کالم

ضیاء خاندان اور شریف فیملی …… انوار حسین حقی کا کالم "حدِ ادب”

حدِ ادب
انوار حسین حقی
ضیاء خاندان اور شریف فیملی
_______________
وزیراعظم میاں نواز شریف ان دنوں اپوزیشن کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ میاں صاحب کے ماضی اور حال کے دوستوں اور احباب میں بہت زیادہ فرق نہ صرف نظر آتا ہے بلکہ محسوس بھی ہوتا ہے ۔شریف فیملی کی ابتلاء کے اس موسم میں مجھے شریف فیملی کا دیرینہ رفیق اور محسن ’’ضیاء خاندان‘‘ شدت سے یاد آ رہا ہے۔
بیس اگست 1988 کو ملک بھر کے تمام راستے ، ولولے، اور جذبے فیصل مسجد کی طر ف رواں دواں تھے۔یہ پاکستان کی تاریخ میں جنازے کا ایک بڑا جُلوس تھا۔غیر ملکی مہمانوں کے جمِ غفیر اور لاکھوں پاکستانیوں میں جہاں بہت سی قد آور شخصیات موجود تھیں وہاں پنجاب کے اُس وقت کے نگران وزیر اعلی ٰمیاں نواز شریف بھی موجود تھے۔جنہوں نے 29 مئی1988 کو جونیجو حکومت کی برطرفی پر اپنے پارٹی قائد محمد خان جونیجو کے بجائے قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل اور حکومت برطرف کرنے والے ’’ آمر ‘‘ ضیاء الحق کا ساتھ دیا تھا۔
جنرل ضیاء الحق کے لئے میاں نواز شریف لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی کی دریافت تھے ۔ وہ جنرل ضیاء کے دیرینہ رفیق اور شریف فیملی کے کاروباری پارٹنر تھے۔ میاں نواز شریف ان دنوں ا ئیر مارشل صغر خان کی تحریک استقلال میں تھے ۔جواں سال میاں نواز شریف پنجاب کابینہ میں وزیر کھیل کی حیثیت سے شامل کئے گئے بعدمیں جنرل جیلانی نے انہیں وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپ دیا۔19 دسمبر1984 ء کے صدارتی ریفرنڈم میں پنجاب کے نوجوان وزیر خزانہ کی خدمات ضیاء الحق مرحوم کواس قدر پسند آئیں کہ انہوں نے میاں نواز شریف کو ’’ اپنا لیا ‘‘ ۔
سانحہ بہاولپور کے بعد جن لوگوں کی زبان پر ’’ مردِ مومن مردِ حق ۔۔ضیاء الحق ضیاء الحق ‘‘ کے نعرے مچلتے تھے، جو افغان جہاد اور عالمی سطح پر جنرل ضیاء الحق مرحوم کے کردار سے انسپائریشن حاصل کرتے تھے۔وہ نواز شریف کی جواں عزم قیادت کے ذریعے اپنے خوابوں کو تعبیر سے ہم کنار کرنا چاہتے تھے۔یہ وہ خواب تھے جو ضیاء الحق نے افغانستان میں مجاہدین کی اسلامی حکومت ، مسلم ریاستوں کی آزادی ، قبلہ اول کی بازیابی اور کشمیر جنت نظیر کی آزادی کے حوالے سے پاکستان کے بیدار صفت لوگوں کی سرمدی اور رسیلی آنکھوں میں بھر دےئے تھے۔
20 ۔اگست1988 ء کو ضیاء الحق مرحوم کے جنازے میں شریک جمِ غفیر کو دیکھتے ہوئے آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عبد القیوم خان مرحوم نے اعلان کر دیا کہ ’’آج بھٹو ازم کے مقابلے میں ضیاء ازم وجود میں آ گیا ہے‘‘۔ شہدائے بہاولپور کے حقیقی وارثوں کی موجود گی میں میاں نواز شریف کو جنرل ضیاء الحق کا جاں نشیں قرار دے دیا گیا۔ یہ اظہار اعتماد اتنا غیر ضروری بھی نہیں تھا کیونکہ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنی زندگی میں ہی اپنی عمر میاں نواز شریف کو لگ جانے کی دعا کی تھی۔
ضیاء خاندان اور شریف فیملی کے درمیان تعلقات کا عروج تھا۔ ان دنوں ضیاء کے خانوادے سے شریف فیملی کی نیاز مندی قابلِ رشک تھی۔اور پھر سب سے سَوا یہ کہ شفیقہ ضیاء الحق مرحوم نے بھی میاں نوازشریف کو اعجاز الحق اور انوارالحق کی طرح اپنا بیٹا سمجھا۔ 1990 ء کے عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کی کامیابی میں ’’ ضیاء الحق فیکٹر ‘‘ کا عمل دخل ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر سامنے آیا۔نواز شریف وزیر اعظم بنے ، اعجاز الحق وفاقی اور انوار الحق صوبائی کابینہ میں شامل ہوئے۔میاں نواز شریف بطور وزیر اعظم عوامی جلسوں اور تقریبات میں جہاں کہیں بھی جاتے،اعجاز الحق کی موجودگی میں ’’ مردِ مومن مردِ حق ‘‘ کے نعرے گونجنے لگتے تھے۔ ان نعروں کی گونج کے پس منظر میں عوام کا والہانہ پن چھُپاہوا ہوتا تھا۔ اعجاز الحق کی پذیرائی میاں صاحب اور ان کے قریبی ساتھیوں کو پسند نہیں آتی تھی۔انہیں مردِ مومن مرد حق کے نعرے کے پس منظر میں اپنی ہی جماعت میں متبادل قیادت کے طور پر اعجاز الحق کا ہیولا نظر آتا تھا۔نجی محفلوں اور بے تکلف دوستوں میں کئی مرتبہ اس کا ذکر بھی ہوا۔اعجاز الحق سے ضیاء الحق کی نسبت، ان کے سیاسی ورثے کی موجودگی کی باتیں ان کے خدشات کو مزید تقویت پہنچاتی تھیں۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے اعجاز الحق اور میاں نواز شریف کے درمیان فاصلے پیدا ہونے اور بڑھنے لگے ۔
محنت و افرادی قوت کی وزارت کا قلمدا ن اعجاز الحق کے لئے مشکلات کا پہاڑ بنانے کی خاطر میاں محمد زمان کو اسی وزارت میں وزیر مملکت کا قلمدان سونپ کر ان کی خوب حوصلہ افزائی کی گئی۔اس سلسلہ میں وزیر اعظم کے سیاسی مرشد کے بیٹے اور منہ بولے بھائی اعجاز الحق کی ساری شکایتیں اور شکوے بے معنی رہے،بیگم شفیقہ ضیاء الحق کی محبتیں اور شفقتیں بھی وزیر اعظم کو اس بات کے لئے قائل نہ کر سکیں کہ وہ اپنے منہ بولے بھائی کے ساتھ ستم ظریفی کا رویہ ترک کر دیں۔
1997 ء کے عام انتخابات کے نتائج نے ایک مرتبہ پھر مملکتِ پاکستان کی زمامَِ کار ضیاء الحق کے جانشین میاں نواز شریف کے ہاتھوں میں تھما دی۔وفاقی کابینہ کا اعلان ہوا تو وزراء کی فہرست سے اعجاز الحق کا نام غائب تھا۔یہ کچھ ایسا غیر متوقع بھی نہیں تھا۔1997 کے عام انتخابات سے پہلے پنجاب اسمبلی کے ٹکٹوں کی تقسیم پر الذولفقار سے تعلقات کی شہرت رکھنے والے ایک ’’ لیگی ‘‘ نے انوار الحق کو ٹکٹ دینے کے معاملے پر فساد کھڑاکر دیا تھا۔۔کابینہ میں عدم شمولیت پر اعجاز الحق کے اس شکوے نے ’’کالمانہ شہرت ‘‘ حاصل کی تھی کہ ’’ وہ میرے والد کی پہلی ترجیح تھے۔لیکن میں ان کی دوسری ترجیح بھی نہ بن سکا‘‘۔اس کے بعد اعجاز الحق نے پارٹی ممبر اور رکنِ قومی اسمبلی کی حیثیت سے نواز شریف کی پالیسیوں سے اختلاف کا اظہار کیا تو ’’ جمہوری قائد ‘‘اسے برداشت کرنے کا حوصلہ نہ کر سکا ۔ اعجاز الحق، خورشید محمود قصوری اور میاں محمد اظہر کی جانب سے حکومتی اقدامات پر تنقید نے ان تینوں کو وزیر اعظم کے ’’ دل ‘‘ سے نکال دیا۔یہ طرز عمل نیا نہیں تھا۔1991 ء میں ایک اجلاس میں عراق پر حملے کی مذمت کرنے اور اور پاکستانی پالیسی سے اختلاف کا اظہار کرنے پرمیاں صاحب نے تحریک پاکستان کے رہنماء اور ممتاز مذہبی سکالر مولانا عبد الستار خان نیازی کو بھی وزارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔میاں محمد نواز شریف کا دورِ ثانی جمہوری حکمرانی کی بجائے خاندانی حکمرانی مضبوط کرنے کے ابواب پر مشتمل کہانی ہے۔۔ضیاء الحق مرحوم کا یہ وصف انہیں دیگر پاکستانی حکمرانوں سے میں ممتاز کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے اقتدار و اختیار کے طویل دور میں اپنی اولاد کو اقتدار سے دور رکھا۔اکثر لوگوں کو تو ان کی اولاد کے نام بھی ان کی وفات کے بعد معلوم ہوئے۔میاں نواز شریف کے دورِ ثانی میں اعجاز الحق مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر ہونے کے باوجود مسلم لیگ میں ایک غیر متعلقہ اور غیر ضروری لیڈر قرار پائے۔
