رامش فاطمہ کی تحریر :. قصہ دامن یوسف اور باوضو فرشتوں کا۔۔۔
راحیل شریف صاحب کو کریڈٹ دینا تو بنتا ہی ہے کہ جو فضولیات لوگ ہمیشہ سے بول رہے تھے اور صلواتیں سن رہے تھے صاحب کے ایک قدم نے ان سب فضولیات کے سچ ہونے کا ثبوت دے دیا۔ اگر اب بھی کوئی نہ مانتا تو ہم کیا کر سکتے تھے۔ دوسرا یہ کہ کرپشن ثابت ہونے پہ گھر بھیج دیئے جانے سے متاثر ہو کر ہمارے پیارے وزیراعظم نے بھی خود کو قوم کے سامنے احتساب کے لئے پیش کر دیا کہ ثابت ہوا تو میں گھر چلا جاوں گا۔ دونوں صاحبان کی بات سے کچھ کم عقلوں کو اختلاف ہے لیکن مجھ سمیت بہت سے لوگ جنہوں نے ہاسٹل میں زندگی گزاری ان سب کو حوصلہ ہوا کہ دیکھو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے بعد کسی کو گھر جانے سے بڑی سزا کوئی کسی کو کیا دے سکتا ہے کیونکہ سات سال کی ہاسٹل کی زندگی کے بعد ہم نے بھی گھر جانا ہے تو اسی لیے بڑے لوگوں نے سزا دینے کا نیا طریقہ سوچا ہے کہ چلو شاباش بہت ہو گئی، اب گھر جاؤ۔
راحیل شریف صاحب کی مدح سرائی جس طور جاری ہے مجھے عزت مآب جناب جسٹس افتخار چوہدری اور قابل احترام کیانی صاحب کا وقت یاد آ گیا۔
ایک زمانے میں افتخار چوہدری صاحب کے قصے مشہور کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ قرون اولیٰ کا دور بس آیا ہی چاہتا ہے۔
کیانی صاحب کے آنے پہ ان کے حق میں قصیدے پڑھے گئے پھر دیکھتی آنکھوں نے چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے بعد ڈھلتی شام بھی دیکھی کہ برادرِان یوسف کی داستانیں کیانی صاحب کی رخصتی کے بعد دبی ہوئی سرگوشیوں سے کان پھاڑتی آوازوں میں تبدیل ہو گئیں۔
جب صاحب کی رخصتی کا وقت آیا اور نئے چیف صاحب آئے تو لوگ لکھنے لگے وہ انٹیلیجنس کے بندے تھے کچھ کام ان سے ہو ہی نہیں سکتے تھے یہ سب کام ایک پروفیشنل سولجر ہی کر سکتا ہے اس لیے مجھے راحیل شریف سے ہمدردی ہے کہ ابھی جو انہیں رہبر کہہ رہے ہیں کل یہی راہزنی کا گلہ کرتے دکھائی دیں گے اور کرپشن کی انہی ضرب عضب اور غیظ و غضب داستانوں سے عجب نکتے دریافت کریں گے۔
شاید ہمیں رہبر کی اس شدت سے تلاش ہے کہ جہاں کہیں امید کی ہلکی سی کرن بھی نظر آئے ہم اسے خالی نہیں جانے دیتے ایک موہوم سی امید کو گلی گلی لئے پھرتے ہیں کہ جناب دیکھیئے تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا اور پھر ہمارے ہی ڈالے شور کی گرد بیٹھتی ہے تو پھر گلی گلی میں شور ہے، یہ والا بھی چور ہے کا نعرہ لگاتے ہیں اور پھر سے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔
مثال خواجہ علقمہ کی بھی دی جا سکتی ہے کہ جب تک کرسی رہی تب تک شہ کے مصاحب بنے رہنے والے کرسی کے جاتے ہی انہیں ہتھکڑی لگنے پہ سب کچے چٹھے کھولنے لگے۔
تو عزیز ہم وطنو! یہی داستانیں جو آج تم سنا رہے ہو کل ماضی کا حصہ ہوں گی اور تم لوگ ہی قصیدہ گوئی کے بعد یاوہ گوئی۔۔۔ اوہ معاف کیجیئے، راست گوئی۔۔۔ یعنی میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ “پچھلے والا چور ہے” کا نعرہ بلند کرنے پہ اتر آو گے۔ ایک ہم ہیں تو ہم اپنی حالت بیان کرنے کے لئے فیض صاحب کا سہارا لیتے ہیں
ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے
راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے
لوٹ کر آ کے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سُرخ تھا زرد ہی زرد ہے
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے