کالم

پروفیسر نعیم مسعود کا اچھُوتا کالم ” نظرِ قلم "

نعیم مسعود|
ایک دن پارلیمان میں اور تلاشِ چارہ ساز !
شہر اقتدار اسی لئے پرکشش ہے کہ وہاں کے ایک وسیع و عریض اور دلآویز ہال میں ’’قانون ساز‘‘ افراد جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ اس دلکشی اور دلربائی کے محور و مرکز دونوں ہی طبقات ہوتے ہیں وہ چاہے حزب اختلاف سے ہوں یا حزب اقتدار سے۔ دراصل اس حسن و جمال کے پس منظر میں لوگوں کی امیدیں اور خواہشات دیپ جلائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ ورنہ شہر تو اور بھی بہت بہت خوبصورت ہیں۔ سرسبز و شاداب وادیاں اور حسین و جمیل مراکز اور بھی ہیں۔
آخر عوام کیلئے اسلام آباد ہی باعث کشش کیوں اور امیدوں کا مرکز کیوں؟ مگر اس ساری دلبری میں ان سوالوں کا کیا کریں جو بار بار جنم لے کر عوامی زخموں پر زہر آلود نشتر زنی کرتے ہیں؟
پچھلی جمعرات قومی اسمبلی کے ہال کی ایک مہمانوں کی گیلری میں بیٹھا میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتا رہا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ساری ٹوٹی ہوئی امیدیں میرے جسم میں سرایت کر چکی ہوں۔ جیسے سارے عوام میرے رگ و پے میں بسیرا کئے ہوئے ہوں اور میں محرومیوں کے ماتم کی بازگشت سے کان بند کرنے کی کوشش میں ہوں۔ نہ جانے میں 20 کروڑ عوام تھا یا میں اکیلا تھا یا پھر میں اور عوام ہم دونوں یکجان ہو کر اکیلے تھے؟ اس سوال کا جواب میرے پاس تفصیلاً موجود ہے ،اور شاید ایک لفظ بھی نہیں۔ اس ’’ٹھنڈ پروگرام‘‘ میں میرا خون شریانوں میں جمنے کیلئے تیار تھا لیکن محرومیوں‘ ناانصافیوں‘ وعدہ خلافیوں‘ فریب کاریوں اور تساہل پسندی کے اثرات کی ہلکی ہلکی آنچ نے میرے لہو کو جمنے سے بچا رکھا تھا۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف بار بار بی بی سی کی ایک رپورٹ کی لفاظی میرے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی تھی:۔۔۔۔۔ ’’تھیٹر ویران‘ پارلیمان آباد‘‘ ۔۔۔لیکن کہاں بھئی میں نے تو پارلیمان کو ویران پایا۔ اپوزیشن بائیکاٹ پر تھی کیونکہ نہایت اہم اور سنجیدہ امور کے وزیر جناب خواجہ آصف کی شیریں بیانی سے اور ’’انتہائی سنجیدہ گفتگو‘‘ سے پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی کی ڈاکٹر شیریں مزاری کی ’’عزت افزائی‘‘ ایک ہی روز قبل عمل میں آئی تھی۔ قارئین کرام! خواجہ آصف کی لفاظی میں اس قدر رنگ و جمال تھا بقول ازخود خواجہ صاحب اس پائے کی ’’رنگ بازی‘‘ تھی کہ میں نے آج کے اپنے وقت ٹی وی پروگرام (12 جون) کو تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اپنے اینکر پرسن اسامہ بن مجید سے کہا کہ وہ لفظ ہی پورے پروگرام میں لب پر نہیں لائے جائیں گے اور ہم پابند رہے۔ لیکن؎
یہ ترے شبستانوں سے مرے نخلستانوں تک
فیصلوں کے تصادم اور فضا کے جھگڑے ہیں
جس پارلیمان میں سنجیدگی کا ڈیرہ ہونا چاہئے تھا۔ وہاں میں نے اپنی گنہگار آنکھوں سے غیر سنجیدہ رویوں کو رقص کرتے دیکھا ہے۔ سینئر وزراء کی اکثریت تو موجود ہی نہیں تھی تاہم جتنے بھی ن لیگی موجود تھے ان کے چہروں پر ایک فیصد بھی کوئی ملال یا سنجیدگی نہ تھی کہ کہیں وہ کورم پورا کر سکیں یا رکھ سکیں (جو ہمیشہ حکومتی ذمہ داری ہوتی ہے) یا ان کے ایک سینئر کی رعونیت سے ایوان محض ایک ہال کا منظرنامہ پیش کر رہا ہے۔ نماز ظہر کے دوران جب پورا پارلیمان سرگوشیوں‘ بغیر اجازت چلنے پھرنے اور عدم دلچسپی کی آماجگاہ بن گیا تو سپیکر ایاز صادق نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور آبروئے ایوان اور سپیکر بچانے کیلئے کوچ کر گئے اور واپسی پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کو کارروائی کے چل چلاؤ کیلئے بھیج دیا۔ اس سارے پیش منظر میں ن لیگی سنجیدہ طبقے اور ان کھمبوں کا بھی خیال یہی تھا (جو محض ٹکٹ کے سبب رونق ایوان بنے) کہ خواجہ صاحب والی بات میڈیا نے اچھالی ہے ورنہ خواجہ آصف اور ان کی معصومیت تو ہیں ہی بے گناہ۔۔۔۔۔۔۔
اچھا بابا! مان لیا خواجہ آصف کا نہیں میڈیا ہی کا قصور ہے۔ کیونکہ پچھلی حکومت کے خلاف میڈیا نے سچ اُگل کر ن لیگ کا راستہ جو ہموار کیا تھا اور آج طالبان‘ لوڈشیڈنگ‘ بینظیر بھٹو کی موت سے خلاء کی پیدائش اور میڈیا گری ہی کی بدولت حالات کے ہاتھوں بنے ہوئے پتھر کے صنم بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں۔ لیکن اس بین الاقوامی میڈیا کمپنی کا کیا کریں جو کہتی ہے کہ:
پاکستانی پارلیمان میں بولی جانے والی زبان ایسی ہے جیسے کسی بوائز ہاسٹل کا لب و لہجہ؟
قارئین باتمکین! میری قسمت میں مشرف لیگ کے واحد ممبر قومی اسمبلی افتخار الدین کی تقریر آئی جو بے ربط بھی تھی اور بے مزہ بھی۔ کیا کروں دل چاہتا ہے کبھی سکندر بوسن (وفاقی وزیر) کو بھی ایوان میں تقریر کرتے یا کچھ ترقی کی داستان سناتے سنوں لیکن ایسا آج بھی نہ تھا سکندر بوسن سے خوش گپیوں اور خوش فہمیوں میں پھرتے رہے تاہم اکرم انصاری (فیصل آباد) کی تقریر سے گزارا کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کی ایک خاتون کی تقریر تھی جو محض وفا کا یقین تھا جو ن لیگ کو سنایا جا رہا تھا اور اس موقع پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کا تبسم بہرحال قابلِ دید تھا۔ ہاں اس موقع پر میں ایک ’’ننھی سی اپوزیشن‘‘ (کیونکہ فرینڈلی اور اصلی اپوزیشن تو باہر تھی) جمشید دستی کے متعلق سوچتا رہا کہ کاش یہ ذرا سنجیدہ ہو جائیں تاکہ ان کی کڑوی کسیلی باتوں کو لوگ اکسیر کا باعث جاننے لگیں۔ جمشید دستی جو آج آزاد رکن کی حیثیت سے اسمبلی میں اپنی انفرادیت رکھتا ہے کل تک یہ فریال تالپور کا بھائی تھا اور پی پی پی کا جیالا اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا دست راست تھا جو نہ رہا۔ بہرکیف اس نے ایوان میں ببانگ دہل یہ کہا کہ حمزہ شہباز شریف کو ڈی سی اوز ماہانہ کروڑوں بھیجتے ہیں اور پاناما لیگ سیاست و حکومت کیلئے بدنما داغ ہے جبکہ اپوزیشن اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے بلکہ فرینڈلی اپوزیشن ہے۔ چونکہ یہ بجٹ بحث سیشن تھا چنانچہ بجٹ کو جناب دستی نے اسحاق ڈار کا عوام پر خودکش حملہ قرار دیا۔
سب باتیں اپنی جگہ لیکن بجٹ کے حوالے سے ہم دیسی سی بات بس اتنی کہیں گے کہ بجٹ وہ جس میں غریب کو اسپرین‘ سائل کو انصاف اور طالب علم کو تعلیم مل سکے۔ برآمدات بڑھنے کا عندیہ ہو‘ کشکول ٹوٹنے کا یقین‘ نہ قرض کی تاریخ ہو اور نہ قرض لینے کا ارادہ۔ باقی سب افسانے ہیں۔ اگر حکومت زرداری دور سے زیادہ قرض لے رہی ہو اور سرمایہ کاری زرداری دور سے بھی کم ہو تو پھر ہم یہی کہیں گے کہ؎
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا
جاتے جاتے ہم یہی کہنے کی جسارت کریں گے کہ اسمبلی میں‘ میں اور عوام اکیلے لگے اور دوسری جانب اشرافیہ۔ وہ گلیاں نالیاں بنانے والے کونسلر تھے نہ مجبور لوگ۔ وہ تو قانون ساز تھے…۔۔۔۔۔ قانون ساز!!!
20 کروڑ میں سے چنے ہوئے تقریباً ساڑھے تین سو لوگ جو امیدوں کے جلتے ہوئے دیپ تھے۔ ہائے رے قسمت وہ بجھے ہوئے کیوں لگے؟ وہ غیر سنجیدہ کے بجائے فہمیدہ کیوں نہ لگے؟ گر وہ مرہم نہیں تو وہاں کیوں ہیں؟ خود حکومتی ممبران کے مطابق سائرہ افضل تارڑ وزیر مملکت برائے ہیلتھ سروسز نے وزیراعظم ہیلتھ سکیم اپنی نااہلی کے سبب بیوروکریسی کی سویٹ ڈش کیوں بنا دی؟ پھر ن لیگی اراکین اسمبلی کے اپنے مطابق اگر عثمان ابراہیم‘ عبدالحکیم بلوچ‘ بلیغ الرحمن‘ برجیس طاہر‘ سکندر بوسن اور رانا تنویر میں احسن اقبال‘ نثار علی خان اور سعد رفیق سی صلاحیتیں نہیں تو وہ وزیر کیوں ہیں؟
وزیراعظم صاحب!
مٹ جائے گی مخلوق تو صحیح وزیر دو گے… وزراء میں سنجیدہ بھرتی کا حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے۔ ماجھے ساجھے چہروں کی جگہ قانون ساز اور اصول ساز چہرے ایوان کو کیوں نہیں دیتے؟

Back to top button