میانوالی کا نسائی ادب …… ارم ہاشمی اور بلقیس خان تک (انوار حسین حقی کا کالم )
حدِ ادب
انوار حسین حقی
میانوالی کا نسائی ادب ۔ ارم ہاشمی اور بلقیس خان تک
___________
مجھے برادرم عنایت عادل نے لطیفہ ارسال کیا ہے کہ ’’ پٹھان غلطی سے ایک نیوز پیپر کا سب ایڈیٹر بن گیا ۔ اُس نے ایک خبر کی ہیڈ لائن دی ۔۔’’ بیوی میں دھماکہ ‘‘
چیف ایڈیٹر نے پٹھان سب ایڈیٹر کو بُلایا اور پوچھا ’’تُم نے یہ کیا ہیڈ لائن دی ہے ‘‘ ۔۔۔؟
سب ایڈیٹر نے جواب دیا کہ جناب میں نے تو خبر کی آسان الفاظ میں سُرخی جمائی ہے ۔
چیف ایڈیٹر نے استفسار کیا ہے ۔ اصل خبر کیا تھی ۔۔۔
پٹھان سب ایڈیٹر بولا ۔۔ ’’ میانوالی میں دھماکہ ‘‘
میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ لطیفہ میانوالی کے حوالے سے ہے یا پٹھانوں کے حوالے سے ۔۔ ہمارے پٹھان بھائی ایسے لطیفوں کے عادی ہیں لیکن میانوالی کے نام کے بارے میں ایسا کچھ میری نظر سے کم ہی گذرا ہے ۔ میانوالی ایک تاریخی علاقہ ہے ایک قدیم اور شاندار تاریخ کا حامل ہے ۔ مورخین میانوالی سے پہلے کے اس کے جو نام لکھتے ہیں ان میں سب سے پُرانا نام ’’دھنوان ‘‘ بتایا جا تاہے ۔ بعد میں ’’شنوران ‘‘ ’’ رام نگر ‘‘ اور ’’ستنام ‘‘ کے نام بھی اس کی پہچان بنے ۔دریائے سندھ کے پہلو میں آباد ہونے کی وجہ سے یہ ’’ کچھی ‘‘ بھی کہلایا ۔
مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے زمانے میں بغداد سے تبلیغِ دین کے لیئے آنے والے شیخ جلال الدین کے بیٹے حضرت میاں علی ؒ کی نسبت سے اس علاقے ’’ کچھی ‘‘ کو ’’ میاں دی میل ‘‘ اور بعد میں ’’ میاں آلی ‘‘ ( میاں کی بستی یا میل ) کہا جانے لگا جو بعد میں اردو میں ’’ میاں والی ‘‘ کہلانے لگی ۔
’’ حیاتِ افغانی کا مصنف لکھتا ہے کہ ’’ میاں علی فقیر بن شیخ جلال ‘‘ نے یہاں اپنا خانگی مکان بنوایا جس کی وجہ سے یہ علاقہ میانوالی کے نام سے مشہور ہوا ۔۔ایک بزرگ کامل کی نسبت سے اس علاقے کو جو نام ملا اُس نے اس دھرتی کو معروفیت کی ایسی سند عطاء کی کہ دنیا بھر میں اس علاقے کی بھر پور شہرت اپنے جواز کے ساتھ موجود ہے ۔ سیاست سے لے کر کھیل ، اور ادب سے لیکر ثقافت تک تمام شعبوں میں میانوالی کے لوگوں کو کما ل حاصل ہوا ۔ گلزار بخاری کا کہنا بے جا نہیں ہے کہ
گُمنام نہیں نام و نشاں والی ہے
خاموش نہیں نطق و زباں والی ہے
گلزار اسے سمجھے نہ کوئی لاوارث
دھرتی یہ سُہاگن ہے میانوالی ہے ۔۔۔
اسی باکمال سر زمین کے فرزندوں نے اد ب کو تلوک چند محروم ۔ ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد ،ہرچرن چاولہ ، پورنیما چولہ ، رام لعل ، سید نصیر شاہ جیسے درجنوں نام دیئے ۔ آج میانوالی کے سماج میں خواتین ایک بہت بڑی تعداد علم وادب سے وابستہ ہے ۔خواتین ادیبوں اور قلمکاروں نے یہاں کے سماج کو ایک نئی روشنی عطاء کی ہے ۔ مرد شاعر ادیب آج بھی ماضی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں ۔ بڑے بڑے ناموں والے چھوٹی چھوٹی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔ جیسے عرب معاشرے میں گھوڑا آگے بڑھانے پر شروع ہونے والا جھگڑا صدیوں جاری رہتا تھا اسی طرح میانوالی کے مرد شاعروں اور ادیبوں کے درمیان محاذ آرائی کی کوئی حد نظر نہیں آتی ۔
بڑی تعداد میں خواتین کا علم و ادب سے وابستہ ہونا ۔ میانوالی کی معاشرت کے لیئے اُسی طرح کا نیک شگون ہے جس طرح علی گڑھ سے فارغ التحصیل پروفیسر سید محمد عالم مرحوم کا میانوالی کالج میں تعینات ہونا یہاں کے فرسودہ معاشرے میں تبدیلی کی بنیاد ثابت ہوا تھا ۔
محترمہ ارم ہاشمی اور بلقیس خان کی سرکردگی میں نسائی ادب کے فروغ کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اُس کے مثبت سماجی اثرات نے ثابت کیا ہے کہ یہ زمین خود دار اور پاک دامن بہنوں ، بیٹیوں اور ماؤں کی دھرتی ہے جس میں جمال بھی ہے اور جلال بھی ۔
مورخین کے مطابق ’’ ضلع میانوالی میں بدھ مت کے آثار ملے ہیں ۔ بدھ مت میں عورت کو گناہوں کی پوٹ سمجھا جاتا تھا ۔ اس لیئے لازماً اس کے ساتھ یہاں بھی ہی سلوک کیا جاتا ہوگا ۔ اور اسے معاشرہ میں ذلت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا‘‘ ۔ سید نصیر شاہ مرحوم نے اس حوالے سے انسائیکلو پیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس ( جسے جیمز ہسٹیکنز نے ایڈٹ کیا تھا ) کے حوالے سے اس علاقے میں رائج ’’ونی‘‘ کی مکروہ رسم کو بابلی تہذیب سے جوڑا تھا ۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’’بابلی تہذیب میں سب سے پہلے عورت کو مرد کی جائیداد سمجھا گیا ۔ اس کی حیثت مال اور ذرائع پیداوار کی سی تھی ۔ پہلے پہل قتل کی دیت میں 40 سے لے کر 100 اونٹ اور ایک دوشیزہ دی جانے لگی ۔ یہ جُرم آج بھی قتل خطاء کی صورت میں مصر ، اردن اور شام میں عام ہے ۔ بعد اونٹوں کی بجائے نقد رقم یا دوشیزائیں دی جانے لگیں ۔ بابلی تہذیب میں تقریباً 1800 قبل مسیح میں قتل کی دیت میں قاتل اپنی بیٹیاں یا قریبی رشتہ دار دوشیزائیں دینے لگے ۔ اور یہ سمجھا جانے لگا اس طرح پشتوں سے چلی آنے والی عداوتیں ختم ہو جائیں گی ‘‘۔ میانوالی میں بھی یہ سلسلہ 2001 ء تک اعلانیہ صورت میں جاری رہا ۔ میڈیا کی جدو جہد کے نتیجے میں اس سلسلہ میں باقاعدہ قانون سازی ہوئی اور اب میانوالی کی قبائلی معاشرت میں کسی کو کھلے عام ’’ ونی ‘‘ کی رسم کو زندہ کرنے کی جرات نہیں ۔
میانوالی کی خواتین ادیبوں اور شاعرات نے بڑی استقامت کے ساتھ یہاں ادبی جرائد کے اجراء اور ادبی تقریبات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ان تقریبات میں مقامی ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں سے بھی اہل قلم حضرات کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلہ میں محترمہ ارم ہاشمی کے استقامت سے بھر پور کردار کو کبھی نہیں بھُلایا جائے گا ۔ ۔ پروردگارِ لوح و قلم نے اُن کی تحریر کو ایک منفرد اُسلوب سے سرفراز کیا ہے موضوعات ہمیشہ اُن کی گرفت میں رہتے ہیں ۔ ادبی سرگر میوں میں ان کی رفیقہ اور معاون بلقیس خان کو شاعری میں خوبصورت اور دلبرانہ لہجہ عطاء ہوا ہے ان کی شاعری میں غنایت اور موسیقیت پائی جاتی ہے ان کی کتاب چند ہفتوں میں منظر عام پر آنے والی ہے ان کی غزلیں مختلف گلوکار وں نے گائی ہیں ۔پروفیسر آر کے نیازی اور عنبرین گل کو میانوالی کی ناول نگارہ اور محترمہ پورنیما چاولہ کو افسانہ نگار ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ پروفیسر رابعہ بتول ، ڈاکٹر لبنیٰ آصف ، ڈاکٹر عالیہ قیصر خان ، فرزانہ زین ، بلقیس خان شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کر رہی ہیں ۔ شمع خان شام اور عروہ نیازہ کالم نگاری میں اپنے جوہر دکھاری ہیں ۔میانوالی کا سماج اب بدل رہا ہے ۔ اس کے بیٹوں او ر بیٹیوں کے نام باکمالوں کی کہشکشاں کے ستارے بن چُکے ہیں ۔