کالم

ممتاز کالم نگارہ عالیہ جمشید خاکوانی کا آئینہ ” نوراں سے نور مسجد تک "

آئینہ
عالیہ جمشید خاکوانی
نوراں سے نور مسجدتک
بعض کہانیاں دلوں کو چھو لیتی ہیں اور انہیں بار بار سننے اور سنانے میں کوئی حرج بھی نہیں ہوتایہ کہانی نجانے میں نے کب پڑھی کہاں پڑھی لیکن یہ میرے دل میں ایک تمنا بن کر پلتی رہی کہ میں اسے لکھوں اور عام کر دوں کہ دیکھو لوگو خدا اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے نہ وہ عورت دیکھتا ہے نہ مرد ،نہ امیر نہ غریب،نہ چھوٹا نہ بڑا،نہ نیک دیکھتا ہے نہ بد وہ تو بس مہربان خدا ہے جو اپنے کسی بھی بندے کی کوئی بھی ادا پسند کر لیتا ہے بس دلوں کو پاک صاف ہونا چاہیے کہ سوہنا رب دلوں میں رہتا ہے ۔کہانی کو من و عن لکھونگی امید ہے پڑھنے والوں کو ضرور پسند آئے گی۔دسمبر کے اوائل کی بات ہے جب محکمہ اوقاف نے زبردستی میری تعیناتی شیخو پورے کی امیر محلے کی جامع مسجد سے ہیرامنڈی لاہور کی ایک پرانی مسجد میں کر دی وجہ یہ تھی کہ میں نے قریبی علاقے کے ایک کونسلر کی مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر تعریف کرنے سے انکار کر دیا تھا شومئی قسمت کہ وہ کونسلر محکمہ اوقاف کے ایک بڑے افسر کا بھتیجا تھا نتیجتاًمیں لاہور شہر کے بدنام ترین علاقے میں تعینات ہو چکا تھا بے شک کہنے کو میں مسجد کا امام بننے جا رہا تھا مگر علاقے کا بدنام ہونا اپنی جگہ جو بھی سنتا ہنس دیتا یا پھر اظہار افسوس کرتا محکمے کے ایک کلرک نے تو حد ہی کر دی تنخواہ کا معاملہ حل کرانے اس کے پاس گیا تو ایک آنکھ دبا کر کہنے لگا قبلہ مولوی صاحب وآپکی تو گویا پانچوں انگلیاں گھی میں اورسر کڑاہی میں
میں تو گویا زمیں میں چھ فٹ نیچے گڑ گیا پھر اللہ بھلا کرے میری بیوی کا اس نے مجھے تسلی دی کہ پریشان کیوں ہوتے ہیں امامت ہی تو ہے کسی بھی مسجد میں سہی اور میرا کیا ہے میں تو ویسے بھی گھر سے نکلنا پسند نہیں کرتی پردے کا کوئی مسلہ نہیں ہوگا پھر ہمارے کون سے بچے ہیں جن کے بگڑنے کا خدشہ ہو یہاں یہ بتاتا چلوں کہ شادی کے بائیس سال بعد بھی اللہ نے مجھے اولاد جیسی نعمت سے محروم ہی رکھا تھا جس پر اب ہم صبر ہی کر چکے تھے یہ سن کر میرے دل کو تھوڑا اطمنان ہوا اور ہم نے سامان باندھنا شروع کیا پھر ہم دونوں میاں بیوی اللہ کا نام لے کر لاہور جانے والی ایک پرائیویٹ بس میں سوار ہو گئے بادامی باغ اڈے پہ اترے اور ایک تانگے والے سے جگہ کا نام لے کر چلنے کو کہا تانگے والا جگہ کا نام سن کر بولا میاں جی اسے’’ ہیرا منڈی نہیں ٹبی گلی کہتے ہیں‘‘ پندرا بیس منٹ میں ہی ہم پنچ گئے دوپہر کا وقت تھا ابھی بازار کھلنے کا وقت نہیں ہوا تھا دیکھنے میں تو عام سا محلہ تھا وہی ٹوٹی پھوٹی گلیاں اور ان میں کھیلتے ننگ دھڑنگ بچے نالیوں میں کالا پانی اور غلاظت کے ڈھیر
