شکریہ کیمرون شریف ……………. احمق کہیں کا
شکریہ کیمرون شریف
عنایت عادل
احمق۔۔ بھلا کوئی ایسا بھی کرتا ہے؟ دکھا دی ناں اپنی اوقات۔۔۔ اور وہ بھی پے درپے دوسری مرتبہ۔۔۔ ہلکا سا الزام کیا لگا ، پہلے بھاگم بھاگ اسمبلی میں جا کر گھگھیانا شروع کر دیا اور پھر اسی خوفزدگی میں وزارت عظمیٰ جیسی ’’عیاشی ‘‘ کو بھی لات مار دی۔۔ جاہل۔
اور پھر اب دیکھو۔۔ بھلے تمہیں ظالم رعایا نے ڈربے جتنا گھروندا بخش رکھا تھا، لیکن اس کا کیا مطلب کہ تم اسے چھوڑتے وقت ڈبے گھسیٹتے ہوئے دوڑتے پھرو؟ یہی سکھایا تھا ہم نے تمہیں اور تمہارے بڑوں کو؟ تم ہو ہی نا لائق قوم۔۔ کتنے سال ہم تمہیں سکھاتے رہے کہ حکمرانوں کی شان کیا ہوتی ہے، کیسے محلات ہوتے ہیں، کیسے غلام ، کنیزیں اور درباری فوج در فوج آس پاس پھیلائے رکھتے ہیں۔کیسے مور پھنک سے نکلتے ہوا کے جھونکوں کے مزے لئے جاتے ہیں، کیسے گردن کو سرو کی مانند اکڑا یا جاتا ہے، کس قسم کے لباس پر کس قسم کے قیمتی لعل و موتی اور بیش بہا دھاتوں کی ملمع کاری کی جاتی ہے، کیسے کسی گستاخ کی ہلکی سی بھنک، جلادوں کی تلواروں کی پیاس بجھانے کو بے چین رہتی ہے، کیسے مدح سرائی پر مبنی چند الفاظ ہیرے جواہرات کی طشتریوں کو ہیچ کئے رکھتے ہیں۔ کیسے شاہی قافلے چلتے ہیں اور کیسے ان قافلوں پر رعایا کی جانب سے گل پاشی کی جاتی ہے۔کیسے شاہی طبیب ہلکی سی کھانسی پر دوڑے دوڑے پھرتے ہیں اور کیسے شاہی خزانچی ریاستی جمع پونجی کو شاہی خاندان کے معاشی مستقبل کے تحفظ میں بدلنے کے لئے دن رات ایک کئے رکھتا ہے۔ہو سکتا ہے تمہیں یہ باتیں معلوم نہ ہوں کہ تمہارا تعلق ہی ایک نالائق قوم سے ہے جو ہم سے کچھ سیکھ سکی اور ناں ہی تم جیسی نسل کو ہماری تقلید کا درس دے سکی۔ بس اپنی دھن میں خرافات ہی کو تم سے پہلے اور خود تمہاری نسل تک پہنچاتی رہی اور حد تو یہ ہے کہ تم بھی اپنی آئندہ نسل کو برابری، مساوات، جوابدہی، احتساب، حقوق ، ایمانداری، دیانتداری، فرائض ، ذمہ داری ، صفائی، ستھرائی ، محنت، مشقت، انعام، اکرام، قانون ، سزا اور اس جیسی پتہ نہیں کون کون سی خرافات کی پٹیاں پڑھائے رکھتے ہو۔پاگل کہیں کے۔۔۔
ادھر ہمیں دیکھو۔۔ ہم نے اپنے تابناک ماضی کو ابھی تک سینے سے لگایا ہوا ہے۔تم جیسی احمق قوموں نے ہمیں جبراََ اس حماقت کی پیروی کرنے پر ضرور لگا دیا کہ جسے تم لوگ جمہوریت ، آئین ، قانون اور پتہ نہیں کیا الا بلا کہتے رہتے ہو۔ لیکن ہم بھلا اپنے باپ دادا کی روایت کو تمہاری گھٹیا سازشوں کے ہاتھوں ہار ماننے دیتے ہیں؟تم نے ہمارے لوگوں کو فرائض ادا کرنے کا بھونڈا سبق دیا، تم نے ہمیں حقوق حاصل کرنے پر ورغلایا، تم نے قانون اور آئین کی پاسداری کی گھٹی ڈالنے کی مذموم کوشش کی، تم نے دیانت داری اور ایمانداری کے بکھیڑوں میں الجھانے کی کوشش کی۔ تم نے خود احتسابی اور صاف شفاف انصاف کا مذاق ہم پر مسلط کرنے کی ٹھانی۔لیکن دیکھو۔۔ ہم بدلے؟ نہیں ہم اتنے احمق نہیں۔۔ تمہاری سازشوں سے ہمارے ہاں جمہوریت کا جھنڈا تو لہرا دیا گیا لیکن ہمارے عوام آج بھی خود کو رعایا کہلوانے پر ناز کرتے ہیں، بھوک مرتے ہیں، بستر پر تڑپ تڑپ کر روح مالک کے سپرد کر دیتے ہیں، تعلیم و تربیت کو ترستے ہیں، کوڑیوں کی جنس کو کئی کئی ٹیکسوں کی بدولت سینکڑوں گنا قیمت پر خریدتے ہیں، چوبیس میں سے بیس بیس اور سولہ سولہ گھنٹے بجلی کی راہ تکتے رہتے ہیں۔گرمی میں جلتے ہیں، سردی میں ٹھٹھرتے ہیں،خود کو کوستے ہیں، ریاست کو کوستے ہیں، تمہاری جیسی قوموں کی جانب سے مسلط کردہ نظام کو کوستے ہیں، ایک دوسرے کا گریبان تو کیا سر تک پھاڑ دینے کو تیار رہتے ہیں لیکن اپنے شہنشاہوں پر ایک حرف نہیں آنے دیتے۔حرف تو کیا ہم نے تو اپنی جمع پونجی انکے نام لگا رکھی ہے۔ہم اپنی ایک ایک سانس پر لگے ٹیکس کو نذرانہ سمجھ کر اپنے محبوب بادشاہوں کے چرنوں میں ڈالتے ہیں اور کبھی اس گناہ کا سوچا ہی نہیں ، کبھی اس گستاخی کا خیال ہی نہیں آیا کہ کبھی ان نذرانو ں کی منزل کا نشان بھی کبھی دیکھ سکیں۔تم جیسی سازشی قومیں کبھی وکی لیکس سے ہمیں بد راہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو کبھی پانامہ لیکس کے چیتھڑے ہمیں گمراہ کرنے کے لئے چلے آتے ہیں۔ تمہیں کیا جو ہمارے کسی شاہ نے سرے محل خرید کر لیا؟ تم ہوتے کون ہو جو ہماری کسی ملکہ کے دوبئی کے گھر کو محل بنا کر پیش کرو؟ آخر تمہیں کس نے اجازت دی کہ تم ہمارے سر کے تاج راج دلاروں کے تاج آف شور کمپنیوں کے ذریعے اچھالتے پھرو؟ ہمارے کسی عالم پناہ نے دہائیوں سے ٹیکس نہیں دیا یا کسی دربار زادے نے ہمارے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے پیسے قرض کے طور پر لے کر مشیتِ شاہی سے واپس نہیں کئے تو آخر تمہیں کیا تکلیف ہے؟تم ہمارے شہزادوں اور شہزادیوں کی صلاحیتوں سے بھی خائف رہتے ہو؟ تمہاری نسل میں اگر کوئی بارہ تیرہ سال کا بچہ تمہاری ہی نگری میں کامیاب کاروبار کرنے کے قابل نہیں ہے تو بھیج دو ناں ہماری طرف، وہ گر سکھائیں گے کہ تمہاری نگری تو کیا نگر نگر فیکٹریوں اور پلازوں کی قطار کھڑی کروا دیں گے مگر خبردار جو ہمارے ملک میں کوئی کارخانہ یا پلازہ کھڑا کرنے کی کوشش کی، ہم اپنی صاف ستھری رزق حلال کی کمائی اپنے اوپر لگانا حرام سمجھتے ہیں لہٰذا ہمارے شہنشاہ اور ان کے خانوادے ہمارے نذرانے کی رقم تم جیسے چھوٹے ملکوں اور کمزور ریاستوں کو اپنے کاروبار کی صورت میں خیرات کرنے کی شاہانہ کوشش کرتے ہیں کہ تمہاری ڈوبتی معیشت کو سہارا دیں سکیں، تمہاری ماری ماری پھرتی بے روزگار نوجوان نسل کو ڈھنگ کا روزگار دے سکیں۔ تم کیا جانوکہ ہمارے فراخ دل شہنشاہوں نے تو اس ملک کو اربوں ڈالر کی امداد کرتے ہوئے اسے سہارا دے رکھا ہے کہ جس کو تم زمین کی جنت کہتے تھکتے نہیں اور جہاں تمہاری شہزادیاں اور شہزادے ہنی مون مناتے ہوئے رنگ برنگ کی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈالتے رہتے ہیں۔ ذرا سوچو کہ اگر ہم اس جنت کے بنکوں سے اپنے ڈالر نکال لیں تو تمہارے یہ شہزادے اور شہزادیاں ہنی مون بھلا کہاں منانے جائیں گے؟تم ڈربے میں رہنے والے خود کو حکمران کہتے ہو؟ حکمران تو رائیونڈ محلوں، بلاول ہاؤسوں ، بنی گالاؤں اور اس جیسی جنتوں میں رہا کرتے ہیں۔۔ کیا کہا؟ ان محلوں کے آ س پاس رعایا کو چھت تک میسر نہیں؟ موضوع مت بدلو، یہاں موزانہ حکمرانوں کا ہو رہا ہے رعایا کا نہیں، یہ تم بے وقوف ہو جو رعایا کو سر چڑھا رکھا ہے، ہمیں اپنی غلامی سے عشق ہے،ہم اپنے باپ داد ا ، پردادا اور اس سے بھی کہیں پہلے کے اجداد کی روایت کو بھلا کیوں بھلا دیں؟ جس دن اپنے ساتھ سینکڑوں گاڑیاں، بیسیوں محافظ اور درجنوں ایمبولینسیں اور فائر بریگیڈیں گھما سکو، جس دن چند کلومیٹر کے فاصلے کے لئے ہیلی کاپٹروں کے متحمل ہو سکو، جس دن تین سو مسافروں کے ہوائی جہاز میں تن تنہا سفر کے قابل ہو سکو تو خود کو حکمران کہنا۔۔ کیا کہا ؟ ہمارے شہنشاہ کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے؟ بھول ہے تمہاری۔۔۔ ہم اس پرچم کے سائے تلے ایک ہیں کے متوالے ہیں، کوئی اٹھا کر تو دیکھے، ایسا این آر او اور ایسا میثاق جمہوریت منہ پر ماریں گے ہماری رعایا ان لیکس کے طعنے دے دے کر تم پر ہنسے گی کہ جن میں اپنا نام دیکھ کر بھیگی بلی بنتے ہوئے بوریا بستر لپیٹ لیا۔ تمہاری قسمت میں یہ شہنشائی ہو بھی تو کیسے؟ تم نے ہم سے رعایا بنانا سیکھا ہی کہاں ہے جو تمہارے درشنوں، تمہارے چرنوں اور تمہارے بھاشنوں کی عاشق ہو، تم پر لگے الزام کو سازش کہہ کر رد کر دے،ثابت کرنے کے لئے کمیشنوں کو ڈھال بنا کر میدان میں آ کھڑی ہو۔جو ٹی آر او کی چھپن چھپائی کے مزے لینے لگے۔ تم قابل ہی اسی کے ہو کہ یہ ڈبے اٹھاؤ اور جاؤ کسی کونے میں کوئی ڈھنگ کی دکان کھول لو۔۔ بڑا آیا پرائم منسٹر۔