میاں صاحب قوم کو بے وقوف مت بناو . اعجاز احمد ملک کا کالم
میاں صاحب قوم کو بے قوف مت بناؤ ….. اعجاز احمد ملک
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔نمبر1جب بات کرے تو جھوٹ بولے نمبر2جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔نمبر3 جب اس کی پاس کوئی امانت رکھوائی جائے تو وہ امانت میں خیانت کرے۔
ہمارے آج کل کے حکمران اور خصوصاً میاں برادران ان تینوں نشانیوں پر پورا اترتے ہیں۔ پہلی نشانی ان کی ہربات میں جھوٹ شامل ہوتا ہے بلکہ ان کا پورا خاندان ہی جھوٹوں پر مشتمل ہے۔دوسری نشانی الیکشن کے دوران کئے گئے تمام کے تمام کے وعدے جھوٹے ثابت ہوئے۔ تیسری نشانی ہمارے حکمران بے ایمان ہیں،بھلا کیسے؟ یاد ہے انہوں نے قرض اتاروملک سنواروکے نام پر عوام سے اربوں روپیہ لے کر خود ہڑپ کرلیا اور پاکستان کا قرضہ وہیں کا وہیں رہا بلکہ اس سے دوگنا زیادہ بڑھ گیا۔ بس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ منافق،فاسق و فاجر ہیں۔اب آپ میاں صاحب کا قوم سے تاریخی جھوٹا خطاب ملاحظہ فرمائیں۔جناب نوازشریف صاحب کہہ رہے ہیں کہ اتفاق فونڈری قیام سے قبل قائم ہوگئی تھی۔ معاف کیجئے گا آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔کیا یہ درست نہیں کہ آپ کے والد محترم میاں محمد شریف نے 1956ء میں وزارت محنت کو 25/25 ہزار کے دو قرضوں کے حصول کیلئے جو درخواستیں جمع کرائیں تھی ان درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ ریلوے روڈ لاہور میں قائم آپ کی اتفاق فونڈری نامی بھٹیوں کو مزید بہتر بنانے کیلئے قرضوں کی ضرورت ہے۔ ملک کے معروف صحافی حیدر جاوید سید کہتے ہیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ 1990-91 میں لاہور سے میری ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ زنجیر کے ایک شمارے میں شامل اشاعت سٹوری’’تیسرا پنجابی نہیں پہلاکشمیری وزیراعظم‘‘ میں قرضوں کے حصول کی 1956ء والی درخواستوں کی تفصیلات کے ساتھ کچھ دیگر حقائق بھی شامل تھے۔اور میری اس سٹوری کی اشاعت کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے آئی بی نے جو سلوک مجھ سے کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب کاش آپ جھوٹی کہانیاں سنانے کی بجائے پورا سچ بیان کرتے۔وزیر اعظم کی تقریر اور مختلف چینلز پر حسین نواز کی گفتگو سن کر ایک چالاک گاہک اور سادہ لوح حلوائی کا لطیفہ یاد آگیا۔آپ بھی پڑھئے۔
ایک شخص حلوائی کی دکان پر گیا اور برفی کا نرخ پوچھا۔حلوائی نے نرخ بتایا تو گاہک بولا ایک پاؤ پیک کردو۔دکاندار نے پیک کی تو گاہک نے کہا لڈو کا بھاؤ کیا ہے؟ حلوائی نے بھاؤ بتایا تو گاہک بولا برفی رکھ لو،اس کے عوض لڈو دے دو،دکاندار نے ایسا ہی کیا۔اچانک گاہک نے گلاب جامن کی طرف اشارہ کرکے نرخ پوچھے تو غصے پر قابو پاکر حلوائی نے اس کا نرخ بتایا۔گاہک بولا لڈو چھوڑو گلاب جامن دے دو، پھر رس گلا مانگا اور جب دکاندار رس گلاپیک کرنے لگا تو گاہک بولا مجھے پلیٹ میں رکھ کر دے دو۔ یہاں کھالیتا ہوں۔ حلوائی نے تعمیل کی۔