ان پر منڈلاتی بے حساب مکھیاں ،سبزیوں پھلوں کے ٹھیلے والے ،اور ان سے بحث کرتی آدھے دھڑ تک کھڑکیوں سے لٹکتی عورتیں فرق تھا تو بس اتنا کہ یہاں پان سگریٹ پھولوں کی دکانیں کچھ زیادہ تھیں دکانیں بند تھیں مگر ان پر لگے بورڈ اصل کاروبار کا پتہ دے رہے تھے مسجد کے سامنے تانگہ کیا رکا مانو محلے والوں کی عید ہو گئی پتہ نہیں کن کن کونوں کھدروں سے بچے اور عورتیں نکل نکل کر جمع ہونے لگے ملی جلی آوازوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ارے نیا مولوی ہے ،بیوی بھی ساتھ ہے،پہلے والے سے تو بہتر ہی ہو گا ۔کیا پتہ لگتا ہے بہن مرد کا کیا اعتبار ،ہاں ہاں بہن تو صحیح کہتی ہے داڑھی والا مرد تو اور بھی خطرناک ۔۔۔ عجیب طوفان بد تمیزی تھا مکالموں اور فقروں سے جان پڑتا تھا کہ جیسے طوائفوں کے محلے میں مولوی نہیں شریفوں کے محلے میں طوائف وارد ہو گئی ہو اس سے پہلے کہ میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوتا خدا خوش رکھے غلام شبیر کو جو مولوی صاحب ،مولوی صاحب کہتا دوڑتا ہوا آیا اور ہجوم کو وہاں سے بھگا دیا پتہ چلا کہ مسجد کا خادم ہے عرصہ پچیس سال سے اپنے فرائض منصبی دیانت داری سے ادا کر رہا ہے طبیعت خوش ہو گئی اس سے مل کر صاف ستھرا سفید پاجامہ کرتا ،سر پہ سفید ٹوپی کندھے پہ چار خانے والا رومال پیشانی پہ محراب کا نشان دبلا پتلا پکی عمر کا مرد سفید داڑھی مگر جواں ہمت مستعدآدمی دکھتا تھا سامان سنبھالنے اور گھر کو ٹھیک کرنے میں دس دن لگ گئے اور غلام شبیر دیواروں کے چونے سے لے کر گھر کی صفائی ستھرائی تک تمام کام سنبھالتا رہا گھر کیا تھا مسجد سے متصل دو کمروں کا کوارٹر تھا جس میں ایک چھوٹا سا باورچی خانہ،ایک غسل خانہ اور بیت الخلا بھی تھے ایک ننھا منا سا صحن بھی تھا جس میں ارد گرد اونچی عمارتیں ہونے کی وجہ سے دن بارہ بجے ہی تاریکی اتر آتی تھی خیر ہم میاں بیوی کون سے بڑے گھر سے آئے تھے غلام شبیر نے ہمارا بڑا ہاتھ بٹایا تنخواہ کے نام پر غریب دو وقت کا کھانا مانگتا تھا اور رات کو مسجد میں ہی سوتا تھا اس کو رہنے کی جگہ مل جاتی تھی اور مسجد کی حفاظت بھی ہو جاتی تھی ایک بات میں جب سے آیا کھٹک رہی تھی سو ایک دن غلام شبیر سے پوچھ لیا میاں یہ بتاؤ پہلے والے امام مسجد کے ساتھ کیا ماجرہ ہوا تھا؟ تھوڑا ہچکچایا اور پھر مجھے ایک طرف لے گیا تاکہ میری بیوی کے کانوں میں آواز نہ پڑے میاں جی کیا بتاؤں جوان آدمی تھے اور غیر شادی شدہ بھی محلے میں بھلا حسن کی کیا کمی ہے بس دل آگیا ایک لڑکی پہ ،لڑکی کے دلال بھلا سونے کی چڑیا کو کہاں ہاتھ سے جانے دیتے مولوی صاحب کو ڈرایا دھمکایا لیکن مولانا نہ مانے ایک رات لڑکی کو بھگا لے گئے لیکن بادامی باغ اڈے سے ہی دھر لیے گئے ظالموں نے اتنا مارا کہ بیچارے جان سے گئے غلام شبیر نے نہایت افسوس کے ساتھ ساری کہانی سنائی پولیس وغیرہ قاتل پکڑے نہیں گئے ؟