خیبر پختونخواہ میں ملنگ کی شہنشایت
حدِ ادب
انوار حسین حقی
خیبر پختونخواہ میں ملنگ کی شہنشایت
____________
خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کے معاملات بتا رہے ہیں کہ ’’ کپتان ‘‘ سے محبت کرنے والے کارکن دیوار سے لگائے جا رہے ہیں ۔ جو تبدیلی کے نعرے پر لبیک کہتے ہوئے گھروں سے نکلے تھے حیرانی کے عالم میں ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے ورکروں ا ور ووٹروں کی جدوجہدسے بننے والی حکومت کے وزراء اور ارکانِ اسمبلی اپنے گروپوں اوررشتہ داروں کی سیاست میں مصروفِ عمل ہیں ۔یہاں کی سیاست میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار اس صوبے کی وہ خواتین ہیں ۔ جو عمران خان کے مشن کی تکمیل کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کی غرض سے میدانِ عمل میں نکلی تھیں ۔ خیبر پختونخواہ کی قبائلی معاشرت میں ان خواتین کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ صرف بلند وبالا کہساروں کی پاکدامن بیٹیاں ، بہنیں اور مائیں ہی جانتی ہے ۔ پرویز خٹک کی حکومت کے بعض وزراء اور کئی ارکانِ اسمبلی کا خواتین ونگ کے حوالے سے جو کردار ہے اخبار کے صفحات اُ س کی اشاعت کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے ۔
خیبر پختونخواہ کی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی پرویز خٹک پر اقرباپروری کے الزامات لگنا شروع ہو گئے تھے مختلف مواقع پر کپتان کو بھی اس سلسلہ میں میڈیا کی جانب سے تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ بلدیاتی انتخابات کے دوران ٹکٹوں کی تقسیم میں اقربا پروری کے حوالے سے تو کپتا ن کو معافی بھی مانگنا پڑی تھی ۔ خواتین ونگ میں یہ شکایت عام ہے کہ ’’ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی بھابی محترمہ نفیسہ خٹک گذشتہ دوسالوں سے’’ فریال تالپور ‘‘ بنی ہوئی ہیں ۔ ان کے حوالے سے پی ٹی آئی کی سینٹر ثمینہ عابد اور ایم پی اے نادیہ بشیر کا نام بھی سامنے آرہا ہے ۔ بعض ذرائع آزاد کشمیر کی بیوروکریسی سے فوائد حاصل کرنے کی کہانیاں بھی سُنا رہے ہیں ۔ دو ارب روپئے کی خطیر رقم کے ٹھیکے کی باتیں بھی سُننے میں آ رہی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ان تمام معاملات کی رپورٹ کپتان کو بھی ہو چُکی ہے۔ چار جون کو تحریک انصاف کے صوبائی سیکریٹریٹ میں نسیم حیات ایم پی اے کی صدارت میں خواتین ونگ کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں پشاور ، ملاکنڈ، ہزارہ ،اور ساؤتھ ریجن کی تمام خواتین رہنماء شریک تھیں ۔ اس اجلاس میں نفیسہ خٹک اور منزہ حسن کی مذمت کی گئی ہے ۔ اور ’’گو نفیسہ گو ‘‘ اور ’’پیراشوٹ انٹری نا منظور ‘‘ کے نعرے بھی لگائے گئے ۔
کئی سال پہلے جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں ایک سفر کے دوران میں نے کپتان سے سوال کیا تھا’’آپ نے ساری عمر گیندیں پھینکیں ہیں۔وکٹیں اُڑائیں ہیں۔ قومی ہیرو ہیں۔اب آپ سیاست میں آگئے ہیں اقتدار کی منڈیر پر بیٹھ جاتے تو اچھا ہوتا ۔اپوزیشن میں رہ کرآپ نے کیا حاصل کیا ہے۔‘‘ عمران خان نے بغیر کسی وقفے کے جواب دیا تھا۔اقتدار سب سے بڑا دشمن ہے ۔ اگر میں اپنے ضمیر کو نیلام کرکے خود کو اقتدار کی غلام گردشوں میں گم کردوں تو میرا انجام بھی دوسرے مفاد پرستوں کی طرح ’’ تاریخ کا کوڑے دان ‘‘ ہوگا۔گذشتہ 20 سالوں میں عمران خان نے اپنے عمل سے وہ کچھ ثابت کیا ہے جو ہمارے بڑے بڑے سیاستدان اور بڑی بڑی جماعتیں کئی عشروں کے بعد بھی نہیں کر سکیں۔ عمران خان کی استقامت نے کرکٹ کے ہیرو کو ’’ قومی ہیرو ‘‘بنا دیا ہے۔ لنڈی کوتل سے گوادر اور تربت تک اور سندھ سے ہند تک اس نے اپنی ایک نئی شناخت پائی ہے۔لوگ اس کی باتیں دلچسپی سے سنتے اور دل و دماغ پر نقش کر لیتے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت ’’ کپتان ‘‘ کے لئے ایک آزمائش سے کم نہیں ہے۔اس حکومت نے ’’ خطہ غیرت اور قریہ حیرت‘‘ خیبر پختونخواہ میں سُرخ پوشوں کے نظریے کی امین اے این پی اور مولانا حُسین احمد مدنی مرحوم کے فلسفہ قومیت کی وارث جمیعت العلمائے اسلام کے بتانِ وہم و گُماں کا طلسم توڑ کر رکھ دیا ہے۔۔۔ صوبہ سرحد میں تبدیلی واضح طور پر محسوس ہو رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن ناموافق طبیعت کا شکار ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری سے علیحدگی کی عد ت پوری کیئے بغیر ہی مسلم لیگ ن کی مرکزی حکومت میں اپنے بااعتماد ساتھیوں کو ’’ بھرتی ‘‘ کروانے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ نہیں کیا تھااور 1977 ء میں نظامِ مصطفی کے نفاذ کے لیئے چلائی جانے والی تحریک کے قائد مولانا مفتی محمود ؒ کا وارث اور جانشین ہونے کے باوجود وہ کہنے لگے ہیں کہ ’’ان کی اور نواز شریف کی سیاست ایک ہے ‘‘۔
سازشوں کے اس دور میں بھی ’’کپتان ‘‘ کے ساتھ اُس کے بے ریا ورکرز اور پرانے ساتھی ہیں جو کل بھی اُس کا مان تھے اور آج بھی اُس کا اعتبار ہیں۔لیکن کے پی کے میں پارٹی کے اندرونی معاملات کے حوالے سے منظرِ عام پر آنے والی خبروں سے عمران خان کے چاہنے والے تشویش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عمران خان کے ’’ملنگ ‘‘ وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء جن میں خاص کر شاہ فرمان نمایاں ہیں اپنے حوالے سے منفی تائثر کو زائل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔پہلے پہل ایسی خبروں کے حوالے سے یہ تائثر دیا گیا تھا کہ ایسی خبریں وہ لوگ پھیلا رہے ہیں جو جو کے پی کے میں صوبائی حکومت کی کامیابیوں سے خائف ہیں ۔۔۔
یہ درست ہے کہ عمران خان کی پے درپے کامیابیوں نے بڑی جماعتوں کو مستقبل کے حوالے سے پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے ذولفقار علی بھٹو مرحوم کا نواسہ اور پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کا چےئر میں بلاول بھٹو فرسٹریشن کا شکار ہو کر عمران خان کے بارے میں رانا ثناء اللہ کے لہجے میں بات کرنے لگا ہے۔ اسفند یار ولی خان کی اے این پی اور مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی اپنی خواہشات کی حسرتوں میں تبدیلی پر بہت پریشان ہے۔ یہ پریشانی ابھی مزید بڑھے گی کیونکہ جو لوگ کپتان کو جانتے ہیں انہیں یہ یقین ہے وہ میرٹ کی خلاف ورزی اور بے ایمانی کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دیتا ۔ ان کے کزن ماجد خان ان کو کرکٹ میں لانے کا ذریعہ بنے تھے ۔لیکن جب بطور کپتان قومی کرکٹ ٹیم عمران خان نے محسوس کیا کہ ماجد خان کی کارکردگی بہتر نہیں رہی تو انہوں نے انہیں ٹیم سے باہر کر دیا ۔۔ عمران خان خود بتاتے ہیں اس وجہ سے ماجد خان نے ان سے چودہ سال تک بات نہیں کی ۔پی ٹی آئی کو انہوں نے کبھی اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کی جماعت نہیں بننے دیا ۔ میانوالی میں اپنے چچا زاد بھائیوں سے بھی میرٹ کے معاملے پر ان کا اختلاف پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے ان کے اور ان کے چچا زاد بھائیوں کے درمیان سنجیدہ نوعیت کے خاندانی تنازعے پیدا ہوئے۔ عمران خان کی ذاتی زندگی پر نظر دوڑائیں، عمران خان کی شادی کے بعد ان کی بیوی جمائما خان کا ہمیشہ یہ اصرار رہا ہے کہ ان کے بچے انگلستان میں پڑھیں گے اور عمران خان بھی ان کے ساتھ برطانیہ میں ہی رہیں گے۔جمائما خان عمران خان کو لندن سے بار بار پیغام بھیجتی تھیں کہ ’’پاکستان چھوڑکر یہاں آ جاؤ۔ مجھے رکھو یا پاکستان کو ،کسی ایک کا انتخاب کر لو ‘‘۔عمران خان نے اپناگھر بسانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن پاکستان چھوڑنے کے مطالبے پر ہر بار ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھاکہ ’’ میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتا ‘‘۔۔
عمران خان شروع ہی سے خود سر تھے لیکن علامہ اقبالؒ کو پڑھنے کے بعد انہوں نے اپنی خود سری کو خوداری کے خوبصورت پیکر میں بدل لیا ہے۔ ان کی باتوں میں اب ’’ اقبالیات ‘‘ کا رنگ نمایاں ہوتا ہے ۔ وہ کہتا ہے ’’جو شخص کلمہ طیبہ کی روح اور فلسفے کو سمجھ لیتا ہے۔ وہ جھوٹے خداؤں کی دہلیز پر نہیں جھکتا۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزراء اور پارٹی کے ذمہ داران کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ کپتان کے نوٹس میں جب بھی کوئی مصدقہ حقائق أئے تووہ ایکشن لینے میں تاخیر نہیں کریگا۔ خیبر پختونخواہ کے تین وزیروں کا حال سب کے سامنے ہے۔
آنے والے دن ہماری قومی زندگی کے اذیت ناک لمحے ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں قوم کی رہمنائی کرنے والے ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے ہیں۔سیاسی جماعتوں باالخصوص مذہبی سیاسی جماعتوں کی بے بصر اور بے ثمر قیادت کو دیکھ کر دل ڈرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں قوم کربناک او ر دردناک منظر کا نقش بنتی جارہی ہے۔ یہ حالات دونوں بڑی جماعتوں کے لئے سیاسی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ ۔ قوم ملک کے مستقبل سے مایوس نہیں کہ مایوسی گناہ ہے۔ ہاں البتہ وقت کا ’’ صوفی ‘‘ حالات کے دھارے کو دیکھتے ہوئے اب یہ کہنے لگا ہے کہ ’’ دونوں بڑی جماعتوں کی حامی قوتیں تحریک انصاف اور اس کے سربراہ کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے کا عمل تیز کر دیں گی ۔ اور ابھی سے محسوس ہونے لگا ہے کہ ’’ کپتان ‘‘ کو اپنوں اور غیروں کی سازشیں گھیرے میں لینے کی کوششیں کر رہی ہیں۔