کالم

اجمل جامی کی منفرد تحریر . شلوار ، تیزاب اور پٹرول

شلوار، تیزاب اور پٹرول ……………. تحریر اجم جامی

وہ چارسال سے اسی ادارے میں ملازمت کرتا چلا آ رہا تھا۔ ہلکی خشخشی داڑھی، کبھی کبھار سر پر کپڑے کی جالی دار ٹوپی یا کالا رومال اوڑھے اسے ہمیشہ صوم و صلوٰۃ کی مثالی پابندی کرتے دیکھا۔ عمر چالیس کے قریب، قد کاٹھ اور فہم و فراست میں قدرے عامیانہ اور پیشے کے اعتبار سے خود کو ڈرائیور کہلوانے پر مصر تھا۔ اسی ‘پیشہ ورانہ ‘مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موصوف چھے بار چھے مختلف گاڑیاں مکمل طور پر ‘ٹھوک’ چکے تھے۔ اہم شاہراوں پر چالان، شیشے توڑنا یا بمپر بونٹ پر رگڑیں وغیرہ وصول کرنا گویا معمول تھا۔ مساجد میں علمائے کرام کے خطبے سننا اور پھر بعد میں ان پر سیر حاصل گفتگو کرنا اسے بے حد پسند تھا، کوئی سینئر جب تھوڑا بے تکلف ہوتا تو وہ بے دھڑک کسی شرعی موضوع پر اس امید کے ساتھ گفتگو شروع کر دیتا کہ صاحب یقیناً اس کے خیالات سے متاثر ہو کر اسے ایک عالم فاضل ہستی تسلیم کر لیں گے۔ پوٹھوہاری ہونے کے باوجود چینی نسل کے سیل فونز کی خرید و فروخت اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ آس پاس کے دفاتر میں موصوف کا آنا جانا ایسے ہی تھا جیسے گھومنے والے دروازے کے پاٹ ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے چلے آتے ہیں۔ کالج روڈ پر شاید ہی کوئی ایسا چوکیدار، سیکیورٹی گارڈ، آفس بوائے یا ڈرائیور ہو جو خوشنود نامی ڈرائیور کو نہ جانتا ہو۔ ایڈمن آفیسر جیسے ہی خوشنود کو یاد کرتا، معلوم ہوتا موصوف ساتھ والے ہمسایوں کے کام سے کہیں بازار گئے ہیں۔ لیکن اگر کبھی کبھار وہ اپنے ہاں بھی ڈیوٹی کے لئے دستیاب ہوتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے خوشنود کئی دنوں سے تھکا ہارا ہے، ہلکے بخار اور جسم درد کے ساتھ ساتھ چکر آنے جیسی شکایات سنانے کے بعد ہی گاڑی سٹارٹ ہوتی۔ تیرہ سو سی سی کار ٹریکٹر ٹرالی کی مانند کب سے چلنا شروع ہو گئی، یہ آپ کو خوشنود کے ساتھ سفر کر کے ہی معلوم ہو سکتا ہے۔
رمضان سے دو روز پہلے دفتر کا کوریڈور کسی سرکاری سکول کے کلاس روم کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ڈائریکٹر ایڈمن بنا بتائے ہفتہ بھر غیر حاضر رہنے پر خوشنود کو خوب ڈانٹ رہا تھا۔ ویسے تو ہر جمعے کی سہ پہر یا سر شام ‘خوشنود بمقابلہ ڈائریکٹر ایڈمن’ معرکہ معمول کی کارروائی تھا لیکن اس روز معاملہ کچھ زیادہ ہی سنجیدہ معلوم ہو رہا تھا، کیونکہ ڈائریکٹر ایڈمن میجر (ر) تفضل اقبال کسی جنگلی ریچھ کی مانند دھاڑ رہا تھا کہ تم اس سے پہلے بھی درجنوں بار بنا بتائے غائب رہ چکے ہو، جس کام بھیجا جائے وہ کبھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا، جس گاڑی پر بھیجا جائے وہ کبھی صحیح سلامت واپس نہیں آئی تو پھر مجھے کتنے نفلوں کا ثواب ہے کہ میں تمہیں برداشت کروں؟
خوشنود نے حسبِ معمول ‘کھوچل’پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے رونی صورت بنائی اور معصومانہ انداز میں سوری سر کہتے ہوئے کہا، “آئندہ شکایت نہیں ہوگی سر! آپ کو اپنی اکلوتی بیٹی کا واسطہ ایک موقع اور دے دیجئے پلیز!”۔ ڈائریکٹر ایڈمن بظاہر سخت مزاج تھا لیکن بیٹی کا ذکر سنتے ہی وہ شانت پڑ جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس روز خوشنود کو نوکری سے فارغ کرنے کے مصمم ارادے کے باوجود میجر (ر) تفضل اقبال کو اپنے عزائم سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ریٹائرڈ فوجی نے خوشنود کی دفتر میں مشروط واپسی کی حامی بھر لی لیکن احتیاطاََ معافی کے عوض کسی سینئر کی ضمانت مانگی۔
میں چائے پی کر واپس دفتر کے دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ معلوم ہوا کہ خوشنود کی نگاہیں مجھے ہی تلاش کر رہی تھیں، صورتحال کا اندازہ تو ہو ہی چکا تھا یعنی خوشنود کی فنکاریاں اور اس پر میجر تفضل کا غضب۔ لہٰذا تفصیلات جانے بغیر افسوس کا اظہار کیا اور اسے تمام تر تعاون کی یقین دہانی کرا دی۔ میجر صاحب کسی زمانے میں ہم مکتب رہے تھے، سگریٹ پر ملاقات ہوئی تو خوشنود کی سفارش کر دی کہ یار غریب بندہ ہے، تھوڑی نرمی کرو، دین دنیا میں بھلا ہوگا۔ یہ کہنا ہی تھا کہ میجر صاحب نے جواب میں ایک مکمل چارج شیٹ پیش کر دی جس میں خوشنود کی پیشہ وارانہ بددیانتیاں سر چڑھ کر بول رہی تھیں۔ خیر! وعدہ کر رکھا تھا لہٰذا انہیں قائل کر ہی لیا۔ اور یوں چار برس میں انیسویں بار خوشنود کی دفتر میں ‘باعزت’ واپسی ممکن ہوئی۔ خوشنود سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت خوش تھا، اس نے ترقی کی دعائیں دیں اور عہد کیا کہ اب کبھی بھی وہ اپنے حکام بالا کو شکایت کا موقع نہیں دے گا۔
اس واقعے کو ابھی بمشکل جمعہ جمعہ ‘چار دن’ ہی گزرے ہوں گے کہ میجر صاحب بیٹی کی شادی کے سلسلے میں ہفتہ بھر کی رخصت پر چلے گئے، انتظامی معاملات ان کی جونئیر مس مائرہ کو سونپ دیے گئے۔ میجر صاحب کا جانا ہی تھا کہ خوشنود ایک بار پھر ‘استاد خوشنود’ بن گیا، یعنی نئے انداز میں وہی پرانی فنکاریاں۔ مس مائرہ کی بار بار تنبہیہ کے باوجود خوشنود بے قابو ہوتا چلا گیا، آس پاس کے عملے نے بہتیرا سمجھایا مگر استاد خوشنود کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا تھا، ساڑھے چار سو لیٹر پٹرول غائب ہوا تو کیمرے کی آنکھ نے استاد خوشنود پر سرخ جھنڈی لہرا دی۔ مس مائرہ نے فوراً خوشنود کو طلب کیا، چارج شیٹ پیش کی اور شدید طیش میں اسے کھری کھری سنا ڈالیں۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ وہ خوشنود جو ایسی صورتحال میں ہمیشہ رونے والی شکل بنا کر معافی کا طلبگار ہوا کرتا تھا اب کی بار ترکی بہ ترکی جواب دیتا رہا، یہی نہیں بلکہ تو تو میں میں کرتے کرتے خوشنود کو خیال نہ رہا کہ کب وہ اخلاقیات کا جنازہ نکال چکا ہے اور سامنے کھڑی خاتون کو دفتر کے بھرے کوریڈور میں گالیوں سے نواز رہا ہے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو سکیورٹی گارڈز کو طلب کر لیا گیا، اسے لگا جیسے اس کی تذلیل ہو رہی ہے کیونکہ مس مائرہ نے گارڈز کو حکم دیا کہ وہ خوشنود کو دفتر سے نکال باہر پھینکیں۔ اس سے پہلے کہ گارڈز خوشنود تک پہنچتے کمبخت نے سامنے کھڑی مائرہ کی کردار کشی شروع کر دی، اسے میجر کی چہیتی کہا اور نجانے کیسے کیسے بدنما داغوں سے مائرہ کا دامن داغدار کرنے کی کوشش کی۔ اس سب سے بھی تسلی نہ ہوئی تو مائرہ کے حسب نسب تک کا حلیہ بگاڑ دیا۔ خوشنود کو گھسیٹ کر دفتر سے باہر نکالا گیا اور چوری کے الزام میں پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
چند روز گزرے تو یوں لگا جیسے دفتر میں لوگ مس مائرہ کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے ہیں، مزید تصدیق کی تو معلوم ہوا کہ خوشنود کے مغلظات کی وجہ سے دفتر میں کام کرنے والے پڑھے لکھے جاہل واقعتاً مس مائرہ کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ میجر کے غیظ و غضب کو آسانی سے جھیلنے والا خوشنود مس مائرہ کے سامنے جانور کیوں بن گیا؟ اس نے شریف زادی کی کردار کشی کیوں کی؟ سوچا ایک بار حوالات میں جا کر خوشنود سے پوچھوں تو سہی کہ بندہ خدا آخر تجھے ایسی کیا سوجھی کہ تو نے انتہا کر دی؟ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا، حوالات کی سلاخوں پر مضبوطی سے ہتھیلیاں گاڑتے ہوئے بولا، “میری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ میں ایک عورت کے ہاتھوں ذلیل ہوں، آپ ہی بتائیں سر! بھلا ایک عورت کی اتنی ہمت کیسے ہو کہ وہ مرد کے سامنے اونچی آواز میں بات کرے؟ “
مجھے لگا جیسے میرے قدموں تلے سے زمیں نکل گئی ہو، کانوں میں سائیں سائیں کی سی آوازیں گونج رہی تھیں، دل کی دھڑکن تیز ہوئی تو خود کو سڑک پر بوجھل قدموں کے ساتھ چلتا پایا لیکن آنکھوں میں مسلسل اندھیرا سا تھا۔ کچھ دِکھائی دے رہا تھا تو شاید ایبٹ آباد کی عنبرین اور جلی ہوئی سوزوکی وین یا مری کی ماریہ کا دھندلا سا عکس یا لاہور کی زینت کی سوختہ لاش۔ کبھی خواجہ آصف شیریں مزاری کو مخاطب کرتا دکھائی دیا تو کبھی ماروی سرمد پر دھاڑتا سینیٹر حافظ حمداللہ۔ معلوم نہیں کب کب کون کون ایک عورت کے فیصلے کو تیزاب پھینک کر مسترد کر چکا ہے، کس کس نے ایک عورت کے ہاتھوں غلط ثابت ہونے سے بچنے کے لیے شلواریں کھینچی ہیں، اور کہاں کہاں خاندانوں کی عزتیں پٹرول چھڑک کر جلائی جانے والیوں نے بچائی ہیں، کون جانے استاد خوشنود کے کتنے ہمزاد ہیں اور مس مائرہ کے کتنے چہرے؟ کب کون خوشنود کس مائرہ پر تیزاب انڈیل دے، یا اس کی شلوار کھینچ لے یا اسے زندہ جلا دے کسے معلوم۔۔۔۔۔

Back to top button