میں نے گھبرا کر کہا بولا آپ بھی کمال کرتے ہیں میاں جی پولیس بھلا ان لوگوں کے چکروں میں کہاں پڑتی ہے بس اپنا بھتہ وصول کیا اور غائب،ویسے بھی کوتوال صاحب خود اس لڑکی کے عاشقوں میں سے تھے ۔لاحول ولا قوۃ کہاں اس جہنم میں پھنس گئے میرے منہ سے بے ساختہ نکلاآپ کیوں فکر کرتے ہیں میاں جی بس چپ کر کے نماز پڑھیں اور پڑھائیں دن کے وقت کچھ بچے آ جایا کریں گے قران پڑھنے بس اپنے کام سے کام رکھیں تو کوئی تنگ نہیں کرتا بلکہ مسجد کا امام اچھا ہو تو گناہوں کی اس بستی میں سب عزت ہی کرتے ہیں غلام شبیر نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا تو میری جان میں جان آئی انہی شروع کے ایام میں ایک واقعہ ہوا پہلے دن ہی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو دروازے پر کسی نے دستک دی غلام شبیر نے جا کے دروازہ کھولا اور ایک کھانے کی ڈھکی ہوئی طشتری لے کر اندر آ گیا میری سوالیہ نگاہوں کے جواب میں کہنے لگا نوراں نے کھانا بھجوایا ہے پڑوس میں رہتی ہے میں کچھ نہ بولا نہ ہی مجھے کوئی شک گذرا سوچا ہو گی کوئی اللہ کی بندی امام مسجد کے گھر کا چولہا تو ویسے بھی کبھی کبھی جلتا ہے بحرحال جب اگلے دو دن بھی یہی معمول رہا تو تو میں نے سوچا کہ یہ کوں ہے جو بغیر احسان جتائے احسان کیے جا رہی ہے عشا کی نماز کے بعد میں مسجد میں ہی تھا غلام شبیر کو آواز دے کر بلایا اور کہا میاں غلام شبیر یہ نوراں کہا رہتی ہے ؟میں چاہتا ہوں میری گھر والی جا کے اس کا شکریہ ادا کرے یہ سنتے ہی غلام شبیر کے تو اوسان ہی خطا ہو گئے بولا میاں جی بی بی نہیں جا سکتیں جی وہاں میں نے حیرانی سے پوچھا کیوں؟تو غلام شبیر نے گویا پہاڑ ہی توڑ دیا میرے سر پہ میاں جی آپ نے اس کا پورا نام تو سنا نہیں جی اس کا پورا نام نوراں کنجری ہے پیشہ کرتی ہے جی ،پیشہ کرتی ہے یعنی طوائف ہے اور تم اس کے ہاتھ کا پکا کھانا ہمیں کھلا رہے ہو استغفراللہ،غلام شبیر کچھ شرمندہ ہوا میرا غصہ دیکھ کر تھوڑی دیر بعد کچھ ہمت کر کے بولا میاں جی یہاں تو سب ایسے ہی رہتے ہیں اس کے ہاتھ کا نہیں کھائیں گے تو گھر کا چولہا جلانا پڑے گا جو آپکی اس تنخواہ میں ممکن نہیں یہ سن کر میرا غصہ اور تیز ہو گیا ہم شریف لوگ ہیں غلام شبیر بھوکے مر جائیں گے مگر طوائف کے گھر کا نہیں کھائیں گیمیرے تیور دیکھ کر غلام شبیر کچھ نہ بولا مگر اس کے بعد سے نوراں کے گھر سے کھانا آنا بند ہو گیا جس مسجد کا میں امام تھا عجیب بات یہ تھی کہ اس کا کوئی نام نہ تھا بس ٹبی مسجد کے نام سے جانی جاتی تھی میں نے غلام شبیر سے پوچھا تو کہنے لگا میاں جی اللہ کے گھر کا کوئی نام نہیں ہوتا پھر بھی مسجدوں کا نام ہوتا ہے میں کھسیا کر بولابس میاں جی جس فرقے کا مولوی آتا ہے اپنی مرضی کا نام رکھ لیتا ہے آپ بھی رکھ لیجئے گا کوئی اچھا سا ناموہ سر کھجاتا ہوا بولا میں سوچ میں پڑ گیا کہ گناہوں کی اس بستی میں اس واحد مسجد کا کیا نام رکھا جائے ؟