو کباڑ اور فالتو سامان قرار دیتے ہوئے ان کی سمگلنگ کی تھی یہ معلوم ہونے کے بعد بھی کہ ان ٹرکوں میں کباڑ کی بجائے لوہے کے تختے رکھے گئے ہیں ان ٹرکوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔میں بہت کوشش کرتی ہوں یہ باتیں نہ پڑھوں نہ لکھوں لیکن میں کیا کروں جس جگہ ان شریفوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کو پہنچا دیا ہے اس کے آگے گڑھا ہے اور پیچھے کھائی ہے مایوسی کی کوئی حد نہیں سنتے تھے مایوسی بہت بڑا گناہ ہے کیوں گناہ ہے یہ اب دیکھ رہے ہیں جب انصاف کی توقع ہی نہ رہے تو قانون خود بخود ہی غلط ہاتھوں میں چلا جاتا ہے ہمارے حکمران چور ہیں بد دیانت ہیں تو ہم ویسا کیوں نہ کریں اب یہ عمومی سوچ بن چکی ہے مال بنانے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے الم غلم قانون بھی بناتے رہتے ہیں اسی میں سے ایک عورتوں پر تشدد کے خلاف ایکٹ تھا جس کا فائدہ تو کیا ہونا تھا نقصان یہ سامنے آیا ہے کہ مردوں نے عورتوں کے خلاف محاذ کھڑا کر لیا ہے یہ نفرت کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ مرد کو عورت گھر سے نکال دے تو اس کا حل یہ ہے پہلے عورت کو پیار سے گھر سے باہر لے جاؤ اور گھر سے باہر دو تین تھپڑ لگاؤ وہ آپ کو گھر سے باہر کیسے نکالے گی چاہے یہ ایک مذاق ہے لیکن اس کے کئی عملی نمونے سامنے آچکے ہیں اب ان کو کون سمجھائے کہ آج کی عورت کو پیار سے زیادہ عزت کی ضرورت ہے وہ پہلے والی چھوئی موئی عورت نہیں رہی جو پیار کے سہارے کٹیا میں بھی گذارا کر لیا کرتی تھی اسے مادی سہاروں کی ضرورت ہے مرد اسے اب سہارا نہیں بوجھ لگتا ہے وہ اپنے حسن کو دوآتشہ بناتی ہے بنتی سنورتی ہے مگر مرد کے لیے نہیں اپنے لیے یا اس دنیا کو تسخیر کرنے کے لیے جو اسے آسائشات مہیا کرے عورت کی ترجیہات بدل چکی ہیں اس کا سب سے بڑا ثبوت ماڈل گرل آیان علی ہے جس کو دولت و اقتدار نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا اور اب وہ کئیوں کی رول ماڈل ہے اس کی دیکھا دیکھی کتنی اس تالاب میں کودی ہیں یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اس کاعدالت میں ہر پیشی پہ یوں بن سنور کر آنا کہ جیسے ریمپ پر چل رہی ہو کتنے دلوں میں فتور کے بیج بو گیا کہ بدنام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگاحکمرانوں کی زندگیاں عوام کے لیے مثال ہوا کرتی ہیں زرداری نے کیا مثال سیٹ کی ہے کہ اب لاکھوں ایان علی پیدا ہو چکی ہیں کچھ دن پہلے میں ایک شوز سٹور پر گئی ہم شوز نکلوا کر دیکھنے لگے اچانک ایک لڑکی شاپ میں داخل ہوئی بخدا اس نے باریک سیاہ نیٹ کا عبایا پہنا ہوا تھا جس میں سے شاکنگ پنک اور دھانی کلر کا چست لباس بالکل واضح تھا ٹخنوں سے اونچا پاجامہ،ہائی ہیل سینڈل ،نیل پالش سے رنگے ناخن، جی بھر کے کیا گیا میک اپ ۔۔۔مگر عبایا کا تکلف کیوں؟صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی عملی تفسیر بنی وہ لڑکی جب تک شاپ میں رہی ہر نظر اسی کی جانب تھی شائد وہ بالکل بے پردہ ہوتی تب بھی اتنی نظریں نہ اٹھتیں تو جب ہم اس طرح کے منافقانہ عمل کرتے ہیں تب انکی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے عبایا جسم ڈھانپنے کے لیے پہنا جاتا ہے لیکن آجکل اسے زینت بڑھانے کے لیے پہنا جاتا ہے یہ اوقات اور شناخت چھپانے کے لیے بھی پہنا جاتا ہے بہت سی خواتین اسے سچ مچ پردے کے لیے بھی پہنتی ہیں ان کے عبایا سادہ ہوتے ہیں نگوں موتیوں سے آراستہ نہیں ہوتے کہ چمک دمک سے نگاہوں کو اپنی طرف کھینچیں ،یہی حال ہمارے سیاست دانوں کا ہے پروٹوکول کے تام جھام کے لیے سب کچھ کر گذرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کیا یہ عوام کی خدمت کے لیے مرے جا رہے ہیں ؟نہیں یہ اپنا مال باہر رکھتے ہیں لیکن اقتدار اور پروٹو کول کے مزے پاکستان میں لیتے ہیں اسی لیے یہ پاکستان کی جان نہیں چھوڑتے بخدا ان سے صرف یہ پروٹوکول ہی واپس لے لو یہ کبھی مڑ کر اس ملک میں واپس نہیں آئیں گے اور میرے خیال میں ان کے مزے دیکھ کر عام لوگ جو اپنے دل پر کنٹرول کھو بیٹھے ہیں انہیں بھی اچھا برا سمجھنے کی توفیق مل جائے گی کہ ایک دن بے ایمانی کا حساب بھی دینا پڑتا ہے چاہے وہ دولت کی ہو ایمان کی یا کردار کی