کالم

عالیہ جمشید خاکوانی کا کالم ” آزاد عورت کا المیہ "

آئینہ
عالیہ جمشید خاکوانی

آزاد عو رت کا ا لمیہ!
نام تو اس کا تب بھی نور جہا ں ہی تھا لیکن تب وہ نور جا نی کہلا تی تھی اب آ پا نور جہا ں،، کو ئی چارسال پہلے کی بات ہے ایک بہت ہی کمزور اور سو کھی سی عورت میرے گھر آ ئی جس طرح وہ گیٹ سے اندر آئی مجھے خطرہ ہوا ابھی گر کے بے ہوش نہ ہو جائے ہا نپتی کا نپتی وہ دھپ سے میرے آ گے آن گری خیر شربت وربت پلا نے کے بعد کچھ حواسوں میں آئی تو کہنے لگی با جی میں بھیک ما نگنا نہیں چا ھتی مگر کام بھی کہیں نہیں ملتا جسم میں کام کرنے کی سکت نہیں شکل دیکھ کر ہی لو گ کہہ دیتے ہیں تم تو ہما رے ذ مے لگ جا ؤ گی سو پچاس ہا تھ پہ رکھ کے معذ رت کر لیتے ہیں میں تھو ڑی شر مندہ ہو ئی کیو نکہ میں بھی یہی سو چ رہی تھی کہ کہیں یہا ں ہی لمبی نہ ہو جائے لیکن یہ سو چ کر کہ ایک بھکا رن کا ا ضا فہ نہ ہو میں اسے ر کھنے پر راضی ہو گئی س کے مطا بق لوگ اسکی حا لت پر تر س کھا کے جو رقم اسے دیتے تھے چار پا نچ سو دیہاڑی بن جا تی تھی جس کا اس کے نکھٹو شو ہر کو چسکا لگ چکا تھا گو وہ کام کیئے بغیر چند گھنٹو ں میں سینکڑوں کما لیتی تھی لیکن اس کی انا اسکی اجا زت نہیں د یتی تھی اسی بات نے مجھے متا ثر کیا چند دن میں نے اسکی صحت بحا ل کر نے میں لگائے پھر کا م پر لگا یا لیکن چند دن کام کے بعد وہ ا کتا نے لگی کبھی بیٹھی بیٹھی رو نے لگتی کبھی ہا تھ پیر مڑ نے لگتے بے ہو ش ہو نے لگتی میاں جی کو بھی غصہ آ نے لگا کہ کیا ڈرامہ تم نے گھر میں لگا لیا ہے ایک دن آ ئی تو ہا تھ پہ کٹ لگا ہوا تھا کہ شو ہر نے کلہا ڑ ی سے حملہ کیا رو کنے لگی تو ہا تھ کٹ گیا ظا ہر ہے کٹے ہا تھ سے کام کیا ہو نا تھا بتا تی رہی و ٹے سٹے کی شا دی ہے دو بچے ہیں بڑے کو مد رسے ڈا لا ہوا ہے چھو ٹے کو گھر میں بند کر آ تی ہوں کا م سے وا پس گئی تو بچہ بے ہو ش پڑا تھا شو ہر کو غصہ آ گیا۔۔ اب میں نے اجازت دے دی کہ بچہ سا تھ لے آ یا کرو دو دن خیر یت گذری تیسرے دن پھر نیلو نیل ،پو چھا تو کہنے لگی گھر اکیلا پا کر چور ا چکے گھر میں جھا ڑو پھیر گئے ہیں پا نی پینے کا گلاس تک نہیں چھو ڑا سو میرے بند ے نے پھر ما را کہ گھر سے جا تی کیو ں ہے روتے روتے سینے پر ہا تھ رکھا اور پٹ سے گری میں نے تو گھبرا کر 1122کو بلا لیا وہ آ ئے اور اسے ا ٹھا کر ہا سپٹل لے گئے کو ئی چا ر دن گذرے ایک آ دمی نے گیٹ بجا یا کہ میری بیوی یہا ں کام کرتی رہی ہے اسکی تنخواہ دے دو حالا نکہ میں اسے ادھار کے نام پر ہزار روپے اور مدد کے نام پر اچھی خا صی ر قم دے چکی تھی مگر وہ آ دمی واویلا کر نے لگا تو میں نے ہزار رو پے دیکر جا ن چھڑائی بعد میں پتہ چلا یہ وا ردا تئے ہیں پہلے بیوی لو گو ں کی ہمدردیا ں حا صل کر کے ہا سپٹل پہنچ جا تی ہے پھر یہ تنخواہ کے نام پر لو گو ں کو بلیک میل کر کے رقم بٹو ڑ لیتا ہے ابھی چند دن پہلے وہ نو ر جانی مجھے ا یک ڈاکٹر صا حب کے