ہاں موتی مسجد ٹھیک رہے گا میں نے دل ہی دل میں خود کو داد دی گناہوں کی کیچڑ میں چمکتا دمکتا صاف و شفاف موتی ،دل میں میں نے مسجد کا نام رکھنے کا فیصلہ کیا اور اندر کی طرف بڑھ گیا اب بات ہو جائے قران پڑھنے والے بچوں کی جو کہ تعداد میں گیارہ تھے اور سب کے سب لڑکے ،عمریں پانچ سے گیارہ بارہ سال تک تھیں تھوڑے شرارتی ضرور تھے مگر اچھے بچے تھے نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے دو گھنٹے سپارہ پڑتے اور پھر باہر گلی میں کھیلنے نکل جاتے کون تھے؟ کس کی اولاد تھے نہ میں نے کبھی پوچھا نہ کسی نے بتایا لیکن پھر ایک دن غضب ہو گیا ان بچوں میں نبیل نام کا ایک بچہ تھا یوں تو اس میں کوئی خاص بات نہ تھی لیکن دوسرے بچوں سے زیادہ شرارتی تھا تلاوت میں اس کا دل نہیں لگتا تھا بس آگے پیچھے ہلتا رہتا اور کھیلنے کے انتظار میں رہتا میں درگذر سے کام لیتا چلو بچہ ہے لیکن ایک دن ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا صبح ہی سے سر میں بہت درد تھا دو گولیاں کھا لیں کم نہ ہوا غلام شبیر نے کہا میاں جی آج نہ جائیں مگر میرا ناغہ کرنے کو دل نہ مانا بچوں کو پڑھانے چلا گیا آج نبیل بھی معمول سے زیادہ شرارتیں کر رہا تھا کبھی اس کو چھیڑ کبھی اس کو ،جب اس کی حرکتیں حد سے بڑھ گئیں تو میرے ذہن پہ غصے کا بھوت سوار ہو گیا سامنے پڑی لکڑی کی رحل اٹھائی اور کھنچ کے اس کی کمر پے ماری لیکن بد قسمتی سے رحل سیدھی اس کی پیشانی پر جا لگی خون بہتا دیکھ کر مجھے اپنا سر درد بھول گیا گھبرا کے غلام شبیر کو آواز دی وہ بھاگا ہوا آیا اور بچے کو قریبی ڈاکٹر کے پاس لے گیا خدا کا شکر کہ مرہم پٹی سے ہی کام چل گیا ٹانکے لگنے کی نوبت نہ آئی باقی بچوں کو فارغ کر کے میں مسجد کے دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ چادر میں لپٹی ایک عورت نے آواز دے کر مجھے روک لیا میں نے دیکھا وہ عورت مسجد کے دروازے سے لپٹی رو رہی تھی ،سانولے رنگ کی معمولی شکل و صورت کی عورت چہرے پر پرانی چیچک کے نشان آنسووں میں ڈوبی آنکھیں اور گالوں پہ بہتا سرمہ ،کانوں میں لٹکتی سونے کی ہلکی بالیاں ،ناک میں سرخ رنگ کا چمکتا لونگ چادر بھی سستی مگر صاف ستھری پاؤں میں ہوائی چپل کیا بات ہے بی بی کون ہو تم ؟