اکتوبر 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں بر طرفی کے بعد میاں نوازشریف جیل گئے جب کہ ان کے بھائی اٹک قلعہ میں بند کر دئے گئے۔ابتلاء و آزمائش کے اس دور میں مسلم لیگ ن نے اے آر ڈی میں شمولیت اختیار کر لی۔یہ پاکستانی سیاست کا نیا رُخ تھا مسلم لیگ پہلی مرتبہ فوج اور اسٹبلشمنٹ کے مدِ مقابل قوت ’’ اے آر ڈی ‘‘ کا حصہ بنی۔لگا۔شریف خاندان نے اچانک ایسا فیصلہ کیا کہ کارکن ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے جمہوریت کی خاطر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔دو دہائیوں کے اختلا فات ایک دوسرے کو غدار اور قصور وار قرار دینے کی باتیں قصہ پارینہ ’’بھٹو ازم ‘‘ اور ’’ ضیاء ازم ‘‘ کے فلسفے باطل ہو گئے۔چوہدری اعتزاز احسن جن پر مسلم لیگی قیادت اور متوالے عسکریت پسند سکھوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کرنے کا الزام عائد کیا کرتے تھے، نواز شریف کا وکیل بن گئے۔ اچانک ایک رات فوجی حکمرانوں سے ایک ڈیل کے نتیجے میں شریف خاندا ن میں جدہ روانہ ہو گیا۔اس اقدام پر نوابزادہ نصر اللہ خان کو کہنا پڑا کہ ’’ زندگی میں پہلی بار ایک کاروباری سے ڈیل کی تھی اور اس ڈیل میں مات کھا گیا ‘‘
جدہ روانگی کے وقت میاں نواز شریف نے مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر محمد اعجاز الحق کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ۔جاوید ہاشمی کو اپنے مسلم لیگی دھڑے کا قائم مقام سربراہ بنا دیا۔یوں ضیاء فیملی اور شریف خاندان کے راستے ہمیشہ کے لئے جُدا ہو گئے۔اس موقع پر بھی شریف فیملی ضیاء الحق کے خاندان سے اُس طرح کی یکطرفہ محبت کی اُمید کرتی تھی۔جس کا سلسلہ1988 ء سے جارہی تھا۔اعجاز الحق داغِ دل لئے مسلم لیگ ق میں چلے گئے لیکن وہاں بھی ’’صدارت ‘‘ کا منصب حاصل کرنے کی ان کی خواہش پوری نہیں ہو سکی۔تو انہوں نے مسلم لیگ کا ایک علیحدہ دھڑا ’’ پاکستان مسلم لیگ ضیاء شہید قائم کر لیا۔اکتوبر 2002 ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے راولپنڈی میں اعجازالحق کے حلقہ انتخاب میں راجہ ظفر الحق کو ٹکٹ جاری کردیا۔جنرل ضیاء الحق کی ٹیم کے اوپننگ بیسٹمین کہلانے والے شریف النفس راجہ ظفر الحق اور اُن کے کپتان کے بیٹے ایک دوسرے کے مقابلے میں شکست کھا گئے۔
شکست کھا کے بھی میں فتح کے جُلوس میں ہوں
کہ دے گئے جو مجھے مات میرے اپنے ہیں
آج کل میاں صاحب کو عمران خان چین سے نہیں بیٹھنے دیتے ۔ ماضی کے میاں صاحب کے بہت سے دوست اب ان سے دور ہیں ایسے ماحول میں اعجاز الحق کی خاموشی پر نظر پڑتی ہے تو ضیاء خاندان اور شریف فیملی کی کہانی یاد آ جاتی ہے ۔ اس کہانی کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔یہ ایک ایسی بستی ہے جہاں حرص و ہوس کا راج ہے۔اس وادی میں مہر وفا کا نام لینا ممنوع ہے۔ یہاں ’’یار ‘‘ اور’’ اغیار‘‘ روزانہ بدلتے رہتے ہیں۔

Back to top button