کلینک پر نظر آئی ا و نچی ہیل کا جو تا پہنے ہا تھ میں چمکدار سا پرس وہ بڑی مد بر بنی کچھ دیہاتی عورتوں کے سا تھ بیٹھی باتیں مٹھا ر رہی تھی جو خو شا مدانہ انداز میں اسے آ پا نور جہاں بلا رہی تھیں میر ے حا ل پو چھنے پر پہلے تو صاف مکر گئی لیکن جب میں نے اسے بتا یا اخبا ر میں تمھاری کہا نی چھپے گی تو راضی ہو گئی کہ سچ بو ل دے بحر حال اب اس کا مو جو دہ د ھندہ بے نظیر انکم سکیم کے تحت چل رہا ہے اس کے مطا بق میں مردوں کی طر ح کا م کرتی ہو ں جب سے یہ حکو مت آئی تو آٹے، چینی، راشن کی لا ئنیں لگنے لگیں کہتی با جی میں دیوانہ وار رش میں گھس کے راشن لیتی کچھ دو سری عو ر تو ں کو سستے دامو ں بیچ دیتی کچھ ذ خیرہ کر لیتی شو ہر کی مار نے ہڈ یا ں پختہ کر دی ہیں جہا ں اکثر عور تیں رش میں پھنس کر جان سے ہا تھ د ھو بیٹھتی ہیں وہا ں میں کام آ تی ہو ں عو رتو ں نے ہر کا م میں مجھے آ گے کرنا شر وع کر دیا ہے بے نظیر ا نکم سکیم بھی اسی طرح چل رہی ہے جو استا نیا ں چکو ں میں پڑھا تی تھیں اب اسی کا م پہ لگی ہیں پچاس فی سد ،، و چو لا،، لیتا ہے پھر ایک استا نی ہے جس کے پاس شنا ختی کا رڈ ا کھٹے ہو تے ہیں میں شنا ختی کا رڈ جمع کر کے دیتی ہو ں اس سے جو کچھ مجھے ملتا ہے اس کو اپنی مر ضی کے بند و ں میں بانٹنا میرا کا م ہے میں نے کہا تم سارے ملک میں توجا نے سے رہیں و یسے یہ بتا ؤ تمھاری غربت دور ہو ئی ؟ ہنس کر بو لی با جی اب عو رت آزاد ہو گئی ہے میری آ نڈ گوا نڈ کی کتنی ہی عو رتو ں نے اپنے بند وں سے طلا قیں لے لی ہیں ز بیدہ کا میا ں جو ہر وقت جوا کھیلتا تھا اب شنا ختی کا رڈ ا کھٹے کرنے کا کا م کرتا ہے خا ص طور پر بو ڑ ھی عو ر تیں جو زیا دہ چل پھر نہیں سکتیں ان کے شنا ختی کا رڈ لے لیتے ہیں کہ بے نظیر کا پیسہ ملے گا اس کے بعد لمبا عر صہ پیسہ نہیں ملتا تو جن کو زیادہ جلدی ہو تی ہے ان سے دو سو رو پے لیکر کارڈ وا پس کر دیتے ہیں یو ں ہما را کا رو با ر چل رہا ہے اچھا تو یہ عو رتیں؟ میں نے سا منے بیٹھی عو رتو ں پر نظر ڈالی گہرے سانو لے رنگ کی عو رتیں جن کے ہو نٹو ں پر سر خ لپ اسٹک عجیب بہا ر دے رہی تھی جبکہ پا ؤ ں میں پہنی سنہری پا ز یبیں حیرت میں مبتلا کر رہی تھیں کہ ڈا کٹر کے کلینک پہ پا ز یبو ں کا کیا کام؟او نچے اونچے قہقے لگا تی آپا نو ر جہا ں کئی دن میرے حواسو ں پر طا ری رہی کئی معمے اسکی با تو ں سے حل ہو ئے جن کو ضبط تحیر یر میں لا نا اپنے پیچھے بلا لگا لینا کی طر ح ہے ہا ں سو چتی رہی ان آ زاد عو رتو ں کے متعلق کہ کیا گھر اور بچو ں سے آزادی کیا حقیقی آزادی ہے یہ مہنگا ئی اور کر پشن ہمیں کہا ں لے جا کے ما رے گی ؟ جس معا شرے میں مرد عورت کو صرف اس لیئے آزادی دے رہا ہے کہ وہ کسی بھی طر ح اس کے جو ئے اور کھا نے کے لیئے پیسے کما کر آئے کیا اس عورت کی رو ح کبھی آزاد ہو سکتی ہے ؟ جس نسل کے اندر صرف حرام ما ل جائے گا اس نسل کا انجام کیا ہو گا ، ۔

Back to top button