چادر کے پلو سے ناک پونچھتی ہوئی بولی میں نوراں ہوں مولوی صاحب نوراں کنجری ،میرے تو پاؤں تلے سے گویا زمین نکل گئی میں نے ادھر ادھر غلام شبیر کی تلاش میں نظریں دوڑائیں مگر وہ نجانے کہاں غائب تھا اچانک مجھے احساس ہوا میری موتی جیسی پاک مسجد میں اس کا وجود کسی غلاظت سے کم نہ تھا باہر نکل کے کھڑی ہو بی بی مسجد کو گندہ نہ کر میں نے نفرت سے باہر گلی کی طرف اشارہ کیا اس نے کچھ حیرانی سے میری طرف دیکھا جیسے اسے مجھ سے اس روے کی امید نہ ہو اس کی آنکھوں میں ایک ان کہی فریاد لپکی لیکن پھر وہ بغیر کچھ کہے چلی گئی جانے کس ارادے سے آئی تھی اتنی دیر میں غلام شبیر بھی پہنچ گیا کون تھی میاں جی؟ شائد دور ہونے کی وجہ سے وہ اسے پہچانا نہیں تھا میں نے اسے بتایا نوراں کنجری تھی جانے کس ارادے سے آئی تھی مگر میں نے اسے ڈانٹ کر بھگا دیا میں نے داد طلب نظروں سے غلام شبیر کی طرف دیکھا مگر اس کے چہرے پر ستائش کی جگہ تاسف تھا وہ غریب دکھوں کی ماری اپنے بچے کا گلہ کرنے آئی ہوگی اس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا آپ نے اس غریب کو ڈانٹ دیا تو نبیل نوراں کا بیٹا ہے؟ ایسی حرکتیں کرے گا تو مار تو کھائے گا جیسی ماں ویسا بیٹا کتنے بچے ہیں نوراں کے ؟میں نے بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا مسجد میں پڑھنے والے سب بچے نوراں کے ہیں جی ان کے علاوہ ایک گود کا بچہ بھی ہے محلے میں صرف نوراں ہی اپنے بچے مسجد بھیجتی ہے باقی تو سب بچے گلیوں میں آوارہ پھرتے ہیں غلام شبیر کے لہجے میں پھر نوراں کی وکالت گونج رہی تھی میں نے بھنا کر کوئی جواب دینے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ مسجد کے دروازے پر کوتوال صاحب کی گاڑی آ کر رکی خود تو پتہ نہیں کیسا آدمی تھا مگر بیوی بہت نیک تھی ہر دوسرے تیسرے میٹھے کے نام پر کچھ نہ کچھ بھیجتی رہتی تھی آج بھی گرما گرم جلیبیاں دیکھ کر میرا سارا غصہ کافور ہو گیا اور نوراں کی بات آئی گئی ہو گئی نبیل کو مار پڑنے کے کچھ دنوں بعد کا ذکر ہے جماعت پڑھانے کے بعد میں غلام شبیر سے ایک شرعی مسلے میں الجھ گیا باتوں میں پتہ ہی نہ چلا کافی رات ہو گئی باہر نکلے تو بازار کی رونق شروع تھی بالکونیوں میں جھلملاتے پردے لہرا رہے تھے اور کوٹھوں سے ہارمونیم کے سر اور طبلے کی تھاپ کی آواز آ رہی تھی پان ، سگریٹ ،ہار پھولوں کی دکانوں پر رش بڑھ رہا تھا اچانک میری نظر نوراں کے گھر کے دروازے پر جا پڑی وہ باہر ہی کھڑی تھی اور ہر آتے جاتے فرد سے ٹھٹھے اڑاتی گپیں لگا رہی تھی آج اس کا روپ ہی دوسرا تھا گلابی رنگ کا چست سوٹ، پاؤں میں سرخ گرگابی ننگے سر پہ اونچا جوڑا اور جوڑے میں لگے پھول میک سے لدا چہرہ شوخ لپ اسٹکآنکھوں میں مسکارا اور مسکارے کی اوٹ سے جھانکتی ننگی دعوت ،لا حول ولا قوۃالا بالا میں نے طنزیہ نگاہوں سے غلام شبیر کی طرف دیکھا وہ نوراں کا وکیل جو تھا چھوڑیے میاں جی عورت غریب ہے اور دنیا بڑی ظالم اس نے بات گویا ٹالنے کی کوشش کی لیکن میں آسانی سے جان چھوڑنے والا نہ تھا یہ بتاؤ میاں غلام شبیر !کہ جب اس عورت کے گاہک آتے ہیں تو کیا بچوں کے سامنے ہی؟ میں نے معنی خیز انداز میں اپنا سوال ادھورا چھوڑ دیا میاں جی ایک تو اس کے بچے اسکول جاتے ہیں اس لیے رات کو جلدی سو جاتے ہیں دوسرا مہمانوں کے لیے صحن میں الگ سے ایک کمرہ ہے غلام شبیر نے ناگوارلہجے میں جواب دیا استغفراللہ استغفراللہ میں نے بات چیت کا سلسلہ وہیں روک دیا کیونکہ میں سمجھ گیا ناگواری کا رخ میری سمت تھا اس کے بعد میرے سامنے نوراں کا ذکر تب ہوا جب میں اپنے اور اپنی زوجہ کے حج بیت اللہ کی غرض سے کاغذات بنوا رہا تھا زوجہ کا ایک بھانجا ان دنوں وزارات مذہبی امور میں کلرک تھا اس کی وساطت سے درخواست کی قبولیت کی قوی امید تھی کاغذات فائل میں اکھٹے کیے ہی تھے کہ غلام شبیر کاغذات اٹھائے اندر داخل ہوا میاں صاحب اجازت ہو تو ایک بات عرض کروں ؟ہاں کہو کہنے لگا میاں جی آپکی وذارت میں واقفیت ہے ایک درخواست دینی تھی اس نے ہاتھ میں تھامے کاغذات میری جانب بڑھائے دیکھو غلام شبیر تم اچھی طرح جانتے ہو میں گھر اور مسجد تم پر چھوڑے جا رہا ہوں اور پھر تمھارے پاس حج کے لیے پیسے کہاں سے آئے ؟نہیں میاں جی آپ غلط سمجھے یہ کاغذات میرے نہیں نوراں کے ہیں اس نے سہم کر کہا تم ہوش میں تو ہو میرے تو تن بدن میں آگ لگ گئی نوراں اپنی ناپاک آمدنی سے مکے مدینے جائے گی؟میاں جی طوائف ہے مگر مسلمان بھی تو ہے اور وہ تو اللہ کا گھر ہے وہ جس کو بلانا چاہے بلا لے اس کے لیے سب ایک برابر، ایک طرح سے غلام شبیر نے بڑی گہری بات کی اچھا اللہ جس کو بلانا چاہے تو پھر نوراں سے کہو درخواست سیدھا اللہ میاں کے پاس ہی بھیج دے میں نے غصے سے کہا اور اندر چلا گیا زوجہ کا بھانجا برخوردار نکلا اور درخواست قبول ہو گئی ٹکٹ کے پیسے کم پڑے تو اسی بھلی لوک کے جہیز کے زیور کام آ گئے اللہ کا نام لے کر ہم روانہ ہو گئے احرام باندھا تو گویا تمام عمر کے گناہ اتار کے رکھ دیے اللہ کا گھر دیکھا اور جی بھر کے دیکھا فرائض ادا کرتے کرتے رمی کا دن آ گیا بہت رش تھا لاکھوں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتاسمندر ،گرمی بھی بہت تھی میرا تو دم گھٹنا شروع ہو گیا زوجہ کی بھی حالت غیر تھی اوپر سے یہ غضب ہوا کہ میرے ہاتھ سے اس غریب کا ہاتھ چھوٹ گیا ہاتھ کیا چھوٹا لوگوں کا ایک ریلا مجھے رگیدتا ہوا مجھے کہاں سے کہاں لے گیا عجب حالات تھے ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی ہر کوئی اپنی جان کی فکر میں تھا میں نے بھی لاکھ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن میرا پیر رپٹ ہی گیا میں نیچے گرا تو ایک عذاب نازل ہو گیا ایک نے میرے پیٹ پہ پاؤں رکھا تو دوسرے نے میرے سر کو پتھر سمجھ کر ٹھوکر رسید کی میں نے کلمہ پڑھا اور آنکھیں بند کر لیں اچانک کسی اللہ کے بندے نے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر کھنچا اور مجھے سہارا دیکر کھڑا کر دیا میں نے کھڑے ہو کر سانس درست کی اور اپنے محسن کی طرف نظر کی تاکہ اس کا شکریہ ادا کروں تو مانو مجھ پر بجلی ٹوٹ کر گری کیا دیکھتا ہوں کہ میرا ہاتھ مضبوطی سے تھامے نوراں کنجری کھڑی مسکرا رہی ہے وہ ناپاک عورت یہاں کیسے آ گئی؟اس کی حج کی درخواست کس نے اور کب منظور کی ؟میں نے ہاتھ چھڑانے کی بہت کو شش کی لیکن وہ میرا ہاتھ مضبوطی سے تھا مے مجھے کھینچتی ہوئی ایک طرف لے گئی جہاں کچھ عورتیں اکھٹی تھیں اچانک میری نظر زوجہ پر پڑی جس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بے تاب نگاہوں سے مجمع کو ٹٹول رہی تھی مجھ سے نظریں ملیں تو سب کلفت بھول گئی میں دوڑ کر اس تک پہنچا اس کے آنسو پونچھے کہاں چلے گئے تھے آپ اگر کچھ ہو جاتا تو؟پریشانی میں اس کے الفاظ گلے میں اٹک رہے تھے میں کیا بتاؤں میں تو مرتے مرتے بچا ہوں کوئی نیکی کام آ گئی ورنہ میں پاؤں تلے روندا جا چکا ہوتا اگر نوراں نہ بچاتی میں نے اسے تسلی دی ۔ہماری پڑوسن نوراں وہ یہاں کہاں سے آگئی آپ نے کسی اور کو دیکھا ہو گا وہ نوراں ہی تھی میں نے نوراں کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں مگر وہ تو نجانے کب کی جا چکی تھی خدا خدا کر کے حج پورا ہوا اور ہم میاں بیوی وطن واپسی کے لیے روانہ ہوئے لاہور ائر پورٹ پر غلام شبیر ہار پھولوں سمیت استقبال کے لیے موجود تھا بہت مبارک باجی اور میاں جی بلکہ میں تو اب آپ کو حاجی صاحب کہوں گا غلام شبیر مسکراتے ہوئے بولا تو میری گردن حاجی صاحب کا لقب سنتے ہی اکڑ گئی میں نے خوشی سے سرشار ہوتے ہوئے اس کے کندھے پر تھپکی دی اور سامان اٹھانے کا اشارہ کیا ٹیکسی میں بیٹھتے ہی میں نے غلام شبیر سے گھر اور مسجد کی خیریت دریافت کی تو نوراں کا خیا ل آ گیا گلام شبیر نوراں کا سناؤ میرا اشارہ اس کی حج درخواست کی طرف تھا اس بے چاری کا کیا سناؤں میاں جی لیکن آپ کو کیسے پتہ چلا اس نے حیرانگی سے پوچھا بس ملاقات ہوئی تھی مکے شریف میں ،میں نے اس کے لہجے میں چھپی اداسی کو اپنی غلط فہمی سمجھا مکے شریف میں ملاقات ہوئی تھی مذاق نہ کریں میاں جی نوراں تو آپکے جانے کے اگلے دن ہی قتل ہو گئی تھی اس نے میرے سر پہ بم پھوڑا قتل ہو گئی تھی؟ جی میاں جی بے چاری نے حج کے لیے پیسے جوڑ رکھے تھے اس رات کوئی گاہک آیا اور پیسوں کے لیے اس غریب کو قتل کردیا ہمیں تو صبح ہی پتہ چلا جب اس کے بچوں نے لاش دیکھی غلام شبیر کی آواز آنسووں میں بھیگی ہوئی تھی قاتل کا کچھ پتہ چلا ؟ میں ابھی تک حیرانگی کی گرفت میں تھا کہاں میاں جی پولیس کے پاس اتنا وقت کہاں کہ طوائفوں کے قاتل ڈھونڈتی پھرے اس بے چاری کی تو نماز جنازہ میں بھی کل تین افراد تھے دو گورکن اور ایک میں اور اس کے بچے؟ میں نے آنکھوں میں امڈتے آنسو پونچھتے ہوئے کہا وہ نوراں کے بچے نہیں تھے میاں جی غلام شبیر نے میرے کان میں سرگوشی کی طوائفوں کے محلے میں جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اسے راتوں رات کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے وہ سب ایسے ہی بچے ہیں نوراں سب کے حالات جانتی تھی جس کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا اسے اٹھا لاتی کہنے کو طوائف تھی مگر میں گواہ ہوں میاں جی غریب جتنا کماتی بچوں پہ خرچ کر دیتی بس حج کے لیے کچھ پیسے الگ سے جوڑ رکھے تھے جو اس کا قاتل لوٹ کر لے گیا یہ بتاؤ غلام شبیر جب میں نے اس کی حج درخواست جمع کرانے سے انکار کیا تو اس نے کیا کہا؟ مجھ پر حقیقتوں کے در کھلنا شروع ہو گئے تھے بس بے چاری کیا کہتی میاں جی آنکھوں میں آنسو آ گئے آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے اور کہنے لگی بس تو ہی اس کنجری کو بلا لے تو بلا لے مجھ پر تو گھڑوں پانی پڑ گیا تاسف کی ایک آندھی چل رہی تھی ہوا کے دوش پر میری خطائیں لرز رہی تھیں گناہوں کی مٹی چل رہی تھی اور میری آنکھیں اندھیائی جا رہی تھیں اب کیوں روتے ہیں میاں جی آپ تو اس کو ناپاک کہتے تھے غلام شبیر نے میری آنسووں سے تر داڑھی کو دیکھ کر کہا ،کیا کہوں غلام شبیر کہ کیوں روتا ہوں ،ناپاک وہ نہیں تھی ناپاک تو ہم ہیں جو دوسروں کی ناپاکی کا فیصلہ کرتے ہیں نوراں تو اللہ کی بندی تھی جسے اللہ نے اپنے گھر بلا لیا میری ذلت بھری ہچکیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور غلام شبیر کچھ نہ سمجھتے ہوئے مجھے تسلی دیتا رہا ٹیکسی محلے میں داخل ہوئی اور مسجد کے سامنے کھڑی ہو گئی اترا ہی تھا کہ نوراں کے دروازے پر نظر پڑی ایک ہجوم اکھٹا تھا وہاں کیا بات ہے غلام شبیر لوگ کیوں اکھٹے ہیں ؟میرے خیال میں پولیس والے ایدھی سینٹر والوں کو لائے ہیں وہی لوگ بچوں کو لے جائیں گے کیونکہ اب ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں رہا میں نے زوجہ کا ہاتھ پکڑا اور غلام شبیر کو پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے نوراں کے دروازے کی طرف بڑھ گیا کہاں چلے میاں جی؟ غلام شبیر نے حیرانگی سے کہا نوراں کے بچوں کو لینے جا رہا ہوں آج سے وہ میرے بچے ہیں اور مسجد کا نام میں نے سوچ لیا ہے اس کا نام نور مسجد ہو گا

Back to top button