گاہک نے رس گلے کھائے ڈکار لیا اور چل پڑا حلوائی نے کہا بھائی رس گلے کی قیمت تو ادا کرو۔گاہک بولا رس گلے تو میں نے گلاب جامن کے عوض لیے تھے۔حلوائی بولا تو پھر گلاب جامن کی قیمت ؟ وہ تو تم نے لڈو کی جگہ دیئے۔چلو لڈو کی ادائیگی توکریں۔حلوائی عاجز آکر بولا۔وہ بھی برفی کے بدلے لیے تھے۔گاہک اطمینان سے بولا۔ حلوائی سٹپٹا گیا۔گاہک کی دلیل مان لی اور بولا تو ٹھیک ہے،برفی کے پیسے یہاں رکھو۔زیادہ چالاک نہ بنو۔کون سی برفی؟ وہ تو میں نے واپس کردی تھی۔ گاہک معصومیت سے بولا۔
چند لاکھ کمانے والے 19 کمپنیوں کے مالک کیسے بن گئے؟ایک نجی ٹی وی کے میزبان نے انکشاف کیا ہے کہ نوازشریف پہلے اداکاری ، پھر کرکٹ میں ناکام ہوئے اور ضیاء الحق کے ذریعے سیاست میں آگئے۔چند لاکھ کمانے والے چند سالوں میں 19 کمپنیوں کے مالک بن گئے۔21 بلین کے قرضے بھی معاف کرالئے۔پروگرام کے میزبان کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے گورنمنٹ کالج لاہور میں سفارش پر داخلہ لیا اور تھرڈ ڈویژن میں بی اے پاس کیا وہ جب بزنس میں آئے تو ناکام ہوئے ان کے والد نے انہیں فلم سٹار رنگیلا کے ساتھ اداکاری سیکھنے کیلئے بھیجا اور چند دن بعد رنگیلا نے انہیں واپس بھیجتے ہوئے کہا کہ یہ کام نہیں کرسکتے۔پھر ان کیلئے کرکٹ کوچ مقرر کیا گیا اور کرکٹ کیلئے انہیں ریلوے میں قلی بھرتی کرایا گیا لیکن وہ کرکٹ بھی نہ کھیل سکے۔ اور کہا جاتا ہے کہ پہلے ہی روز انہوں نے بیٹ پھینک دیا اور کہا کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا۔پھر نوازشریف نے اس وقت کے گورنر پنجاب جنرل جیلانی کی منت سماجت کرکے ضیاء الحق سے متعارف ہوئے۔پھر وہ پنجاب کابینہ میں وزیر خزانہ بنے اور پھر وزیراعلیٰ بنے اور پھر 3 بار وزیر اعظم بنے۔نجی ٹی وی کے مطابق 1980 ء کی دہائی میں سیاست میں جب نوازشریف آئے تو ان کی آمدن چند لاکھ تھی اور پھر چند سالوں میں شریف خاندان 19 بڑی کمپنیوں کا مالک بن گیا جس کیلئے انہوں نے حکومت سے قرضے لئے اور پھر 21 بلین کے قرضے معاف کرائے۔میں پہلے سوچتا تھا کہ یہ یاجوج ماجوج کس طرح ایک پوری دیوار کھا جائیں گے ۔اب اس کی سمجھ آئی ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے۔قوم قرض اتارو ملک سنواروکے نام پر پیسہ دیتی رہی اور کچھ نے زیور بھی دیا۔مگر ملک تو نہ سنورا ہاں مگر اولاد سنور گئی۔
اب آپ ان شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا بھی اندازہ کریں ۔ دانیال عزیز ،پرویز رشید جس طرح اپنے لیڈر کی بے جا حمایت کررہے ہیں اور ہاتھ دھو کر عمران خان کے پیچھے پڑ گئے ہیں جیسے پانامہ لیکس عمران خان نے بنائے ہیں۔ صوبائی وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ یہ دستاویز جعلی ہے،یہ پانامانہیں پاجامہ لیکس ہیں۔پانامہ لیکس کو پاجامہ لیکس تو کہہ رہے ہو کہیں یہ نہ ہو کہ پیمپرز کی ضرورت پڑ جائے۔۔ دنیا کے کسی اور ملک نے اس طرح کے بہانے نہیں بنائے،آسٹریلیا میں تحقیقات شروع ہونے والی ہیں ۔آئس لینڈ میں عوام اپنے وزیر اعظم کے استعفے کیلئے احتجاج کررہے ہیں۔جبکہ ہمارے بھانڈ اور مسخرے اپنے کرپٹ لیڈر کے درباری بنے ہوئے ہیں۔عمران خان کی اسمبلی کی تقریر سے لوگوں کو یقین ہوٍکا ہے کہ عمران خان ایک ایماندار لیڈر ہے ورنہ کون ہے جو اپنی مخالف جماعت کی حکومت کے سامنے اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہے؟ جو کرپٹ ہوتے ہیں وہ اپنی حکومت ہوتے ہوئے بھی انکوائری سے ڈرتے ہیں ۔جیسے پورا شریف خاندان اس وقت گھبراہٹ کا شکار ہے۔جیو ٹی وی کے پروگرام میں حامد میر زبیر عمرسے پاناما لیکس کے بارے میں سوال کررہے تھے اور وہ عمران خان کا نام لے رہا تھا حامد میر نے کہا کہ آپ میرے سوال کا جواب دیں اس میں عمران خان کا نام کہاں سے آگیاہے۔ اب ان لوگوں نے شوکت خانم کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا ہے۔ لیکن شوکت خانم ہسپتال کے ایک ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ جس وقت یہ لوگ ہسپتال کے بارے میں بھونکتے ہیں تو اسی وقت ہمارے فنڈز میں زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے اور لوگ پہلے سے زیادہ ڈونیشن دینا شروع کردیتے ہیں۔بہرحال شوکت خانم ہسپتال ایک بہت ہی اچھا ادارہ ہے۔اس کے متعلق بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے۔حکمران جماعت پریس کانفرنس میں الزامات لگانے کی بجائے انکوائری کرتی تو اچھا تھا۔
ہمارے میانوالی کے لیگی بھی عمران خان پر اعتراض کررہے ہیں کہ آف شور کمپنیاں اس کی ایجاد ہیں ۔ بھئی اگر اس کی ایجاد ہیں تو اس نے تو اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کردیا ہے۔اب اس کا احتساب کرو۔کوئی ہے جو اتنی جرات کرے کہ اپنی مخالف حکومت کو اپنا احتساب کرنے کا کہے۔پانامہ لیکس نے (ن) لیگ کے پرخچے اڑا دیئے ہیں یہاں تک کہ دانیا ل عزیز یہ بھی بھول گیا کہ اس کے والد پہلے منسٹر تھے جو کرپشن ثابت ہونے پر فارغ ہوئے تھے۔کرپشن کی کوکھ سے جس آدمی کو جنا گیا ہو اس کی بات کی اہمیت ردی برابر بھی نہیں۔اور جو کل تک عمران خان پریہ اعتراض کرتے تھے کہ وہ کنٹینرپر چڑھ کر ہمیں اوے کہتا ہے آج ان کو بتا دو کہ امریکی اور یورپی میڈیاسمیت پوری دنیا کا میڈیا ان کو کرپٹ اور چور کہہ کر پکار رہا ہے۔
اللہ کا قانون ہے کہ وہ اپنے کام اہل لوگوں سے لیتا ہے۔عمران خان کے مخالفین اس پر ہر قسم کا جھوٹ اور بہتان باندھ سکتے ہیں مگر آج بیس سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتاکہ عمران خان ایک کرپٹ آدمی ہے۔۔۔عمران خان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک فائیٹر ہے۔۔۔وہ ایک لڑاکا ہے۔۔۔وہ خواب دیکھتا ہے اور پھر اپنے خوابوں کا پیچھا کرنے کیلئے وہ رکاوٹوں کی حقیقت سے لڑتاہے۔۔۔اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ ناکام ہوا ہو۔۔۔۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ سیاست میں ناکام ہوگیا تو ان سے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ۔۔۔یادرکھنا۔۔۔اللہ اپنے کام صرف اہل لوگوں سے لیتا ہے۔۔۔جس شخص نے بکھری ہوئی قوم کو سیاسی شعور دیا ہے انشاء اللہ اب وہی اس ملک کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاکھڑا کردے گا۔
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو